'ویک از اے لانگ ٹائم'
پارلیمانی انتخابات کے بعد کسی کو بھی واضح اکثریت نہ ملی ہو اور سیاسی جماعتیں اگر اراکین پارلیمان کو نہ خریدیں تو حکومت سازی کا آئینی تقاضا کیسے پورا ہو؟
ووٹوں کی گنتی سے پہلے ہی سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں انتہا کو پہنچ رہی ہیں اور اگر ماضی سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے تو پھر سیاسی وفاداریاں خریدنے کے لیے وزارتی عہدوں کے وعدے بھی استعمال ہو رہے ہوں گے اور نوٹوں کے سوٹ کیس بھی۔
ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ اسی لیے ملک میں پارٹیاں تبدیل کرنے کے خلاف قانون لایا گیا تھا۔
لیکن شاید سب سے عظیم کارنامہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ چودہری بھجن لال نے انجام دیا تھا۔ سن اسی میں جب اندرا گاندھی دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو ایک شام بھجل لال جنتا پارٹی کی حکومت کے سربراہ تھے، اگلے دن صبح معلوم ہوا کہ ریاست میں اب کانگریس کی سرکار ہے۔ پوری حکومت ہی کانگریس میں شامل ہوگئی تھی۔
انگریزی میں کہتے ہیں کہ 'اے ویک ان پالیٹکس از اے لانگ ٹائم' اور یہ ہفتہ اب شروع ہو رہا ہے اور جو آج ناممکن لگ رہا ہے اسے ممکن میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
سہيل حليم صاحب ! سياست ميں ايک ہفتہ تو کيا ايک دن بلکہ ايک ايک لمحہ بھی بڑا اہم ہوتا ہے ليکن ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ البتہ سياسی جماعتوں کے اتحاد ضرورت کے مطابق ہوتے رہتے ہيں اور ٹوٹتے بھی رہتے ہيں۔
پيوستہ رہ شجر سے، اُميد بہار رکھ۔
ہاں يہ ايک تلخ حقيقت ہے کہ ہندوستان يا ديگر جمہوری مملکتوں ميں اکثريت نہ ملنے پر ہارس ٹريڈنگ ہوتی ہے۔ اس کے تدارک کے ليے قانون سازی کی ضرورت ہے جس پر مؤثر عمل درامد ہو۔
اب اتنا بھی شوق نہيں سياست کے بارے ميں پڑھنے کا وہ بھی انڈيا کی۔ بات کرو چوپاٹی کی پانی پوري، مصالحہ ڈوسا، بٹاٹا وڑا کی۔
جمہوريت ايک طرز عمل ہے کہ جس ميں
لوگوں کو گنا کرتے ہيں تولا نہيں کرتے
شاعر مشرق کے يہ شاہکار اشعار انگريزوں کی جمہوريت کی مکمل ترجمانی کرتے ہيں۔ اس لیے اس جمہوری طرز عمل کے نتيجے ميں کہ جس ميں گدھے گھوڑے سب برابر ہيں، جو بھی لوگ چنے جائيں گے ان سے ہر قسم کی اميد کی جاسکتی ہے۔
سہيل حليم صاحب، کيا آپ کو نہيں لگتا کہ برصغير پاک و ہند ميں پارليمانی نظام حکومت نے ايک بدعنوان سياسی کلچر کو فروغ ديا ہے۔ واضح اکثريت کي عدم موجودگی ميں حکومتيں بنانے اور گرانے کے چکر ميں ووٹ دہندگان سے بالا ہی بالا سب معاملات طے پا جاتے ہيں۔ ووٹ کہاں ديا تھا اور وہ کہاں پہنچ چکا نظر آتا ہے۔