ایک آئی ڈی پی نظم
سوات کے ایک بے گھر شاعر کی یہ نظم مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوئی ہے۔ اسکے منتخب اقتباسات بلا تبصرہ حاضر ہیں۔۔۔
پڑ رہی ہے ایسی ہرجانب سے مار، ہے یہ دامن تار تار
دھول بن کر اڑ رہا ہے سب وہ پھولوں کا دیار
گھاٹیاں فردوس صورت، وادیاں جنت مثال
سوات زخموں سے نڈھال
ہنستی گاتی بستیاں، سب چپ ہیں مرگھٹ کی طرح
خوشبوؤں کا دیس تھا، پھولوں کا مسکن تھا یہیں
قریہ قریہ، قصبہ قصبہ خون میں لت پت پڑا ہے آج کل
عظمتِ رفتہ کا آئینہ یہ والی کا محل
دل گرفتہ، مضمحل، تنہا کھڑا ہے آج کل
اب بھی ان اونچے چناروں کو بہت اچھی طرح سے یاد ہے
وہ گذشتہ دور، وہ جاہ و جلال
دھوپ کی سرمستیاں بھی ان سے پوشیدہ نہیں
چاند کی سرگوشیوں کا راز بھی معلوم ہے
وہ حسیں شامیں کہاں ہیں، وہ سویرے کیا ہوئے
ندیاں کیوں گنگ ہیں، پھولوں کے ڈیرے کیا ہوئے
گولیوں کی سنسناہٹ کتنے ہونٹوں کا تبسم کھا گئی
آہنی گولوں کی ظالم گڑگڑاہٹ سے کہیں
نغمہ ریزی میں سدا مصروف دریا چل بسا
وہ گلی کوچے جہاں پر زندگی رقصاں تھی کل
دوستوں کی ٹولیوں کا اک جہاں آباد تھا
موت کی دھشت سے ڈر کر اس طرح خاموش ہیں
جیسے ان کا لطف و مستی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا
سرکٹی لاشوں نے ان چوکوں کا ماضی کھا لیا
گولیوں کی تڑتڑاہٹ آسمانوں تک گئی
کوچہ کوچہ گھوم پھر کر موت کے قدموں نے سارے شہر کو اپنا کیا
دوستوں کا دشمنوں کا جاننا ممکن نہیں
اک گھنا جنگل ہے جس میں رات دن محبوس ہیں
آشنا مانوس چہرے، سارے نامانوس ہیں
زندہ بچنے والے اک اک سانس سے مایوس ہیں
خوبصورت کل کا سندیسہ لئے کچھ لوگ پرامید ہیں
بابِ مستقبل سے نکلے گا کسی دن آفتاب
چھین لے گا آج کے مکروہ چہرے سے نقاب
کیوں جہنم بن گئی جنت میری، کس لئے آئی ہے یہ شامت میری
کیا رہے گا تاقیامت لاجواب
خاک میں ملتے ہوئے ہونٹوں کا یہ زندہ سوال
سوات زخموں سے نڈھال
وہ فضا گٹ ہے فضا گٹ ، نہ وہ اب بحرین ہے
جس جگہ سکھ چین تھا، ہر اس جگہ فریاد ہے اک بین ہے
وادی کالام یارو وادی آلام ہے
چپ نہیں کانجو،کبل، کالاکلے
اپنی اپنی داستانیں کہہ رہے ہیں گھر جلے
ان گنت زخموں سے چکنا چور ہیں کوہ و دمن
ٹوٹے پھوٹے پل ہیں اب، سڑکوں کے سینے چاک ہیں
راکھ جسموں پر ملے چپ چاپ ہیں سرووسمن
رستم و سہراب کل کے سب خس و خاشاک ہیں
دیدہ و نادیدہ ہاتھوں نے بہت ادنی مقاصد کے لئے
ایک دل کش شکل و صورت کو بنا ڈالا ہے کتنا خوفناک
سوات زخموں سے نڈھال
چھپ نہیں سکتے اب انکی آنکھ سے شدت پسند
کردیا ہے موت کو حالات نے جدت پسند
گو بظاہر مرنے والے بیشتر معصوم تھے
پر عزائم لگتا ہے ان کے بہت مذموم تھے
کون بچ سکتا ہے ان جادوگروں کی مار سے
گرد کا طوفان اٹھا وہ دیکھنا اک غار سے
طالب و مطلوب کے چکر میں یہ پڑتے نہیں
سب کو چپ کرنے سے پہلے دو قدم بڑھتے نہیں
گاؤں سارے جاں بلب ہیں کرفیو کے طول سے
بھوک سے مرجھا گئے بچوں کے چہرے پھول سے
ہر طرف، ہروقت نازل ہورہا ہے وہ عذاب
مرنے والوں کو سمجھتے ہیں سبھی اب کامیاب
شہریوں کا اب یہاں آزاد رہنا جرم ہے
