سیلیبریٹی کلچر کا تحفہ
ومبلڈن شروع ہونے سے قبل ہمارے علاقے کی شبیہ بدل جاتی ہے۔گوکہ یہ علاقہ پہلے ہی خوبصورت اور سرسبز ہے مگر دور دور سے ومبلڈن دیکھنے کے لیے لوگوں کا جو تانتا بندھا رہتا ہے اس سے نہ صرف علاقے کی شان بڑھ جاتی ہے بلکہ گھروں میں مہمانوں کی اتنی تعداد ہوتی ہے کہ شام ہونے سے پہلے باربی کیو کی خوشبو ہر طرف پھیلی رہتی ہے۔
مجھے ایک بات پر حیرت ہے اورکچھ اُداس بھی ہوں،
اینڈی مرے کی زندگی کا شاید ہی کوئی پہلو ہوگا جس پر ہمارے قریبی پڑوسی، مسز کیتھرین کے گھر میں بحث نہ ہوئی ہو۔ یہ وہی گھر ہے جس میں صرف دس روز قبل مسز کیتھرین کا انتقال ہوا ہے اور انتقال کے وقت سات بچوں میں سے کوئی ایک بھی قریب نہیں تھا سوائے پوتے کے، جو سکول سے دادی کو ہسپتال دیکھنے آیا تھا اور دادی اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔
اینڈی مرے اِن کا ہیرو ہے، اُس کا ومبلڈن چیمپئن بننے کے انہوں نے خواب پالے ہیں اور اپنی مصروفیات کو کم کر کے اس کا کھیل دیکھنے کے لیے شدید گرمی میں دن بھر بیٹھے رہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اِن میں قوم پرستی کا جذبہ کافی گہرا ہے جس کا اظہار انہوں نے وقت نکال کر ومبلڈن دیکھنے کے لیے ایڈوانس میں ٹکٹیں حاصل کرنے سے خوب کیا مگر جب میں نے ہسپتال میں مرنے سے قبل مسز کیتھرین سے معلوم کیا کہ بچوں میں کون آپ کو دیکھنے آیا تو مجھے انتہائی حیرت ہوئی اور اُن کے بچوں پر غصہ آیا جب انہوں نے کہا کہ 'میرے بچوں کے پاس کہاں وقت ہے جو مجھے دیکھنے آتے۔ اُن کی اپنی مصروفیات ہیں، مجھے اپنی تنہائی اچھی لگتی ہے'۔
جب مرے ومبلڈن ہار گیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ میں نے مسز کیتھرین کے بچوں کو اتنا اُداس کبھی نہیں دیکھا، اُس دن بھی نہیں جب اُس کا فیونرل تھا۔
میں مرے کے ہارنے کے بعد سوچ رہی ہوں کہ شاید یہ لوگ زندہ انسانوں کا زیادہ خیال رکھتے ہیں، جو مرگیا اُس کو کیا یاد کرنا۔
کیا اِس کو سلیبریٹی کلچر کی دین کہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
اگر زندوں اور مردوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینی ہے تو زندوں کا خیال رکھنا زیادہ بہتر ہے۔
بچوں نے اینڈی مرے کو اپنی مرضی سے چنا تھا جب کہ اماں قدرت نے چن کر دی تھی۔ انسان اس چیز کا زیادہ خیال رکھتا ہے جو اپنی پسند سے چنی گئی ہو۔
يقين ہے کہ نہ آۓ گا مجھ سے ملنے کوئ
تو پھر يہ دل کو ميرے انتظار کيسا ہے
اسی کو مادہ پرستی کہتۓ ھين
کيا وجہ ہے کہ جہاں آپ رہتی ہيں، اس معاشرے کی برائی کرتی رہتی ہيں- ان لوگوں کا معاشرتی سيٹ اپ ہی ايسا ہے، بچے ذرا جوان ہوئے نہيں، کہ انھيں گھروں سے نکال باہر کيا جاتا ہے، کہ جاؤ اور اپنی دنيا بناؤ- ہماری طرح نہيں کہ دادا جان لٹھ ليکر پوتے پوتيوں کے پيچھے پڑے رہتے ہيں- اصلی خاندانی انگریزوں ميں ابھی قديم روايات باقی ہيں، ليکن بدقسمتی سے وہ ديسيوں سے دور دور رہتے ہيں-
يہ مغرب کا مطلب پرستی کا کلچر ہے جو آج کل ہمارے ملک کے لوگوں ميں بھی اپنی پوری شدت سے پايا جاتا ہے۔
آج انسانوں سے زيادہ مادی چيزوں کی قدر ہے، اس طرح کی کئی داستانيں، اور کئی مسز کیتھرین ہمارے معاشرے ميں بھی پائی جاتی ہيں۔
بالکل درست تجزيہ ہے حماد صاحب کا۔ پيار سے پياری کوئی شے نہيں ہے۔ چاہے بيوی ہو، اولاد ہو، والدين ہوں يا دوست يا آپ کا ہيرو۔۔ وہ رشتے جو ہم نے چنے اہم ہيں مگر جو قدرت نے ديے وہ قابل احترام تو ہو سکتے ہيں مگر اہم نہيں۔۔۔