| بلاگز | اگلا بلاگ >>

باسٹھ سالہ سارس اور لومڑی

وسعت اللہ خان | 2009-08-15 ،12:55

کراچی سے دلی ہفتے میں ایک فلائٹ جاتی ہے اور بہت ہی بھری ہوئی فلائٹ ہوتی ہے۔ لیکن اس روٹ پر چلنے والے پی آئی اے کے بوئنگ سیون تھری سیون میں گھستے ہی دونوں دیشوں کے آپسی رشتوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

دونوں دیش چونکہ ہر کچھ سمے بعد ایک دوسرے کی کسی بھی بات کو لے کر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں شاید اسی لیے سیٹ پر بیٹھتے ہی ایک ہتھا ہلا اور میرے ہاتھ میں آگیا۔

اس فلائٹ میں کسی دبلی پتلی نازک سی ائیر ہوسٹس یا سمارٹ سٹیورڈ کے بجائےموٹا تازہ اور پہلوان نما کریو دیکھنے کو ملتا ہے۔ شائد اس لیے کہ انڈین کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ پاکستانی دیکھنے میں ان سے کمزور یا انیس ہیں۔

ایک مسافر نے جب پچاس سالہ ائیرہوسٹس سے پانی مانگا تو اس نے دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ فوراً کاغذ کا گلاس پیپر نپکن کے ساتھ آگے کردیا۔ میں نے پانی مانگا تو وہ ابھی لاتی ہوں کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ دس منٹ بعد پھر پانی مانگا تو اس نے کاغذ کا گلاس بنا پیپر نپکن میری طرف ایسی مسکان کے ساتھ بڑھایا جیسے دونوں دیش ایک دوسرے کو دیکھ کر یوں مسکراتے ہیں گویا قرضہ بیاج کے ساتھ لوٹا رہے ہوں۔

میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس ائیرہوسٹس نے اس مسافر کو کیوں مسکرا کر پیپر نپکن کے ساتھ پانی دیا اور مجھے کیوں ایک مشینی مسکان کے ساتھ گلاس تھمایا۔ یوریکا! وجہ سمجھ میں آگئی! اس مسافر نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور میں نے بدقسمتی سےجینز پر فیب انڈیا سٹائل کا گیروا شارٹ کرتا پہنا ہوا تھا۔

یہ فلائٹ جس میں آدھے سے زیادہ وہ ساؤتھ انڈین ورکرز اور نارتھ انڈین امگرینٹس تھے جو گلف کے عرب دیشوں سے کراچی کے راستے دلی جارہے تھے۔ انہوں نے شدھ اردو میں یہ اعلان سنا۔

'خواتین و حضرات اسلام و علیکم۔ ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے اپنی پرواز کے لیے پی آئی اے کا انتخاب کیا۔ براہ کرم اپنی نشت کی پشت کو سیدھا کر لیجیئے۔ بالائی خانہ بند کرلیجیئے۔ آپ کے ملاحظے کے لیے حفاظتی تدابیر کا کتابچہ آپ کے سامنے کی سیٹ کی جیب میں ہے اور ہنگامی حالات میں استعمال کے لیےحفاظتی جیکٹ زیرِ نشست ہے۔ امید ہے آپ کا سفر پرکیف و خوشگوار گزرے گا'۔
میں نے ساتھ بیٹھے سردار جی سے پوچھا گروجی اعلان پلے پڑا؟ کہنے لگے 'واہگرو جانے۔۔میرے پلے تے کچھ نہیں پئیا۔۔۔'

مجھے کچھ سال پہلے کی ایک اور ان فلائٹ اناؤنسمنٹ یاد آ گئی۔
' کرپیا یہ گھوشنا دھیان سے سنیئے۔ ہم ممبئی سے کراچی کی اڑان پر آپ کا ھاردِک سواگت کرتے ہیں۔ ہماری یہ اڑان ایک گھنٹہ اے وم پانچ منٹ کی ہوگی۔ کرپیا سرکھشا بیلٹ باندھے رکھیے، یدی الیکٹرونک اُپکرن بند رکھیے کیونکہ اُڑان دوارا ویمان کے سنچار تنتر میں گڑبڑی ہو سکتی ہے۔ آشا ہے کہ انڈین ایئر لائنز سہت آپ کی یاترا سرکھشت، سوکھد، اےوم منگل رہے گی۔۔'

