| بلاگز | اگلا بلاگ >>

بوجھنے کا انعام نہیں

اصناف:

رضا ہمدانی | 2009-04-08 ،11:42

حال ہی میں دلی میں دس دن گزارنے کے حوالے سے یہ میرا دوسرا بلاگ ہے۔ ممبئی حملوں کے تناظر میں میں نے کوشش کی کہ میں اپنا لب و لہجہ تبدیل کر لوں تاکہ کسی کو پاکستانی ہونے کا شک نہ ہو۔ لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بھارتیوں اور پاکستانیوں میں فرق نہ ہونے کے برابر محسوس ہوا۔

رنگت، بول چال، چال ڈھال، ڈریسنگ سب کچھ تو ایک جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چائے کے ڈھابے پر بیٹھے میں اور میرے ساتھی ڈیشان ظفر چائے پی رہے تھے کہ لڑائی شروع ہو گئی۔ دھمکیوں کے بعد گالم گلوچ اور اس کے بعد ہاتھا پائی۔ ہم جب وہاں سے اٹھے تو ہم دونوں کی ایک ہی مشاہدہ تھا کہ گالیوں کا لیول وہ نہیں جو پاکستان میں لڑائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی فرق کی۔ میں اور میرے ساتھی کا مشاہدہ یہ رہا کہ اگر ہم دونوں کنوٹ پلیس میں تفریح کر رہے ہوں جہاں ہر وقت سینکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ دو افراد پاکستانی ہیں۔ اگر وہ پہچان سکیں گے تو وہ ایک چیز سے کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں میں صرف دو افراد تھے جو کہ آتی جاتی لڑکیوں کو گھور رہے تھے۔ اور وہ دو افراد بوجھنے پر کوئی انعام نہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:29 2009-04-09 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    آداب! خاکسار اس بات سےمتفق نہيں کہ پاکستانيوں اور بھارتيوں ميں کوئی خاص فرق نہيں ہے- بھارتی اپنی شکل و صورت سے بآساني پہچانے جاسکتے ہيں اگر ہميں معلوم ہو کہ ايک دال کھانے والی قوم ہے جبکہ دوسری گوشت کھانے والي ہے- بحثيت مجموعي پاکستانی سفيد رنگ اور بڑے قد کاٹھ کے مالک ہيں اور باڈی فريم ميں ہيوی ہيں- جبکہ بھارتی رنگ ميں کالے، قد کاٹھ کے چھوٹے، بيضوي ناک والے اور تيز لب ولہجہ ميں بات کرتے ہيں- کراچي ميں بھي ايسي خصوصيات رکھنے والے مل جاتے ہيں جن کو خاکسار عرف عام ميں 'بھائي لوگ' کہہ کر پکارتا ہے- پاکستانيوں کا لب ولہجہ پرسکون ہوتا ہے- بھارتيوں کی شکل وصورت و لب ولہجہ سے 'شہد' ٹپکتا ديکھا جاتا ہے- جبکہ پاکستانيوں ميں الفاظ و لب ولہجہ اور 'اندر' ايک ملتا ہے-

  • 2. 17:38 2009-04-09 ,Nadeem Rehman Malik :

    زندگی زندہ دلی کا نام ہے -
    مردہ دل خاک جيا کرتے ہيں -

  • 3. 19:11 2009-04-09 ,(sana (Apki Awaz Wali :

    رضا صاحب انعام نہ ملنے پر زيادہ پريشان نہ ہوں- بس اسی قسم کا ايک اور بلاگ لکھ ڈاليں پھر آپکو کوئی انعام دے يا نہ دے را ضرور انعام دے گی اور وہ بھی تھوک کے حساب سے ملے گا اور آپکو بی بی سی کی نوکری کی ضرورت بھی نہيں رہے گي-

  • 4. 20:51 2009-04-09 ,عبدالوحيد خان ، برمنگھم (يوکے) :