جنگ ہے، پر اس میں سچی بات کہنا جرم ہے
ہے زمیں بارود و سارا آسماں بارود ہے
پہلے کیا تھا بھول جاؤ، اب جہاں بارود ہے
جس جگہ یہ مسکرایا، گھر کا گھر بھک سے اڑا
میری بربادی کی ساری داستاں بارود ہے
ایک اک کرکے وہ ساری بولیاں چپ ہوگئیں
اب یہاں گویا فقط آتش زباں بارود ہے
ہے فضا مغموم ساری، یہ ہوا مسموم ہے
جس کے دیوانے تھے سارے وہ سماں بارود ہے
دیکھ کر آگے چلیں خود ندیاں پگڈنڈیاں
جاننا ممکن نہیں ہے یاں، کہاں بارود ہے
لوگ سمجھیں گے تمہیں غدار، آؤ چپ رہو
ناخدا کرتے ہیں کب غرقاب ناؤ، چپ رہو
کیمرے کے سامنے آنسو بہانا جرم ہے
ہر طرف سے مار کھاؤ مسکراؤ، چپ رہو
خود کو خود میں دفن کرنے سے قرار آجائےگا
دوستوں کے دشمنوں کے گیت گاؤ، چپ رہو
کہہ رہے ہیں اس کا پھل کھائیں گے سب اہلِ وطن
اپنی بربادی کے قصے مت سناؤ، چپ رہو
مارنے والوں کو دشمن جاننا ممکن نہیں
مرنے والوں کو کہیں پر بھول جاؤ، چپ رہو
ہنستے ہنستے کھلکھلاتے پھول کیسے چپ ہوئے
دوستوں کو اب زیادہ مت رلاؤ ، چپ رہو
اب تمہارے آنسوؤں کو بیچ کر کھائیں گے سب
ان کی باتوں میں کسی صورت نہ آؤ، چپ رہو
حاکموں کو بھیک لانے کا بہانہ مل گیا
پھر سے یہ فن آزمانے کا بہانہ مل گیا
محفلوں میں رونے دھونے کی اجازت ہوگئی
خلوتوں میں مسکرانے کا بہانہ مل گیا
کاسئہ سائل لئے نکلیں گے پھر چاروں طرف
اک نئی دنیا بسانے کا بہانہ مل گیا
جس گلی میں گھومتے رہنے کی عادت ہے انہیں
اس گلی میں پھر سے جانے کا بہانہ مل گیا
کھل کے پھر امداد کی برسات برسے گی یہاں
رج کے پھر یاروں کو کھانے کا بہانہ مل گیا
دربدر لوگوں کے قصے بک رہے ہیں ہرطرف
ساری دنیا کو رلانے کا بہانہ مل گیا
کھیت بھی خطرے میں ہے، کھلیان بھی خطرے میں ہے
فصل کو روتا ہے کیا، دھقان بھی خطرے میں ہے
اب نہیں ملتی کہیں اخبار میں سچی خبر
لگ رہا ہے میڈیا کی جان بھی خطرے میں ہے
مارنے پر وہ نہیں کرتے عموماً اکتفا
آنکھ بھی خطرے میں ہے، یہ کان بھی خطرے میں ہے
ظاہر و باطن نشانے پر ہیں دونوں سمت سے
جان بھی خطرے میں ہے، ایمان بھی خطرے میں ہے
چار دیواری میسر ہے نہ ہے چادر یہاں
بے سروسامان کی اب آن بھی خطرے میں ہے
گولیوں کی زد میں ہیں سارے مریض و سب طبیب
درد بھی خطرے میں ہے، درمان بھی خطرے میں ہے
بوریا بستر سمیٹو اپنے گھر خالی کرو
حکم آیا ہے کہ یہ سارا نگر خالی کرو
سارے لوگوں کو یہاں سے کوچ کرنا چاہئیے
کل جو آئے گا یہاں اس کل سے ڈرنا چاہییے
آپ چاہو یا نہ چاہو، سب مگر خالی کرو
حکم آیا ہے کہ یہ سارا نگر خالی کرو
کل نہیں ہوگی کوئی جائے اماں
جل رہی ہوں گی یا ساری بستیاں
کھیت یہ کھلیان یہ پگڈنڈیاں
اب نظر آئے نہ یاں بندہ بشر خالی کرو
حکم آیا ہے کہ یہ سارا نگر خالی کرو
رونے دھونے سے نہیں ہوتا کسی دکھ کا علاج
اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی تدبیر ہونی چاہییے
خوش نما نعروں سے دھوکہ دے رہے ہیں آج بھی
ظالموں کے ظلم کی تشہیر ہونی چاہییے
ہر طرف حالات کا وہ جبر ہے،
آپشن یاں صبر ہے یا قبر ہے
مارنے والوں کو کچھ مطلب نہیں،
