پیار بھی پروجیکٹ!
برسوں بیتے کہ ایک دوست نے صحرائے تھر میں مجھ سے کہا تھا کہ 'این جی اوز اصل میں ترقی یافتہ دنیا کی طرف سے تیسری دنیا کے کنگلے لیکن ذہین لوگوں کو امیر بنانے کا نسخہ ہے'۔
تب ابھی صحرائے تھر میں چمکتے کجاووں والے اونٹوں کی قطاروں کیساتھ وہ ڈبل ڈور اور ایس یو ویز گاڑیاں نہیں دوڑتی تھیں جو اب تھر میں یا تو اسگملروں کے پاس ہیں یا پھر این جی اوز والوں کے پاس۔ اور نہ ہی نیپال سے نیدرس لینڈ تک اڑ کر جانیوالے کانفرنس پرندوں کی ڈاریں پیدا ہوئی تھیں۔
اسی لیے تو میرے دوست ظفریاب احمد نے سرائیکی دیس سے کل کے ایک ریٹائرڈ سرخے سے کہا تھا 'سنا ہے تم نے اسلام آباد میں این جی اوز کا بڑا کوٹھا کھول لیا ہے!'
روس کیا ٹوٹا، گیارہ ستمبر کیا ہوا، آسمان سے کچھ لوگوں کے لیے آگ تو کچھ کے لیے دھن برسنا شروع ہوا۔ اب ہر چيز بک رہی ہے۔ اسلام سے لیکر ایڈز تک اور تلور سے لیکر تیندوے تک جنگل جنگل شہر شہر 'گاؤ انقلاب گاؤ' ہونے لگا۔ سندھ سے لیکر سری نگر تک اب ایک این جی اوز بازار لگا ہوا ہے۔ سندھو ندی کے پیٹ میں پلا مچھلی اور ڈولفن بھی بیچی گئی ہے۔ غریب لوگ ہیں کہ اپنے بچے اور سانپ بیچ رہے ہیں۔ تھانوں میں ان کی ناک میں نکیلیں، چونا اور نسوار ڈالی جارہی ہے۔ غربت اور ظلم رکے نہیں، ہر روز فوجی پیش قدمیوں کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب ہری پور ہزارہ عمر اصغر خان اور ان کے 'سنگی' سے زیادہ جہادیوں کے حوالے سے جانا جانے لگا ہے۔ عورت ہے کہ غیرت کے نام پر بےغیرتی کے ساتھ گاجر مولی کی طرح کاٹی جارہی ہے۔
ایسا لگتا ہے گویا اب پیار بھی ایک پروجیکٹ ہو گیا ہے۔ مشہور معشوقائيں اور معشوق اور عاشقی جیسے لوگ بھی این جی او میں بکے یا بیچے گئے۔
ایسا بھی نہیں کہ دنیا میں ساری خرابیاں این جی اوز کے آنے سے ہوئی ہیں۔ بہت سے اچھی چیزيں بھی ہوئی ہیں۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ہال ویز اور برقی سیڑھیوں پر سے اب صرف سربراہان مملکت اور سفیر نہیں اترتے چڑھتے بلکہ یو این میں بھارت سے زرق برق رنگ برنگی ساڑھیوں میں ہیجڑوں اور خاکروب عورتوں کو بھی ادھرادھر گھومتے دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حسن مجتبیٰ صاحب، اسلام علیکم کے بعد مودبانہ عرض ہے کہ پاکستان میں این جی اووز کا ڈھانچہ اس قدر وسیع، پیچیدہ اور گھنجلک ہے کہ یہ مکمل طور پر بیوروکریسی دکھائی دیتی ہیں اور سول و ملٹری بیوروکریسی ان کے فطری پارٹنر ہیں۔ چونکہ ملک میں کام کرنے والی نامور این جی اووز کو یو ایس ایڈ، سیڈا اور جیکا وغیرہ جیسے معاشی ادارے فنڈنگ کرتے ہیں لہذا یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ این جی اووز سرمایہ داری استحصالی نظام ہی کا ایک حصہ ہیں۔ رولا یہ ہے کہ ان این جی اووز پر حکومتی سطح پر ’چیک اینڈ بیلنس‘ نہیں رکھا جاتا اور جسکی غالباً وجہ یہی ہے کہ ان این جی اووز کو ایسے ممالک کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے جنکی پالیسیاں جارحانہ اور استبدادنہ ہیں اور جو جنوبی ایشیاء اور ترقی پذیر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ این جی اووز معاشرہ میں تبدیلی کا نعرہ تو لگاتی ہیں لیکن درحقیقت صورتحال کو جوں کا توں رکھنے یا ایک گڑھا بھرنے کے لیے دوسرا گڑھا کھود کر مسائل کو وہیں پر جامد رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی منزل جلدی طے نہ کر لے۔
اين جي او کلچر حکمرانی عوام اور سماج کو تقويض کرتا ہے مگر اپنے ہاں فرد واحد کی مضبوط حکومت ہی سبوں کا خواب رہا ہے۔۔۔
اين جی اوز اصل ميں ترقی يافتہ دنيا کی طرف سے تيسری دنيا کو اپنی کالونی بنائے رکھنے کا نسخہ کیميا ہے۔
ايسا لگتا ہے گويا اب پيار بھی ايک پروجيکٹ ہوگيا ہے۔ جيو مجتبٰی صاحب جيو، کيا بروقت اور دل کو چھو لينے والی بات کہی آپ نے۔
’محبت اب تجارت بن گئی ہے
تجارت اب محبت بن گئی ہے۔۔۔‘
محترم حسن مجتبٰی صاحب، بات یہ ہے کہ کسی کو مار مکانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا زہر دیکر مارنا اور دوسرا گُڑ دیکر مارنا۔ زہر دے کر مارنے سے بندے کا خود پھاہے لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے اس طریقہ کو استعمال کرنا بہت مشکل اور خطرناک ہوتا ہے۔ جبکہ گُڑ دے کر مارنے سے سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ این جی اووز اسی گُڑ دے کر مارنے پر یقین رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور ملک پر ’مہذبانہ انداز‘ میں اپنا کنٹرول کرتی جا رہی ہیں اور اس کے عوض عالمی معاشی اداروں سے خوب پیٹ بھر رہی ہیں۔۔۔
لگتا ہے آپ کو اين جی او کی دوکان نہيں ملی اور نہ گاڑي، پيسہ ورنہ آپ کو کيسےخيال آگيا۔۔۔ بلاشبہ يو اين اچھا کام کرتی ہے، ليکن يہ جو ريڈ لپسٹک لگائے عورتیں اين جی اوز چلاتی ہیں اگر وہ صرف اپنی گھريلو ملازمہ کی ہی حالت بہتر کر ديں تو نيکی شروع انکے اپنے گھروں سے۔ ليکن يہ تو وہ ملک ہے ہمارا جہاں انسان خريدے اور بيچے جاتے ہيں، کوئی ’چيک اينڈ بيلينس‘ کا تصور ہی نہيں سرے سے، ادھر بس موٹو ہے ’مال بناؤ۔۔‘
دراصل قصور کچھ اپنا بھی ہے، ہم خدمت خلق اور آپ مدد آپ کے تحت کام کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہو چکے ہیں۔ ورنہ ان این جی ایوز کو ہمارے ہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
حکومت کے ہاتھ میں ہوتا تو شاید دو ہزار پانچ زلزلہ کے متاثرین اور حالیہ سوات کے آئی ڈی پیز بھوکے مر چکے ہوتے۔