کھڑکیاں کھلتی ہيں دماغ کی۔۔۔
'میڈم آئیے بہت اچھا مال ہے، نئی ورائٹی آئی ہے، انڈیا سے ابھی ابھی۔۔۔' میں مسکرائی اور کہا، نہیں کچھ اور دکھائیے۔
دل ہی دل سوچ رہی تھی کہ لاہور آکر انڈیا کا سامان بھلا میں کیوں خریدوں۔
تبھی دکاندار نے مزید نرم مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، آپ تو کلفٹن آتی ہوں گی ہماری دکان پر۔۔۔ اب یہاں بھی نئی دکان کھول لی ہے۔ پھر مجھے کہنا ہی پڑا کہ میں کراچی سے نہیں دلی سے آئی ہوں۔
یعنی جب بھی میں پاکستان گئی، نہ مجھے کبھی لگا اور نہ شائد پاکستان میں کسی کو، کہ میں پاکستان کی رہنی والی نہیں ہوں۔
چھوٹی سی بات، بس یہ کہ شکل صورت الگ نہ بات چیت کا طریقہ۔۔۔ ویسے بھی اگر انگریز سرحد کی لکیر نہ کھینچ گئے ہوتے تو ہندوستان اور پاکستان کے لوگ واقعی لاہور اور دلی شاپنگ کرنے کے لیے آتے جاتے۔ نور جہاں اور لتا مشترکہ وراثت ہوتیں۔
وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے اور بہت کچھ نہیں بھی۔
ہندوستان سے پاکستان گھومنے پھرنے آج بھی شاید وہی جاتا ہے جن کا خاندان یا تجارت سے کوئی رشتہ ہو۔
آج بھی کئی ایسی غلط فہمیاں ہيں جو ذہن میں بسی ہیں۔ اپنی سکیورٹی کو لے کر آج بھی ایک عجیب سا ڈر ہوتا ہے۔ کیونکہ سرکاری سوچ ہماری سوچ پر اثر ڈالتی ہی ہے۔
پاکستان سے لوٹ کر ضرور سوچ بدلتی ہے۔ کہتے ہيں نہ کھڑکیاں کھلتی ہيں دماغ کی۔ لیکن شاید آج بھی حکومتیں سوچ بدلنا نہیں چاہتی، کیونکہ اسی سے ان کی روزی روٹی بھی چلتی ہے۔ دونوں ملکوں کی برابری کی سوچیں، بڑی بڑی باتیں، دعوے، دعوتیں، بڑے گھروں کی پسند دونوں ملکوں میں ایک جیسی ہیں۔ کچھ فرق بھی ہے، تو کچھ صاف تو کچھ پوشیدہ پوشیدہ۔ مثلاً پاکستان میں سڑک پر بھیک مانگتے لوگ بھارت سے کم دکھتے ہیں۔
ميں نے دل ہی دل سوچا، پاکستان نے اچھی ترقی کی ہے۔ ہندوستان دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ پر تبھی راولپنڈی کے ایک جوتے بنانے والے کی بات یاد آگئی کہ کیسے ان کے پچاس روپے کی کمائی میں سات بچوں کے خاندان کو پالنا مشکل ہے۔ یعنی جو دکھتا ہے ہمیشہ سچ نہيں ہوتا۔
جو فرق صاف دکھتا ہے وہ یہ کہ ہندوستان میں سیاسی رہنماؤں کی جماعت جمہوریت پسند زیادہ ہے اور ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ہر طبقے کی نمائندگی ہے۔ غریب، امیر، اعلٰی، پسماندہ ۔ جبکہ پاکستان میں آج بھی سیاست پر اعلٰی طبقہ ہی قابض ہے۔
وراثت کی بات کریں تو بالی وڈ فلموں کے لیے دیوانگی دونوں طرف ہے لیکن ہندوستانی فلموں میں پاکستان کو جیسا دکھایا جاتا ہے اس پر پاکستان میں ناراضگی ہے اور لالی وڈ کی حسرت کہ ایک عدد امیتابھ ان کے پاس بھی ہو۔
آپ ہندوستان - پاکستان کی بات کریں اور کشمیر کی بات نہ کریں تو بات ادھوری رہتی ہے۔
پہلے کچھ باتیں صاف کردوں کہ چونکہ میں پنجاب کی نہیں اور نہ ہی میرے خاندان کو تقسیم جھیلنی پڑی، اس لیے میرے ذہن میں کشیمر کو لیکر کوئی خاص ٹیس ( درد) نہیں۔۔۔
تو جب میں اس مسئلے پر بعض لاہوریوں کی نبض ٹٹولنے بیٹھی تو بات شروع کی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کی اہمیت سے، تھوڑی تلخی اس بات کو لے کر ہوئی کہ غلطی کس کی تھی اور حق کس کا۔ ایک گھنٹے کے بعد بحث اس پر ختم ہوئی کہ ہمیں کشمیر واپس دے دو، میں یہ نہ کہہ سکی کہ کشمیر لے لو۔۔۔
شائد یہیں آکر پاکستان اور انڈیا کی تواریخ اور حقیقت ایک سی ہو جاتی ہے
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ رینا صاحبہ، آپ نے ضرور یا تو لاہور کی گوالمنڈی میں اور یا پھر منصورہ میں یہ بحث کی ہو گی جو آپ سے فی الفور کشمیر کا تقاضہ کیا جانے لگا۔ اگر خوش قسمتی سے آپ لاہور کے کسی دوسرے علاقے میں رائے لیتیں تو آپ کے ساتھ کشمیر کے بدلے میں ’کراچی‘ کو چھڑوانے کی بات ہوتی۔۔۔۔۔
