دو بھٹو اور دیوار پناہ
مجھے کسی دوست نے کہا کہ تم بھٹو کے خلاف لکھتے ہو تو پھر تم نے اس پر نظم کیوں لکھی؟ میں نے کہا دو بھٹو ہیں۔ ایک وہ جو شاعروں کے تخیل میں ہے دوسرا حقیقی بھٹو۔
ایک وہ بھٹو جو لوک داستانوں کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ بھٹو جس نے اپنے لیے 'شاعر اور انقلابی' ہونے کا انتخاب کیا تھا جس کا اس بھٹو سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا جو سویلین ڈکٹیٹر تھا۔ سوشلسٹ وڈیرہ تھا۔ یہ اس سندہ کے رانو کی بات ہے جو کبھی نہیں آیا۔
اس نے پاکستان کی اسی سپریم کورٹ میں کہا تھا 'میں سندہ کا رانو ہوں'۔ سپریم کورٹ میں سرائیکی دیس کے اس عظیم شاعر غلام فرید کا یہ بھی شعر پڑہا تھا 'دردان دی ماری دلڑی علیل اے'۔
وہ بھٹو جسے نیویارک میں وہ امریکی صحافی پیٹریشیا اب بھی یاد کرتی ہے جس نے انیس سو چھہتر میں المرتضی لاڑکانہ میں اس کا انٹرویو کیا تھا۔ المرتضی کے ڈھاکہ لان پر کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑہائے بھٹو گھنٹوں جب تک بولتا رہا تھا اپنے ایک پاؤں کے ریشمی موزے کو اوپر نیچے کرتا رہا تھا-
پیٹریشیا اور مجھے وہ پاکستان یاد ہے۔ بھٹو اور پاکستان کی خوبصورتی پیٹرشیا کو اب تک نہیں بھولتی۔ جب فوجی بیرکوں اور ملاں مسجدوں تک تھے۔
ایسا بھی نہیں تھا۔ ملک کی جیلوں میں سینکڑوں سیاسی قیدی تھے۔ جوسیاسی کارکن پولیس کو نہیں ہاتھ آتا تھا اس کی ماؤں بہنوں، بوڑھے والدین کو بھی تھانوں میں کھنچوایا جاتا تھا-
یہ وہ بھٹو تھا جو نیپولین کا مداح تھا- لیکن شاعر اورعوام تو اس بھٹو کے عاشق ہوئے جسے کارل مارکس کا ایک پمفلٹ اکسیویں سالگرہ پر تحفے میں ملا تھا۔
بھٹو شاعروں کی طرح مستقبل میں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اپنی پھانسی کے سیل سے لکھی کتاب 'اگر مجھے قتل کیا گیا' میں جا بجا پاکستان کے مستقبل کے متعلق کئی پیشین گوئیاں کی ہیں۔
لیکن کاش وہ یہ بھی دیکھ سکتا کہ اس کے آخری نام اور پارٹی کیساتھ کیا ہوگا تو وہ شاید ہی پھانسی قبول کرتا- جیسے مجھے اس دن نیویارک میں ایک پرانا سیاسی کارکن کہہ رہا تھا 'کیا میں نے لاہور کے شاہی قلعے میں آٹھ ماہ تک آجکے دنوں کیلیے بیڑیاں پہن رکھی تھیں!'
میں نے ٹی وی پر دیکھا اس کی پارٹی ا ور قبر کو اب اس بیڑیاں پہننے والوں نے نہیں وزیروں کی کرپٹ کاٹن کلاس نے گھیرا ہوا تھا-
ایک وہ بھٹو تھا جس کے ریسٹ ہاؤس کی دیواریں پھاند کر جب سندھی فنکار فقیر عبد الغفور چلا آیا تھا تو بھٹو نے فقیر عبدالغفور کو دیکھتے ہی کہا تھا 'فقیر مجھے رانو سنائو رانو'۔