    يہاں برطانيہ ميں بھی مختلف رنگ ونسل اورمذاہب کے لوگ باہمی بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہيں اسی لئے اس معاشرے کو ملٹی کلچرل يا کثيرالثقافتی معاشرہ بھی کہا جاتاہے ليکن يہاں بھی انڈين ، پاکستانی اور بنگالی ايشيائی يکسانيت ہونے کے باوجود اپنی عليحدہ عليحدہ رنگت ، لہجہ اور چال ڈھال سے دور سے ہی باآسانی پہجانے جاتے ہيں بلکہ اپنے وطن پاکستان سے عرصہ پہلے يہاں آجانے والے بھی اپنے اپنے آبائی لہجوں اور ہر علاقے کے کچھ مخصوص الفاظ کی بدولت اپنے علاقوں کی نسبت سے باآسانی پہچانے جاتے ہيں بلکہ ميں تو سمجھتا ہوں کہ انڈيا کے اندر رہنے والے بھی يقينا” اپنے مخصوص علاقائی لہجوں ، رنگ ونسل اور ذات پات کے حوالوں سے الگ الگ پہچان رکھتے ہيں رہ گئ بات لڑکيوں کو گھورنے کی ؟ تو عرض ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے ميں لڑکيوں کو ہی کيا مردوں کو بھی بلکہ دوسروں کو ہی گھورنے کو بہت معيوب سمجھا جاتا ہے ـ

  • 5. 22:14 2009-04-09 ,fida fida :

    واہ جی کيا کيا فرق مٹا کر بھی فرق واضح کردکھايا رہی انعام والی بات تو وہ منفی نفی منفی جمع ہوکر بھی منفی رہتی ہے!

  • 6. 6:37 2009-04-10 ,زمان ساگر :

    اچھا تو پاکستانیوں نے اپنی حرکتیں وہاں بھی نہیں چھوڑیں۔ لیکن کیا ہندوستانی اتنے ہی پاکدامن ہیں کہ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نہیں؟

  • 7. 8:48 2009-04-10 ,اسماء پيرس فرانس :

    بالکل صحيح فرمايا آپ نے پاکستانی دنيا کے جس کونے ميں چلے جائيں اپنی اس عادت سے باز نہيں آتے سالوں سے ديکھ رہی ہوں ادھر انکی حرکتيں ،حالانکہ ہر وقت available ہيں ادھر پياری پياری سمارٹ چھوٹے کپڑے پہنی لڑکياں مگر ايک عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارے بھائيوں کی آنکھوں ميں ٹھنڈ نہيں پڑ رہی ايسے گھور رہے ہوتے ہيں جيسے پہلی دفعہ لڑکی ديکھنے کو ملی ہے اور ساتھ ہی مجھے بھی گھورنے لگ جاتے ہيں حالانکہ ميرے ميں ان لڑکيوں کے مقابلے ميں گھورنے والی کوئی چيز نظر تو نہيں آ رہی ہوتی ايک پاکستانی بھائی کے سلام کا جواب دے ديا يہ سوچ کر کہ يہ پاکستان تو ہے نہيں کہ سلام کے بدلے ميں لڑکے کو چانٹا مار ديا جائے مگر وہ وعليکم اسلام اتنا مہنگا پڑا ہے کہ اب يہ بتانے کے باوجود کہ تين بچوں کی اماں ہوں بھائی صاحب جان چھوڑنے والے نہيں جب تک پاکستانی فلم والا ايک طمانچہ رسيد نہ کروں گی اور سو فيصدی درست ہے کہ پاکستانيوں کے علاوہ کسی ملک بشمول انڈيا بنگلہ ديش سری لنکا کے باشندوں ميں يہ عادت نہيں پائی جاتی سب نے تہذيب سيکھ لی ماسوائے وطن عزيز کے لڑکوں اور انکلوں کے

