| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جنگلی یا جنگلاتی!

اصناف:

وسعت اللہ خان | 2009-07-20 ،10:45

آئیڈیل بات تو یہ ہے کہ ہر ملک کا کم ازکم بیس فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ ماحولیات کو سانس لینے کے لیے ان جنگلات کی صورت میں پورے پھیپھڑے میسر رہ سکیں۔

لیکن سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا صرف لگ بھگ پانچ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق پاکستان کے پاس صرف تین فیصد جنگلات باقی ہیں۔ ان میں سے بھی ہر سال قریباً اکتالیس ہزار ہیکٹر جنگل غائب ہو رہا ہے۔ اس غیابت میں آگ، کیڑے مکوڑوں اور نباتاتی بیماریوں کا قصور صرف چھ فیصد ہے۔ بقیہ چورانوے فیصد جنگل کی صفائی کے ذمہ دار کمرشل اور نان کمرشل، قانونی و غیر قانونی انسانی ہاتھ ہیں۔

جو جنگل بچ گیا ہے وہ کتنی تیزی سے غائب ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سن نوے سے دو ہزار پانچ تک بچے کھچے جنگل میں سے بھی پچیس فیصد کا وجود نہیں رہا۔ گویا اس رفتار سے اگلے پچیس سے تیس برس میں پاکستان کا جنگل صرف کتابوں اور یادوں میں ہی رہ جائے گا۔

اس مایوس پس منظر کے ساتھ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی وزارتِ ماحولیات نے نیشنل بینک کی مالی مدد اور سندھ کے محکمہ جنگلات اور تین سو مقامی رضاکاروں کے تعاون سے کیٹی بندر کے ساحلی علاقے میں مینگرووز کے جنگلات میں اضافے کے لیے ایک دن میں چھ لاکھ کے لگ بھگ پودے لگا کر ایک دن کی شجر کاری میں بھارت کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔ وزارتِ ماحولیات نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اگلے تین برس تک ان پودوں کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائےگی تاکہ یہ مضبوطی سے جڑ پکڑ لیں۔

ویسے بھی پاکستان میں یہ برس ماحولیات کا قومی سال قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس برس کے دوران سرکاری، سیاسی و سماجی تنظیمیں یہی نعرہ اپنا لیں کہ 'جنگلی نہیں جنگلاتی بنیے' تو بہت سے ماحولیاتی و غیر ماحولیاتی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:30 2009-07-20 ,سجادالحسنين حيدرآباد دکن :

    وسعت صاحب، واقعی جنوبی ايشيا نے ماحوليات کی برقراری سے بہت حد تک لاپرواہی برتی ہے ليکن جہاں بھی اور جب بھی اس ضمن ميں سنجيدگی دکھائی گئی ہے حالات بہتر ہوئے ہيں۔ پورے ہندوستان ميں اس ضمن ميں کيا کچھ کيا جارہا ہے يہ تو پورے يقين کے ساتھ نہيں کہا جاسکتا ليکن آندھرا پرديش ميں آج سے دس سال پہلے تلگو ديشم کی حکومت نے اس معاملے کو سنجيدگی سے ليا تھا اور ’کلين اينڈ گرين‘ کے نعرے کے تحت شجرکاری کا کام پورے زور و شور سے انجام ديا گيا تھا۔ ہر سکول کے ہيڈ ماسٹر، ہر منڈل کے تحصيلدار اور ہر ضلع کے کلکٹر کو پابند کر ديا گيا تھا کہ انہيں اپنے علاقے ميں نہ صرف مہينے ميں کم سے کم تيس لاکھ پودے لگانے ہيں بلکہ ان کی ديکھ ريکھ بھی پوری توجہ کے ساتھ کرنی ہے۔ اس کے لیے نرسری اور سينچائی کے محکمے قائم کيے گئے تھے اور پودوں کی آبياری کے لیے ماليوں کی لاکھوں اسامياں نکالی گئیں تھیں اور آج اسی کا اثر ہے کہ بارش قابل لحاظ ہوتی ہے اور موسم بھی کم از کم آٹھ مہينے تک خوشگوار رہتا ہے۔ ہاں کچھ دنوں سے قومی شاہ راہوں کو دونوں جانب سے چوڑی کرنے کے سلسلے ميں جو ماسٹر پلان ہو رہے ہيں ان ماسٹر پلانوں ميں لاکھوں تناور پيڑ کاٹے جا رہے ہيں۔ اب کچھ لوگوں نے اس مسئلے پر رياستی اسمبلی ميں آواز اٹھائی ہے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ کانگريس کی نئی رياستي حکومت اس سلسلے ميں کس حد تک سنجيدگی دکھاتی ہے۔۔۔

  • 2. 12:35 2009-07-20 ,راشد احمد :

    اگر جنگلات اگانے کے علاوہ آپ ان چيزوں کا جائزہ ليں جو ہميں کسی حکومتی مدد اور ترغيب کے بغير کرنی چاہئیں اور يہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں اور اسکا ہماری قومی زندگی پر کافی مثبت اثر ہوسکتا ہے تو وہ ہم نہیں کرتے ہیں۔ مثلاً بجلی کا بےجاہ استعمال نہ کرنا، سڑکوں اور گليوں کو اپنے گھروں کی طرح صاف رکھنا، سماجی ميل جول میں خوش اخلاقی سے پيش آنا، برداشت اور صبر سے دوسروں کي رائے سننا وغيرہ وغيرہ۔۔۔

  • 3. 12:36 2009-07-20 ,Abdul Waheed Khan, Birmingham (UK :

