آج کے ہیرو
منہ زور جوانی انسان سے بہت کچھ کرواتی ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے سولہ جولائی کو امریکی نوجوان زیک سنڈرلینڈ نے دنیا کے گرد اکیلے کشتی پر چکر لگانے والے کم عمر ترین نوجوان کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
زیک، جب اپنی چھتیس فٹ کی کشتی پر، اٹھائیس ہزار میل کا تنہا چکر لگا کر گھر واپس پہنچے تھے، تو ان کی عمر تقریباً سترہ سال آٹھ ماہ تھی۔ انہوں نے یہ سفر تیرہ ماہ میں طے کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ان کی اگلی منزل ماؤنٹ ایورسٹ یا قطب جنوبی ہو سکتی ہے۔
زیک ابھی شاید سمندر کے سفر کی تھکان بھی صحیح طرح نہیں اتار پائے ہوں گے کہ کسی اور نے یہ سفر ان سے بھی کم عمر میں اکیلے طے کر لیا ہے۔
برطانیہ کے مائیک پیرہم ستائیس اگست کو سترہ سال اور ایک سو چونسٹھ دن کی عمر میں دنیا کے گرد سمندر میں اکیلے چکر لگا کر واپس برطانیہ کی سمندری حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے اس تیس ہزار میل کےسفر پر پورٹسماؤتھ سے پندرہ نومبر سن دو ہزار آٹھ میں روانہ ہوئے تھے۔
مائیک کی ویب سائٹ کے مطابق وہ دو روز کے بعد ساحل پر پہنچیں گے۔ مائیک کو کشتی میں تکنیکی خرابیوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے کئی مقامات پر رک کر مدد لینا پڑی۔
ان نوجوانوں کو اپنے سفر کے دوران تنہائی اور تھکان میں پچاس پچاس فٹ کی لہروں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ مائیک کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک وقت میں بیس منٹ سے لے کر زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ سو سکتے تھے۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہر گھنٹے کے بعد کچھ نہ کچھ کھائیں۔
دریں اثناء اسی سال اگست کے مہینے میں ہی چوبیس سالہ سارہ اوتن تنہا بحیرہ ہند پار کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ وہ اپریل میں آسٹریلیا کے مغربی ساحل سے روانہ ہوئیں اور تین اگست کی شام کو ماریشس پہنچی تھیں۔ انہوں نے اپنے تجربے کو حیرت انگیز قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے قدرت کو اپنی تمام رعنائیوں میں دیکھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی اب ہالینڈ کی ایک تیرہ سالہ لڑکی لارا ڈیکر بھی دنیا کے گرد کشتی پر تنہا چکر لگانا چاہتی ہیں۔ ان کی اس خواہش کے خلاف سماجی کارکنوں نے عدالت میں درخوست دائر کر دی ہے۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ سفر اس 'بچی' کے مفاد میں نہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق لارا گیارہ سال کی عمر میں سات ہفتے تنہا کشتی میں گزار چکی ہیں۔ لارا کا، جو خود ایک کشتی میں پیدا ہوئی تھیں، کہنا ہے کہ وہ ابھی جانا چاہتی ہیں تاکہ ریکارڈ بنا سکیں۔ توقع ہے کہ عدالت اس ہفتے میں اپنا فیصلہ سنا دے گی۔
گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق تنہا، بغیر رکے اور بغیر مدد کے دنیا کے گرد سمندر میں سب سے کم عمری میں چکر لگانے کا اعزاز آسٹریلیا کے جیس مارٹن کا ہے جنہوں نے یہ کارنامہ اٹھارہ سال ایک سو چار روز کی عمر میں کیا تھا۔