رينو اگال جی سچ کہا آپ نے ليکن کيا آپ نے کبھی سوچا کہ اتنی نفرت کی وجہ آخر ہے کيا۔ اگر آپ کسی کو ديوار سے لگا ديں تو اس کا ردعمل تو ہوگا۔
ظاہر سی بات ہے کہ تقسيم تو غير فطری ہے اور غير فطری چيز کو معجزہ کہتے ہيں۔ پاکستان کے معرض وجود ميں آنے اور قائم رہنے کے معجزے کا ايک مقصد ہے۔ منطق دان اپنے تجزيوں ميں کہتے آئے ہيں کہ ہند کی تقسيم مسئلے کا حل نہيں بلکہ اس کی جڑ ہے۔ ميں کہتا ہوں کہ پاکستان اس فلمی ہيرو کی مانند ہے جو تمام مسائل کے باوجود اپنے مقصد ميں کامياب ہوتا ہے۔ اس ليے تقسيم ہند کو تسليم کر لينے سے دل کے بوجھ ہلکے ہوں گيں اور ہندوستان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔
ہم سب ايک ہيں۔ کشمير کو کشميريوں کا ہی ہونا چاہيے۔ انڈيا کی تعريفيں اور انڈيا کے لیے مثالی پيار ميری امی اور بڑي بہنوں کا ہے جو پچيس سال گزارنے کے باوجود انہيں پاکستاني نہ بنا سکا۔ آخر نانا، دادا سے لیکر ابا تک انڈيا ميں دفن ہيں۔ پر ميں تو پکی پاکستانی ہوں، باتوں اور حرکتوں سے بھی۔ ليکن انڈيا دوسرےگھر جيسا ہی ہے۔
ہندوستان کو ایک دن تقسیم ہونا ہی تھا کیونکہ گوروں نے ہماری مشترکہ تہذیب کو جلا کر خاک میں ملا دیا تھا۔ اب ایک ساتھ رہنا بہت مشکل تھا۔ اس لیے ایک ملک کے دو ملک بن گئے۔ مگر شاید ہم نے کبھی ایک دوسرے کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور یہیں پر سب سے بڑی خرابی پیدا ہوئی۔ ورنہ ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح بھی رہ سکتے تھے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔
دونوں ممالک کی حکومتوں نے عوام کو ایک دوسرے سے ڈرایا ہوا ہے۔ بس اسی ڈر کے پیچھے سب کچھ چھپا دیا جاتا ہے جیسے کہ مارشل لاز، آبدوزوں کے کمیشن، طیاروں کے فراڈ، کرگل کے تابوت، سقوط ڈھاکہ، گجرات کے فسادات، بابری مسجد کا انہدام اور کشمیریوں کا خون۔۔۔ صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا کے سیاستدان بھی ابھی نابالغ ہیں، عوام کمزور اور فوجیں طاقتور۔۔۔
ہم کب تک بس ایک دوسرے سے اس طرح موازنہ کر کے خوش ہوتے رہيں گے۔ باسٹھ سال ميں ہم نے ایک دوسرے سے دشمنی کر کے اتنا کچھ حاصل نہيں کيا جتنا ہم ایک دوسرے کی دوستی سے حاصل کرسکتے تھے۔ ہميں اپنی نظرياتی حدوں کے اندر رہ کر اپنے رويوں کو تبديل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دونوں طرف کی سنجيدہ کوششوں سے مسئلہ کشمير کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ ہندوستان جاؤں، خاص طور پر ہندوستانی پنجاب کے لوگوں کا رہنا سہنا دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کے وہاں کہیں مجھے آئی ایس آئی کا کارندہ بنا کر جیل میں نا ڈال دیں اور پھر کسی دن میری تصویر ٹی وی پر دکھائی جائے کہ یہ دہشت گرد زندہ گرفتار ہو گیا ہے۔ برصغیر کا تو پتا نہیں لیکن پنجاب کا بٹوارہ بلکل غیر فطری ہوا ہے۔
یہ جان کر کہ پاکستان آ کر آپ کو اچھا محسوس ہوا، بہت خوشی ہوئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو کچھ باتوں سے ایسا لگا ہو کہ پاکستان انڈیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو دونوں ملکوں میں بہت فرق ہے اور تقسیم کی یہ لکیر کل بھی ناگزیر تھی اور آج بھی اور آئندہ بھی رہے گی۔
پاکستانی شائقین واقعی ہندی فلموں کے دیوانے ہیں اور امیتابھ یقیناً انڈیا کا بہت بڑا نام ہے مگر یقین مانیں میں نے آج تک کسی پاکستانی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ امیتابھ ہمارے ہوتے۔
کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا حل صرف ایک ہے، کہ کشمیریوں کو اپنا فیصلہ خود لینے دیا جائے۔۔
کيا ميں انڈيا ميں ايسے آزادی سے شاپنگ کر سکتا ہوں يا وہاں سے واپس پاکستان لوٹ پاؤں گاآ آداب