    وسعت اللہ خان صاحب! آپ نے بجا فرمايا کہ جنگلی نہيں جنگلاتی بننے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کو عوام دوست بنايا جاسکے۔ ميرا تعلق ضلع اٹک سے ہے جہاں کا کالا چٹا پہاڑ کا جنگل بڑا مشہور ہے اور جنگل مافيا ہر سال بڑے پيمانے پر جنگل ميں آگ لگا کر اپنی کرپشن پر آگ کا پردہ ڈال ليتے ہيں اور پھر پورا سال جنگل سے لکڑی چوری کر کے بيچی جاتی ہے اور پھر ايک اور آگ کی آڑ ميں يہ جنگل چور مافيا اپنے آپ کو بچا ليتے ہیں۔ جب تک ايمانداری نہيں ہو گی جتنے مرضی درخت لگاتے جائيں جنگلات کم ہوتے رہيں گے۔۔۔

  • 4. 16:59 2009-07-20 ,sana khan :

    يہ پودے صرف انڈيا کا ريکارڈ توڑنے کے لیے لگائے گئے ہیں جو اس رات يہ پھر ايک ہفتے کے ہی دوران چوری بھی آرام سے کر لیے جائیں گے انتظاميہ کی ملي بگھت سے کيونکہ اب ہم جنگلی لوگ جہاں چار مل جاتے ہیں اسی کو جنگل بنا کے چھوڑ ديتے ہیں کيونکہ ہم لوگوں کو صرف جنگل میں منگل منانے کا شوق ہے۔۔۔

  • 5. 17:31 2009-07-20 ,اے رضا :

    خدا اجر عظيم کے ساتھ آپ کی توفيقات ميں اضافہ فرمائے جو يہ موضوعات زير قلم لاتے رہتے ہيں۔ گزارش ہے ہفتہ شجرکاری نام کا ايک سلسلہ بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہيں۔ اس کے نتيجے ميں تو اب تک پاکستان کا کوئی کونا بغير درخت نہيں ہونا چاہيے تھا ليکن ہوا کيا؟ يہ ريکارڈ تب کوئي معنٰي رکھے گا اگر يہ پودے پروان بھي چڑھ پائيں گے۔ نيم کا درخت صرف چھ ماہ کی نگہ داشت مانگتا بتايا جاتا ہے جس کے بعد يہ خود کفيل ہو جاتا ہے۔ اگر ہر پاکستاني اپنےگردونواح ميں صرف ايک نيم کا پودا لگا کر اسے چھ مہينے پاني پلا دے تو سوچيے کيا نہيں ہو سکتا ہے۔

  • 6. 22:07 2009-07-20 ,suleman khan :

    خان صاحب ميں آپ کی اس بات سے متفق نہيں ہوں۔ آپ کے خيال ميں عرب مالک کے کتنے فيصد حصہ پر جنگلات ہیں؟ عرب مالک میں تو جنگل نام کی کوئی چيز ہے ہی نہیں۔ ميرے خيال میں اس وقت پاکستان میں ’جنگليوں‘ کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ جنگلی ملک سے باہر بيٹھ کر ملک ميں جنگليوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔۔۔

  • 7. 23:55 2009-07-20 ,Nadeem Ahmed :

    وسعت بھائي، مجھے تو يہ سب کاغذی کارروائی لگتی ہےگ کاغزوں میں تو پورے ملک ميں سڑکوں کا بھی جال بچھا ہوا ہے۔ ہمارے ايک دوست نے امريکہ کے ويزہ کے ليے جب پراپرٹی کے کاغذ ويزہ افسر کو پيش کيے تو ويزہ افسر نے ہنس کر کہا کہ پاکستانيوں نے اب تک جتنی پراپڑٹی کے کاغذ ہميں پيش کیے ہیں، وہ پاکستان کے کل رقبے سے بھی کئی گنا زيادہ ہےگ اسی طرح اب تک کی شجر کاری کا حساب لگايا جائے تو پورا ملک جنگل ہونا چاہيے تھا۔ ويسے ہے تو جنگل ہي، مگر وکھری ٹائپ کا۔۔۔

  • 8. 23:57 2009-07-20 ,muhammad afaq :

    ایک دن میں چھ لاکھ پودے!! کیا آپ کو اس پر واقعی یقین ہے؟ بھائی آپس کی بات ہے، وہاں کون گن رہا ہے۔۔۔

  • 9. 4:28 2009-07-21 ,Hamid Marwat :

    پہلے تو پاکستانی حکومت کو ریکارڈ پر مبارک باد۔ مگر مجھے اس ریکارڈ پر کچھ شک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تین سو افراد ایک دن میں پانچ لاکھ سے زیادہ پودے نہیں لگا سکتے۔ میں ایک فارسٹر ہوں اس لیے یہ بات بخوبی جانتا ہوں۔ جب تک وزارت اس بات کو صاف نہیں کرتی ان کا دعوی مشکوک ہی رہے گا۔۔۔

  • 10. 8:00 2009-07-21 ,kausersaleem :

    پیڑ پودوں کی یہ فکر بڑی اچھی ہے مگر جنگلات کے تحفط کی یہ فکر نوع انسانی کی بقاء کی خاطر اگر ہے تو پھر بے ضرورت جنگوں میں جو آئے دن انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے، جو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں خود اب تک سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے، جو قومیں انسانی جانوں کی فصل کاٹنے میں مصروف ہیں انہیں نباتات اور جنگلوں کی کیوں کر فکر ہو گی۔۔۔ کیا یہ فکر اس فکر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔۔ ذرا غور کیجے

  • 11. 8:42 2009-07-21 ,sabeen :

    ویسے ہمارے ملک میں ہر کام انڈیا کو دیکھ کر ہی کرنے کا خیال کیوں آتا ہے؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