لڑائی مار کٹائی اور دھماکوں کی دنیا میں ان نوجوانوں کا ذکر بھی ضروری جو ایک ایک متبادل ہیرو فراہم کرتے ہیں۔ ایک ایسا ہیرو جو دنیا کے مختلف کونوں میں نئے لوگوں سے ملنا چاہتا ہے، انہیں سمجھنا چاہتا ہے اور دوستی کرنا چاہتا ہے۔ ہیرو جسے بندوقوں، توپوں اور ایٹمی دھماکوں کی گھن گرج سے زیادہ قدرت کے رنگ متاثر کرتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں‘
جناب چوہدری اسد علی صاحب، آداب! اس میں کوئی شک نہیں کہ جوانی واقعی ہی دیوانی ہوتی ہے۔ جوانی کی طاقت ہزاروں ایٹمی توانائیوں سے زیادہ ہوتی ہے، پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلانے اور دریاؤں کا رُخ موڑنے کا کام جوانی ہی کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اخبار میں غالبآ سرگودہا کے ایک ایسے کمپوٹر ماسٹر بچے کی خبر پڑھنے کو ملی جو ٹائیفاییڈ بخار کی وجہ سے ٹانگوں اور ہاتھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا، لیکن اس نے منہ میں چھڑی رکھ کر کمپیوٹر کی بورڈ کو استعمال کرکے جہاں دنیا کو حیران کر دیا۔ آخر الذکر میں جوانی کو تباہی کا ذریعہ بنانے میں ہمارے ہاں ‘ملائیت‘ پیش پیش ہے جو ان نوجوانوں کو ‘جنت‘ اور ‘جہاد‘ کے سنہرے سپنے دکھا کر انسانیت کی تباہی کا سامان کر رہی ہے۔
‘خود کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے‘
آداب عرض!بندہ .انسان کو پورے يونيورس پر اختيار ديا گيا.نيک نيتی سے جو کرے.بس ضرورت ہے انسان کی غلامی سے آزادی کي۔ ۔ شکريہ
سوچتا ہوں پاکستانی نوجوان کن چکروں ميں کھو کر رہ گيا ہے -
اگر ريکارڈ بنانےکی بات ہے تو ہم پاکستانی فساد اور جھگڑوں کے علاوہ بھی کسی سے کم نہيں ،ميں نے بھی کئی گھريلو ريکارڈ بنائے ہيں۔ سترہ سال کی عمر ميں بچہ گود ميں لۓ رات کے تين بجے سے صبح فجر تک نان اسٹاپ چھت پراکيلے واک کی ہے،دو گھنٹے لگاتار ٹريڈمل پر ہلکی اسپيڈ پر رننگ کی ہے،فی الحال يہی بتانے لائق ہيں،پڑھائی کےعلاوہ خود کو ايکسپلور کرنا بہت اہم ہے،کل ہو نہ ہو !
اسد چوہدری صاحب!سارا دن ٹی وی پر آٹا چينی کے لئيے انسانيت کی تذليل ديکھتے ہوئے اکتائے ہوئے لوگوں کے يہ بلاگ لکھنے کا شکريہ!!
آپکے انہی ہیروز کے ملکوں کی حکومتیں کئی ملکوں میں لڑائی مار کٹائی میں مصروف ہیں ۔۔۔ اور بندوقوں، توپوں اور ایٹمی دھماکوں کی گھن گرج کی سب سے بڑی فنانسر بھی ۔۔۔ آپکے یہ خودغرض ہیروز اپنے ملکوں کی حکومتوں کو سمجھانے کی بجائےَ نظریں بچا کر ورلڈ ریکارڈ بناتے پھرتے ہیں
ہمارا معاشرا اور مذہب ہميں اس چيز کی اجا ز ت نہيں ديتا کہ ہميں اپنی مرضی سے کيا کرنا ہے بلکہ ہميں کوئی بہی نۓ قدم اٹھانے کيلۓ اپنے بڑوں سے مشاورت لينا ضروری ہوتا ہے کہ آيا يہ جاۂز ہے کہ نہيںـ آپ کے سامنے پاکستان ميں زيادہ عورتيں اپنی مرضی سے شادی بھی نہں کر پاتيں۔ ايسے ميں کوئی باپ اپنی بيٹی اور کوئی بھائی اپنی بہن کو کو کيسے سمندری سفر پہ بہيج سکتا ہےـآپ کو ياد ہوگا ثانيا مرزا کہ مختصر لباس پہ کتنا شور مچا تھا۔ـپاکستان وومن کرکٹ اور ہاکی ٹيم پہ تنقيد ہوتی آئی ہےـاگر ہم اپنی مرضی سے فيصلہ کرنا سيکھ جاۂں تو ميرا نہیں خيال کھ ہمارے مساۂل بڑھیں بلکہ کم ہوں گےـ
ہم نے محبت کے اظہار پر عورت کو کوڑے مارنے کا عالمی ریکارڈ توڑا ہے اور کم عمر ترين بچوں کو بم باندھ کر زيادہ دير چلنے اور اگلے جہان جلد سے جلد پہچنے کا وہ ريکارڈ بنايا ہے جو کوئی مائی کا لال سوچ بہی نہيں سکتاـ
کافی دن ہوگۓ ہيں، اسماء فرانس آپکی طرف سے خاموشی ہے،خدا کرے سب خيريت ہو،آپ کے جواب کی منتظر !
