ٹی وی کے 'مزاحیہ پروگرام'
شاید آپ پاکستان کے جوہری پروگرام کے موضوع پر ٹی وی پر نشر 'ٹاک شو' کو مزاحیہ پروگرام تصور نہ کر سکیں۔
میں بھی نہیں کرتی لیکن اٹھائیس مئی کو میں نے ایک پروگرام دیکھا جس سے میرے خیالات کچھ تبدیل ہو گئے۔
اس پروگرام میں کامیڈی کا عنصر اس بات سے پیدا ہوا کہ گفتگو میں شامل تینوں افراد یعنی میزبان اور ان کے دو مہمان ایک ہی بات کر رہے تھے۔ سب امریکہ کے خلاف اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے حق میں بولتے رہے۔ بقول ان تینوں کے امریکہ نہ صرف جوہری پروگرام کا دشمن ہے بلکہ آئی ایس آئی کا بھی۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک نقطۂ نظر ہے۔ لیکن کسی بحث سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ رائے آپ کے سامنے پیش کرے اور گفتگو کے ذریعے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالے۔ ایسی بحث میں مہمان اپنی اپنی پوزیشنیں واضح کرتے ہیں اور میزبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں کبھی چیلنج کرے، کبھی روکے اور کبھی ان کی معنی کو مختصراً بیان کر دے۔
جس پروگرام کی میں بات کر رہی ہوں اس میں مہمان ایک بریگیڈئیر صاحب اور ایک انتہائی رائٹ ونگ مشرف حامی صاحب تھے (جو امریکہ مخالف ہونے کے باوجود امریکی لہجے میں انگریزی بولتے ہیں)۔ سب ایک ہی بات کر رہے تھے لیکن ایک 'سنجیدہ بحث' کے روپ میں۔
پھر اور تو اور پروگرام میں کال کرنے والے بھی سارے یہی باتیں کرنے لگے! مثلاً ایک کالر کا فوجی لہجہ تھا اور انہوں نے 'قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھانے والے کچھ افراد' کی جوہری پروگرام سے متعلق باتوں پر تنقید کی۔
ٹی وی اور ریڈیو پر بہت سے مبینہ 'ڈسکشنز' سے یہ لگتا ہے کہ تاریخ اور سیاسی امور پر بحث کرنے کی صلاحیت ہم کھو چکے ہیں۔ یا شاید ہمیں دوسری رائے سننے کا کوئی شوق ہی نہیں ہے۔
تو اس میں مزاحیہ پہلو کیا ہے؟ بس یہی کہ ہم ایسے پروگرام بناتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔
لطیفہ تو ہے لیکن اس میں مذاق کس کا اُڑ رہا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
افسوس اس بات کا ہے کہ آپ اپنے ہی چينل اور سی اين اين کے بامقصد پروگرام نہيں ديکھتیں، ورنہ آپ کا گلہ دور ہو جاتا۔
پاکستانی عوام اندرونی و بيرونی مذاق کے مواد کی ذمہ دار نہيں ہے۔
ہمارے ٹی وی پروگرام باقی کونسے معیاری پیش ہوتےہ یں جو آپ کو صرف یہ ایک پروگرام نظر آیا۔۔۔
محترمہ عنبر خیری صاحبہ، آداب! بحثیتِ مجموعی پاکستان کا میڈیا، میڈیا کہلانے کا حقدار ہی نہیں ہے، ان کی اپنی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، جہاں سے ’مال پانی‘ کی امید ہو یہ اُدھر ہی کو رُخ کر لیتا ہے، اور قریبآ ہر چینل اپنی مخصوص سیاسی وابستگیاں بھی رکھتا ہے۔البتہ خاکسار نے ’ایکسپریس نیوز چینل‘ کی رپورٹنگ کو بہت حد تک معتدل سمجھتا ہے۔ میڈیا کی غیر سنجیدگی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ آٹھ اکتوبر کے زلزلہ پر میڈیا کے ‘ٹاک شوز‘ میں زلزلہ یا تباہی سے متعلق ماہرین کو لانے کی بجائے وزراء، مولویوں اور سیاستدانوں سمیت غیر متعلقہ افراد کو دعوت دی گئی۔ مولانا صاحب، زمین میں ہونے والی کیفیتی تبدیلیوں کے کارن آنے والی اس تباہی کو ’عذابِ الہٰی‘ قرار دے رہے تھے اور کہا جاتا کہ ان لوگوں کے گناہ بڑھ گئے تھے تو ’عذابِ الہٰی‘ نازل ہوا۔ اب یہاں سوچنے کی بات ہے کہ میڈیا پر ایسے غیر متعلقہ افراد کو جگہ دے کر کیا متاثرین زلزلہ کی دلجوئی کی جا رہی تھی یا ان کے گھمبیر زخموں پر نمک پاشی کر کے انہیں ذہنی مریض بنانے کا ارتکاب کیا جا رہا تھا؟ اگر میڈیا کو کسی بھی طرح ’راہِ راست‘ پر لے آیا جائے تو پاکستان میں جہاں بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے وہیں پر ’برین واشنگ‘ میں بھی کمی واقع ہو گی جس کے نتیجہ میں سنجیدگی و حساسیت و غیرجانبداریت و منطق پسندی و خرد پسندی کی راہ ہموار کرے گی اور پھر کوئی ’ڈائیلاگ‘ ناکام نہیں ہوگا۔۔۔
ایٹم بم پر بحث بےفائدہ ہے۔ اب ہم اسے بنا چکے ہیں اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اسے اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہیں پھینک سکتے اور پاک فوج اس کی حفاظت اچھی طرح کر رہی ہے۔
پاپولر اپينين پر بحث کرنا آسان ہے۔ پچلے دنوں ارشاد احمد حقانی صاحب نے يہ بحث چھیڑی کہ ايٹمی دھماکوں کے بعد يا کی وجہ سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوا يا کمزور ہوا؟ نہ صرف کفر کے فتوے لگے بلکہ پاکستان چھوڑنے کا مشورہ بھی ملا۔ اب ان حالات ميں بحث کرنا فضول ہے۔ لوگوں کو اس بحث سے کچھ ملے نہ ملے مگر بحث کرنے والوں کو چيک تو ملا ہوگا۔ اب ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر مبشر حسن ، ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر ہودا بھائی کو کون سنے۔۔۔ وہ بھی جب ڈاکٹر عبدلقيدير قوم کے ہيرو قرار پائيں۔۔۔
محترمہ!
پاکستانی جوہری پروگرام، پاکستانی قوم کے لیے اپنی بقا سے بڑھ کر اپنی انا کا مسئلہ ہے۔ تو اس میں پوری قوم کی ایک ہی آواز ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم میں حمیت ابھی باقی ہے۔۔ اور اس میں اچھنپے کی کونسی بات ہے؟
عنبر ایک بات جو آپ نظر انداز کر گئی ہیں کہ آج سے کچھ سال پہلے تک پاکستان کے حساس معاملات پر بات کرنا نا ممکن تھا۔ لیکن شکر ہے کہ نجی میڈیا کے آنے سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ تو علیحدہ سے سننے کو مل رہا ہے۔ اٹھائیس مئی کے روز پاکستان کے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر بہت عمدہ پروگرام بھی نشر کیے گئے ہیں جن میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی کھل کر مخالفت کی گئی ہے۔ میرے خیال میں ایک صحافی کا کام تصویر کا ایک رخ پیش کرنا نہیں بلکہ دوسرا رخ پیش کرنا بھی ہوتا ہے
محترمہ عنبر خيری صاحبہ،
زيادہ اہم چيز ميڈيا کی ازادی ہے۔ معيار اور نيت وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود بہتر ہوجاۓ گي۔ ہميں دوسروں کی رائے اور طريقہ کار کا احترام کرنا چاہيے، چاہے وہ ہمارے نزديک غلط ہی کيوں نہ ہوں۔