'پاکستان جاکر ڈپرشن کم ہوگا'
میں ہیتھرو کے ہوائی اڈے کی گہما گہمی میں کھو گئی تھی کہ مسافروں کے شور شرابے اور ہنگامے کو چیرتی ہوئی ایک بچی کی چیخ سنائی دی جس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور سب روتی پریشان اس بچی کو دیکھنے لگے۔
بچی اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان جانے والی تھی لیکن بارہ یا تیرہ سال کی یہ بچی اپنے والدین سے خفگی میں نہ جانے کیا کیا کہتی جا رہی تھیں۔ والدین اُردو میں اور وہ انگریزی میں ایک دوسرے کو سمجھانے بھُجانے کی کوشش کر رہے تھے۔
پولیس کے چند اہلکار ساتھ ہی کھڑے تھے جو شاید یہ سمجھ گئے کہ بچی کو 'جبری شادی' کے لیے پاکستان لے جایا جا رہا ہے۔ ایسے کئی معاملات آئے روز یہاں منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ میں ان کے قریب گئی اور ان کی باتیں سننے لگی۔ بچی اپنے والدین سے کہہ رہی تھی 'میں پاکستان جانا نہیں چاہتی، میں مرنا نہیں چاہتی، کیوں مجھےوہ خون خرابہ دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کی تصویریں سکرین پر دیکھ کر میری یہ حالت ہوئی ہے؟'
بچی کے والد نے میری طرف دیکھ کر کہا 'یہ ذہنی ڈپرشن کا شکار ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے اسے پاکستان لے جانے کا مشورہ دیا تاکہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ اتنے خون خرابے کے باوجود وہاں معمول کی زندگی چل رہی ہے، لوگ جی رہے ہیں اور اس کے ذہن پر طاری خوف دور ہوسکے۔'
میں انہیں بغیر کچھ کہے گہری سوچ میں پڑگئی کہ کیا وہاں جاکر اس کا ذہنی ڈپرشن کم ہوجائےگا یا اور زیادہ بڑھ جائےگا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
ويسے ڈاکڑ کا نسخہ درست لگتا ہے ميڈيا سے اتنا اثر پالينے بعد „ہمہ ياران جنت/دوزخ„ کی اپروچ کارگر ہوگئی مگر اسميں يہ بھی ممکن ہے کہ جزباتی لڑکی الٹ کر طالبان بن پاۓ اسلۓ زيادہ بہتر ہوتا اگر بچی کيلۓ کچھ وقت تک گھر ميں ٹی وی ديکھنا ترک کرديا جاتا اور تفريح متبادل کا راستہ ليا جاتا؟
محترمہ نعیمہ احمد مہجور صاحبہ، اسلام علیکم!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بچے فلمیں ‘دی ممی‘، ‘ہیری پوٹر‘، ‘ ڈرنا ضروری ہے‘، ‘ایول ڈیڈ‘ اور ٹام کروز کی فلم ‘دی وار آف دی ورلڈ‘ جس میں قاتل مشینیں انسانی خون کو بطور پیٹرول استعمال کرتی ہیں، اور جس میں نہر کا پانی انسانی خون سے سرخ ملتا ہے، دیکھ سکتے ہیں، تو وہ بچے پاکستان کیوں نہیں آ سکتے؟ مزید برآں، بمطابق خاکسار، بچی کی عمر تیرہ سال کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر کا مشورہ بالکل درست ہے کہ بچی ‘ڈپریشن‘ میں مبتلا نہیں ہے بلکہ ‘خوف‘ کا شکار ہے اور خوف کا علاج یہی ہے کہ بچی پاکستان میں تشریف لائے اور یہاں پر موجود بچیوں کو سکولوں، پارکوں میں پڑھتے کھیلتے ہوئے دیکھے- آخر میں اگر ضروری سمجھا جائے تو بچی کو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر بعنوان ‘’بچی کو کتوں نے پالا‘ پڑھنے کو دی جائے- ایسا کرنے سے انشااللہ تعالٰی بچی نہ صرف پاکستان خوشی سے آئے گی بلکہ واپس ہیتھرو جانا بھی بھول جائے گی-
کم بھی ہوگا اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ نعیمہ صاحبہ کیا آپکو نہیں لگتا کہ جب آپ کشمیر میں ہوتی ہیں تب کبھی آپکا ڈپریشن بڑھ جاتا ہے اور کبھی روٹین محسوس کرتے ہوئے قتل وغارتگری کی کوئی قیمت نظر نہیں آتی۔
میں خودکبھی کشمیر کی حالت پر ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہوںلیکن جب روزانہ قتل وغارت کے واقعات سے سامنا ہو تو دماغی توازن کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا ۔ یہ سب ایک روٹین محسوس ہوتا ہے۔
پاکستان میں اب عراق کے طرز پر جب سو دوسو افراد جاں بحق نہ ہوں تب تک دھماکے یا خودکش حملے کی کوئی خبری قیمت نہیں ہوتی۔
اسقدر ہے ارزاں یہ انسانی خون
نعيمہ احمد مہجور صاحبہ! يقينا” يہ ايک بہت بڑاالميہ ہے اور ہمارے ملک ميں خون خرابے کايہ ايک عکس ہے کہ ہزاروں ميل دورايک جديد اروپرآسائش معاشرے ميں مقيم ايک بچی بھی اس سے متاثر ہوئے بغير نہ رہ سکی جبکہ ان بچوں کاتصور کرکے روح تک کانپ اٹھتی ہے جو اس خون خرابے والے ماحول ميں رہ رہے ہيں اوران ميں سے کئی ايک اپنے والدين يا ديگر عزيزواقارب کواسی خون خرابے کی وجہ سے کھوچکے ہيں اوراسي تناظر ميں يہ ايک اہم اوربڑاسوال ہے کہ ايسے متاثرہ بچے نفسياتی طورپرکس حال کوپہنچ چکے ہيں ؟ اورمستقبل ميں ان نفسياتی مسائل سے کس طرح چھٹکاراپائيں گے ؟