ہمت مرداں مدد خدا
هم نے تو سارى جواني بم کى ساتھ گزارى هے الله هم سب پر رحم کرے
باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ہم میں سے کوئئ بھی نہیں کر رہا۔ دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اچھے اور برے میں فرق کرنا سیکھیں۔ اور کوشش کریں اللہ پر توکل کے ساتھ۔ اللہ سب بہتر کرنے والا ہے۔
ثناء کے ريکارڈز مجھے بہت پسند آئے ہيں سائکو صاحب بھي بنا ہي ليتے بس ملا راستے ميں کھڑا تھا۔ اسليے پلٹ گئے۔ موڈريٹر صاحب نے جب ريکارڈ بنا ڈالا ميرے تبصرے نہ شائع کرنے کا تو ميں نے بھی جوابی ريکارڈ بنا ڈالا اتنے دن نہ لکھنے کا؛ابھی ثناء نے ياد کيا ہے تو لکھ رہی ہوں
چونکہ ریکارڈ بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں لہذا قارئین بالخصوص محترم اے رضا صاحب سے گذارش ہے کہ زیادہ ‘احساسِ کمتری‘ میں مبتلا نہ ہوں کہ پاکستانی نوجوان کن چکروں میں کھو کر رہ گیا ہے۔ اس ضمن میں باور رکھیں کہ جسطرح پاکستان کو دنیائے کرکٹ سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح پاکستان نوجوانوں کو ایسے مقابلوں میں شامل ہی نہیں ہونے دیا جاتا جہاں پر کوئی ریکارڈ بننے کا چانس ہو۔ واضح ہو کہ برطانیہ نے حال ہی میں گرفتار کیے گئے پاکستانی طلبہ کو واپس پاکستان بھیج دیا ہے حالانکہ ان پر کوئی جرم بھی ثابت نہیں ہوا۔ ان حالات میں پاکستانی نوجوانوں کی قابلیت سے امیدیں توڑنا درست نہیں۔ مزید برآں، پاکستان قوم کا سب سے بڑا ریکارڈ یہ ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں‘ پایندہ قوم ہیں، کسی بات کو سر پر سوار نہیں رکھتے، رات گئی بات گئی کا اصول اپنا کر زندگی گذارنے کا فن جانتے ہیں، دل کے بڑے ہیں، خوب ڈٹ کر کھاتے ہیں اور سوتے ہیں، فکر نہ فاقہ۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ان خصوصیات کی موجودگی بذات خود ایک ریکارڈ سے کم نہیں ہے۔ شکریہ۔
اسماء موڈريٹر نيا آگيا ہے شايد يہ پہلے موڈريٹر کا نيا متحمل ورژن ڈاؤن لوڈ ہوا ہے کوئی ٹينشن نہيں اب،ليکن آپ کدھر مصروف ہيں،مجھے بہت کم لوگ ياد آتے ہيں، ان ميں سے ايک آپ ہيں ويسے ہی بی بی سی پر تبصرے کرنے والي لڑکيوں کی شديد کمی ہے،آپ کے ريکارڑز پڑھنے کی منتظر!
جی ہم پاکستانی بھی ان سے بڑھ کر کر سکتے ہیں پر بد قسمتی کے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کوئی بھی ایسا کارنامہ انجام دینے کے لیے اور نہ ہی ہماری حکومت ایسے کسی بھی کام میں مدد کرتی ہے
عقل کل سائکو صاحب سے گزارش ہے کہ بات سمجھ ميں آئے تب بولا کريں - انہيں پتہ ہی نہيں ميں کيا کہہ گيا -
ثناء ميں لڑکی نہيں عورت ہوں ميرا وہی ريکارڈ ہے جو عام طور پر سبھی پاکستانيوں کا ہوتا ہے چار سالوں ميں تين بچے (ڈرنا نہيں بس اسکے بعد فل سٹاپ ہے) اور موڈريٹر کا مجھے لگتا ہے ميرے ساتھ کوئی خاص تنازعہ ہے دل ميں رکھے بيٹھے ہيں بتا ديں تو شايد حل نکل آئے ويسے اب آپ نے ياد کيا ہے تو اب انشاء اللہ ہر روز