| بلاگز | اگلا بلاگ >>

امیر بننا بھی ان سے سیکھیں

نعیمہ احمد مہجور | 2009-05-14 ،13:05

مغرب کی شائد ہی کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا ایجاد ہو جس کو ہم نے گلے نا لگایا ہو۔

ٹوتھ پیسٹ سے لے کر جوہری ٹیکنالوجی تک سبھی ایجادات اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور ہم اس کے لیے مغرب کے مرہون منت بھی ہیں۔

مگر مغرب کی ایسی عادات بھی ہیں جنہیں ہم ہمیشہ کوستے رہتے ہیں۔ انہیں اپنے دالان تک پہنچنے سے روکنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ چاہے ان کے معاشرتی نظام کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہو یا کیپٹیلزم کی جانب بے ہنگم دوڑ ہو۔

امیر بننے اور پیسے بٹورنے کا گُر بھی یہ خوب جانتے ہیں۔

ہم تو سمجھے تھے کہ اس گُر کے صرف ہم ہی ماہر ہیں مگر یہ لوگ ہم اور ہمارے سیاست دانوں سے سو قدم آگے ہیں۔

ہمارے سیاست دان ان سے سو گُنا زیادہ جائیدادیں بناتے ہیں مگر ہمیں ان پر اتنا غصہ نہیں آتا کیونکہ ان کے پیسہ بنانے کے طریقہ کار سے ہم کچھ کچھ واقف ہوتے ہیں اور کچھ کچھ ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ البتہ برطانیہ کے بعض سیاست دانوں پر بہت غصہ آ رہا ہے جنہوں نے چھوٹی رقم اینٹھ کر یہاں کی سیاست کی شبہیہ ہی مٹا دی ہے اور پارلیمان جیسے عظیم ادارے پر سے لوگوں کا اعتماد پامال کیا ہے۔

کیا کوئی شیونگ کریم خریدنے کے لیے چند پاؤنڈ کا خُردبرد کرتا ہے۔ ایسی ہی چند مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ اور ایسے سیاست دانوں کی لمبی فہرست آج کل ڈیلی ٹیلگراف کے صفحہ اول کی زینت بن رہی ہے

اب تک تو ہمارا خیال تھا کہ کچھ نہ سہی تو کم از کم خُرد بُرد کا کھیل ہمارے سیاست دانوں نے ایجاد کیا ہے مگر معلوم ہوا کہ یہ بھی یہاں سے ہی ایکسپورٹ ہوا ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:22 2009-05-14 ,(sana (Apki Awaz Wali :

    نعمیہ بہن مجھے امیر بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- اللہ کے فضل سے میں پہلے ہی کافی امیر ہوں- اللہ میرے شوہر کو تندرستی دے وہ صبح ملازمت کے بعد شام کو بھی کام کرتے ہیں- سیاستدانوں سے امیر بننا ہی نہیں بلکہ وعدوں سے پھر جانا بھی اچھی طرح سیکھا جا سکتا ہے-

  • 2. 17:38 2009-05-14 ,Dr Alfred Charles :

    نعيمہ جي! گويا اس حمام ميں سب ننگے ہيں۔ بہتی گنگاسے سب ہاتھ دھورہے ہيں۔ محو حيرت ہوں برطانيہ والے شيونگ کريم پر اکتفا کررہے ہيں کچھ ہمارے والوں سے سبق سيکھيں اور لمبے ہاتھ ماريں!

  • 3. 21:09 2009-05-14 ,عبدالوحيد خان ، برمنگھم (يوکے) :

    اس حوالے سے تو آپ کی بات سو فيصد سچ ہے کہ قيام پاکستان سے پہلے انگريزوں نے اپنے دور حکومت ميں برصغير کے سياستدانوں کو ان کي خاص خدمات کے صلے ميں وسيع وعريض جاگيريں الاٹ کيں جو پاکستان بن جانے کے بعد بھی منسوخ نہ ہوسکيں اوريوں حکمران طبقے کے لئے لوٹ کھسوٹ کاجوازاورراہ ہموارہوئی کہ اب تک جوايک دفعہ کسی عوامی بااختيارعہدے کے لئے منتخب ہوگيا اتنا کچھ اکٹھاکرلياکہ آنے والی نسلوں کو بھی ٹوتھ پيسٹ کی قيمت تک جاننے کی زحمت نہيں اٹھاناپڑی

  • 4. 6:48 2009-05-15 ,إظهارالحق سرينكر كشمير :

    نعیمہ صاحبہ
    سکھانے کو تو بہت کچھ ہے ہمارے پاس لیکن اعتماد کی کمی ہوتو دوسروں کا اثر جلد قبول کیا جاتاہے۔
    دراصل ہمیں ہماری قوم کو وہ کھویا ہوا اعتماد واپس دلاناہے بس پھر دیکھئے ۔۔۔
    رہا سیاستدانوں کا معاملہ وہ بھی تو ہم ہی میں سے ہیں جیسی قوم ویسے انکے قائد(سیاست دان)۔
    سو پہلے قوم کے اندر تبدیلی لازمی ہے پھر جاکے ہمارے سیاستدان بھی لوگوں جیسے آئیں گے۔قوم کی فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
    اللہ آپکو سلامت رکھے!
    آمین

  • 5. 16:02 2009-05-17 ,تانیہ رحمان :

    پہلی دفعہ شامل ہو رہی ہوں۔ بلاگ نے یہ مسئلہ بہت حد تک حل کر دیا۔ جو چاہا لکھ دیا جب چاہا کہہ دیا۔ ضروری نہیں کہ پورے صحفے کے صفحے کالے کیے جاہیں، چھوٹی سی بات میں پوری داستان کہہ دی۔ یہاں اپنے اور دوسرے ممالک کے درمیان ہیرا پھیری کی بات ہو رہی تھی اور وہ بھی بڑے لوگوں کا ذکر چل نکلا۔ تو سوچا کہ میں بھی اپنا حصہ ڈال دوں ہو سکتا ہے کل ان بڑے لوگوں کو ضرورت پڑے جائے۔ ایک بات کہنی تھی کہ ہم اچھی بات کیوں نہیں سیکھتے۔ باقی آئندہ

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