مجھے یاد ہے کہ میں نے ایئر ہوسٹس کو روک کر پوچھا تھا کہ ابھی جو گھوشنا ہوئی اس میں کہا کیا گیا۔کہنے لگی سر آپ بیٹھیں میں ابھی پرسر سے پوچھ کر بتاتی ہوں کہ اس کا آسان ہندی کرن کیا ہے۔

لیکن اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور؟ دونوں دیش جب بھی دلی اور اسلام آباد یا نیویارک یا شرم الشیخ یا سارک کی سائڈ لائنز پر وارتالاپ کا منڈپ سجاتے ہیں تو دونوں طرف کے نیتاؤں اور بیوروکریٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی زبان بولیں جس سے دیکھنے والے کو یہ تو شک ہو کہ کچھ بات ہو رہی ہے، پر اس بات کا کوئی مطلب نہ نکلنے پائے۔

ایک تھا سارس اور ایک تھی لومڑی۔ دونوں میں ہر وقت کھٹ پٹ رہتی تھی۔ ایک دن شیر کی کوششوں سے دونوں میں تال میل ہوگیا۔ لومڑی نے کہا سارس بھائی ہمارے گلے شکوے دور ہوگئے۔ کل آپ میرے گھر کھانے پر آئیے۔ سارس جب بن ٹھن کر لومڑی کے ہاں پہنچا تو لومڑی نے مسکراتے ہوئے ایک پلیٹ میں پتلا شوربہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سارس نے لمبی چونچ میں شوربہ بھرنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ لومڑی نے کہا ارے آپ تو بہت تکلف کررہے ہیں اور یہ کہتی ہوئی لپ لپ سارا شوربہ پی گئی۔ سارس نے لومڑی سے کہا کہ کل شام آپ میرے ہاں کھانے پر آئیے مجھے بہت خوشی ہوگی۔ لومڑی جب پہنچی تو سارس نے ایک صراحی میں بوٹیاں ڈال کر لومڑی کے سامنے رکھ دیں۔ لومڑی نے اپنی تھوتھنی صراحی میں ڈالنے کی کئی بار کوشش کی لیکن وہ ایک بھی بوٹی نہ نکال سکی۔ سارس نے کہا ارے آپ تو مجھ سے بھی زیادہ تکلف کررہی ہیں۔ سارس نے اپنی لمبی چونچ صراحی میں ڈالی اور سب بوٹیاں چٹ کرگیا۔

باسٹھ ورش بعد بھی کانفیڈنس بلڈنگ اور کمپوزٹ ڈائیلاگ کے سائے میں سارس اور لومڑی کی کہانی جاری ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:17 2009-08-15 ,Zaheer Chughtai :

    تو آپ کو سارا غصہ اس ائير ہوسٹس کے پانی مسکرا کر نہ دينے پر ہے۔ ايسا تو وسعت بھائی ہو ہی جاتا ہے۔ اسے تھوڑی پتہ تھا کہ آپ مہان سامراج کے مہاں نشرياتی ادارے ميں کام کرتے ہيں؟

  • 2. 18:01 2009-08-15 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    محترم وسعت اللہ صاحب، ازرائے مہربانی بلاگ مختصر اور آسان لکھا کریں۔ شکریہ۔

  • 3. 21:05 2009-08-15 ,شعيب انعام لندن :

    اسے ’پی آئی اے‘ اسی ليے تو کہتے ہيں کہ اگر ايرہوسٹس سےپانی مانگا جائے تو جواب ملتا ہے ’جائیے جا کے خود ہی ’پی آئی اے‘!!

  • 4. 23:12 2009-08-15 ,عنا يت ا لله :

    وسعت صاحب سلام! بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔!

  • 5. 7:52 2009-08-16 ,اعجاز اعوان :

    جس ديس کے کوچے کوچے ميں افلاس آوارہ پھرتا ہو
    جو دھرتی بھوک اگلتی ہو اور دکھ فلک سے گرتا ہو
    جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں
    جہاں سچائی کے مجرم بھی زنداں ميں ڈالے جاتے ہوں
    جدھر مظلوموں کے خون سے محل اپنے دھوئے جاتے ہوں
    اس ديس کی مٹی برسوں سے يہ دکھ جگر پہ سہتی ہے
    اور اپنے ديس کے لوگوں کو جشن آزادی مبارک کہتی ہے ۔۔۔