  • 8. 13:22 2009-04-10 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    ' بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف
    قد ميں انسان سے سايہ بھی بڑا ہوتا ہے '

  • 9. 16:21 2009-04-10 ,Syed Qadir :

    يہاں امريکہ اور کينيڈا ميں پھی پاکستانی اپنی اسی خاصيت کی وجہ سے پھچانے جاتے ھيں اگر کسی کو يقين نہيں آتا تو ويک اينڈ پر جحرارڈسٹريٹ يا جيکسن ہايٹ جا کر پقلم خوذ د اس کا مشاھدھ کيا جا سکتاھے گورا ويک اينڈ پر اپنی تھکن اتارتا ھے پاکستانی تہکن کے ساتھ اپنی ٹھرک پھی اتارتا ھے اس کے علاوہ اب پاکستانی يوٹيوپ کو پھی ٹھرک اتارنے کے لۓاستعمال کر رہۓ ہيں

  • 10. 21:37 2009-04-10 ,shahidaakram :

    رضا صاحِب ساری باتيں ايک طرف ليکِن جو فرق آپ نے ہِندوستانی پاکِستانی کا بتايا ہے اُس سے ميں سو فيصد مُتفِق ہُوں کہ ہمارے پاکِستانی بھائ ہر جگہ الگ سے اپنی پہچان رکھتے ہيں آپ يقين کريں جب کبھی باہر نِکلنا ہو تو اپنے شلوار قميضوں والے بھائ صاحِبان اِتنے پيار سے رکھوالی کی نِيّت سے ساتھ ہو ليتے ہيں اور ديکھنے ميں تو ايسا کمال رکھتے ہيں کہ پلکيں جھپکنا بُھول جاتے ہيں۔ يہ بھی نہيں سوچتے کہ ساتھ ميں شوہر بھی ہے اور بچہ لوگ بھی بس ديکھنا ہے اور صِرف ديکھنا ہے جيسے کبھی کوئ عورت يا لڑکی نہيں ديکھی۔

  • 11. 12:13 2009-04-11 ,اے رضا :

    گذارش ہے کہ ہم پاکستاني مرد قدرت کي صناعي کے پرستار ہيں ليکن کوئي قدر ہي نہيں کرتا - ابوظبی ميں برلب سڑک ساحل سمندر پر نہاتي گورياں پس ديوار کردي گئيں کہ ہمارےگروہ رستہ روک کر عالم سکتہ ميں کھڑے نظر آتے تھے - زيادہ شوقين حضرات دھوپ ميں دراز حسيناؤں کےسر پر کھڑے ہو کر مشاہدہ فرماتے تھے کہ کچھ رہ نہ جاۓ۔ کچھ لوگ کيمرے يا دوربين سے بھي کام ليتےتھے۔ دبئي کے حکام بڑے شاطر واقع ہوۓ - ديواروں کا خرچ بچاتے ہوۓ شلوار قميص ميں ملبوس اکيلے مردوں کا داخلہ ہي بند کر ديا -

  • 12. 20:42 2009-04-11 ,سجاد بٹ :

    افسوس ان ہموطن بہن بھائيوں کی سوچ پر بھی ہے جو کسی کے ذاتی گھٹيا فعل کو پوری قوم کے کھاتے ميں ڈال ديتے ہيں اوربيرونِ ملک دو کوڑي کي نوکري ملنے پراپنا اصل بھول جاتے ہيں--

  • 13. 13:33 2009-04-12 ,Abdul Haleem :

    رضا صاحب یہ تو بتائیں کہ آپ کی پیدائش کہاں کی ہے۔ اگر تو کراچی کی ہے پھر آپ غلطی پر نہیں ہو اور اگر پاکستان کے کسی اور علاقے کی ہے تو پھر اپنی آنکھوں، ناک اور کانوں کا علاج کراؤ۔ میں سعودی عرب میں کافی عرصہ گزار چکا ہوں اور پاکستانی اور ہندوستانی میں فرق بہت واضح ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