مرنے والا زید ہے یا بکر ہے
خوبصورت لفظ منہ پر مار دو،
رونا دھونا ان کا سارا مکر ہے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
بہت اچھی نظم ہے لیکن لمبی کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔۔۔
میرے بھائی نجیب، ایک بےگھر، بےکار اور بےروزگار کے پاس تو وقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لیے نظم زیادہ لمبی ہو گئی۔۔۔مزید یہ کہ آئی ڈی پی نے تشدد کا سہارا نہیں لیا اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے۔۔۔ نظم بہت اچھی ہے۔۔۔
اچھی نظم ہے، پر ايناکونڈا جتنی لمبی۔۔۔
محترم وسعت اللہ خاں صاحب آپ کی وسعتِ قلبی کو سلام ۔۔
نظم کو بلاتبصرہ شائع کرنا ہی اس پر سب سے بڑا تبصرہ ہے اور يوں بھی ۔۔۔
ظالموں کے ظلم کی تشہير ہونا چاہيے
خدا آپ کو مزيد وسعتِ قلبی عطا فرمائے
خير انديش
’ہر طرف حالات کا وہ جبر ہے،
آپشن یاں صبر ہے یا قبر ہے
مارنے والوں کو کچھ مطلب نہیں،
مرنے والا زید ہے یا بکر ہے
خوبصورت لفظ منہ پر مار دو،
رونا دھونا ان کا سارا مکر ہے۔۔۔‘
لگتا ہے دِل نِکال کر رکھ ديا ہو
ہم کبھی ان کے دکھوں کا اندازہ نہيں لگا سکتے۔
اس طرح کی شاعری کو سواتيوں اور سوات کيساتھ اک گہرا تعلق رکھنے والوں کے علاوہ کوئی نہيں سمجھ سکتا۔ اس لیے طوالت کے شکوے کا کسی کو حق نہيں۔
اس نظم میں وسعت اللہ خان کی طرح وسعت ہے !
محترم وسعت بھائی اس نظم کو اقساط ميں شائع کرتے تو پڑھنے ميں آسانی ہوتی۔ ابھی تک سوات کی خوبصورتی والے ہی اشعار پڑھ سکا ہوں، جو کہ سب کو معلوم ہے کہ جنت نظير ہے، تو نظم ميں کوئی نئی بات نظر نہيں آئي۔
سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
زباں بھي ہے ہمارے منہ ميں اور تاب سخن بھي ہے
میرے خیال میں ہمیں نظم پر تبصرہ کرنے کی بجائے اس دکھ کو اور احساسِ محرومی کو اور جو ایک کمزور شخص کا احساسِ بغاوت ہوتا ہے اس کو محسوس کرنا چاہیے۔ کل تک وہ سب خوش تھے، ہنستے مسکراتے تھے، لیکن انہیں آنے والے کل کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اس لیے ہمیں ان کا احساس کرنا چاہیے۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ۔۔۔
يہ طويل نظم متاثرين کے احساسات کی ترجمان ہے جو اپنے گھروں سے دور خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے ہيں۔ خدا کرے ان کی يہ آزمائش جلد ختم ہو۔
سب سے صحيح تبصرہ وہی کر سکتا ہے جس کے ساتھ گزر رہی ہے۔
ميں صرف اتنا کہوں گا کہ
’باب مستقبل سے نکلے گا کسی دن آفتاب‘
بہت اچھے خیالات ہیں۔ جو سوات کے موجودہ حالات اس میں سمو دیے ہیں۔
میں اس نظم سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ کاش پاکستان کے دوسرے ادیب اور شاعر اپنے اخباری کالم لکھنے کی بجائے اپنی تخلیقی کارکردگی کو اس موضوع پر مرتکز کریں۔
بہت اچھے خیالات ہیں۔ جو سوات کے موجودہ حالات اس میں سمو دیے ہیں۔
يہ دلي جذبات کي اصل ترجمانی ہے اس سے بہتر لکھا ہی نہين جا سکتا
نظم ميں شعريت پائی جاتی ہے۔ بہت عمدہ!
’باب مستقبل سے نکلے گا کسی دن آفتاب‘