  • 6. 8:31 2009-08-16 ,مسعوالحسن لاٹکی :

    وسعت صاحب آپ بھی ايسی اردو لکھتے ہيں کہ بس۔۔۔ رہی بات لومڑی اور سارس کی تو دونوں ملکوں کی اسٹيبشمنٹ کو ضرور سوچنا ہوگا۔۔۔

  • 7. 9:43 2009-08-16 ,انوراحمد :

    برادر باسٹھ برس بعد کہانی کچھ یوں تبدیل ہوئی ہے کہ شیر خود ہی دونوں کے گھر آ کر ان کی دعوت کر رہا ہے۔ اب چونکہ وہ خود میزبان ہے تو کسی کی بوٹیاں نوچ رہا ہے اور کسی کی گردن پکڑے شوربا چٹوانے کی کوشش کر رہا ہے۔

  • 8. 11:50 2009-08-16 ,saif :

    بہترین!

  • 9. 14:09 2009-08-16 ,sana khan :

    لومڑی اور سارس ميں کوئی رشتہ تو ہے، آخر تبھی تو پيار ميں حد سے گزر جاتے ہيں۔۔۔ وہ پچاس سالہ ايئر ہوسٹس کی بھی آپ کو فل مسکراہٹ چاہيے۔۔۔ کتنے پاکستانی ہيں آپ بھي، اب پچاس سالہ آنٹی ساٹھ سالہ انکل کو ديکھ کر خوش ہوگی يا چاليس سالہ۔۔۔ فيصلہ آپ پر ہے۔ ہم میں سے بہت کم ہی ايسے ہونگے جنہیں ہندی سمجھ نہ آئی ہو۔۔۔ اس کا سارا کريڈٹ سٹار پلس کو جاتا ہے۔۔۔

  • 10. 0:54 2009-08-17 ,Moodassar :

    خان صاحب، اس میں بڑی بات کیا ہے۔۔۔ ہر ائیر لائن اپنی زبان میں اعلان کرتی ہے۔۔ سمجھ نہیں آئی کہ آپ پی آئی اے اور ائیر انڈیا سے چاہتے کیا ہیں۔۔۔ میرے خیال میں اعلان انگریزی میں بھی ہونے چاہیے۔۔۔

  • 11. 2:26 2009-08-17 ,نديم مہتا :

    بی بی سی کی اردو اور ہندی نشريات بھی تو بالکل اسی اہتمام کے ساتھ پيش کی جاتی ہيں، اس پر تنقيد کا کب ارادہ ہے آپ کا؟

  • 12. 9:07 2009-08-18 ,مجيپ :

    اس تبصرے کے کيا کہنے۔۔۔

  • 13. 21:09 2009-08-18 ,Muhammad Nasir Zaidi :

    وسعت صاحب لگے ہاتھوں سمجھوتہ ایکسپریس کا بھی سفر کر لیجیے۔ شرم الشیخ کا ڈھونڈرا ابھی تک پیٹا جارہا ہے۔ کھری کھری باتیں اب بھی آپ کو دستیاب ہوں گی، خوب مزے سے ہم تک معلومات عامہ پہنچائیےگا۔ مجھے آپ کےاس سفر خیر کا انتظار رہےگا۔

  • 14. 4:00 2009-08-19 ,Ali Jan Rana :

    وسعت اللہ صاحب دعا کريں کہ دونوں ملکوں کے درميان پيار و محبت کی فضا قائم ہو۔

  • 15. 19:04 2009-08-19 ,DuFFeR - ڈفر :

    جاتے جاتے یہ فیصلہ بھی کر جاتے کہ سارس کون ہے اور لومڑی کون؟ اور فائدہ بوٹیاں کھانے میں زیادہ ہے یا شوربہ پینے میں؟

  • 16. 6:14 2009-08-20 ,منصور :

    وسعت اللہ خان صاحب
    آداب
    بھئی کمال کا بلاگ لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اور خوب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سارس اور لومڑی کی کہانی کو بھی کیا خوب آپ نے ہندوستان اور پاکستان پر چسپاں کیا۔ بچپن میں یہ کہانی سارس اور گلہری کے عنوان سے سنی تھی اور اس سے حاصل ہونے والا سبق لکھ کر دس نمبر کے سوال سے 9 نمبر بھی حاصل کیے تھے مگر جو سبق آپ نے سمجھایا ہے یہ تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
    جاری رکھیے۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