آزادی اور غیر کشمیری بہو
بھارتی شہر بنگلور میں ساسوں نے خود پر ولن کا لیبل ہٹانے کی جو حال ہی میں مہم شروع کی ہے بیشتر کشمیری ساسیں عنقریب اس مہم میں شامل ہونے کی جدو جہد شروع کرنے والی ہیں۔
کشمیری ساسوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بیٹے غیر کشمیری بہوؤں کو لا کر انہیں ایک نئے مخمصے میں ڈال رہے ہیں۔
مسئلہ نہ صرف کشمیری رہن سہن کا ہے بلکہ ایڈجسمنٹ، زبان، پوشاک اور کچھ کچھ سوچ کا بھی۔
غیر کشمیری بہوؤں کو بیاہ کر لانے کی بنیاد آزادی نواز راہنماؤں نے ڈالی اور اب یہ ایک روایت بنتی جا رہی ہے۔
لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال کے استقبال کے لیے گو کہ پورا سرینگر سڑکوں پر نکل آیا تھا مگر ہر کوئی دوسرے سے دبی آواز میں پوچھ رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان سے آزادی کا خواہش مند رہنما شادی کرنے پاکستان کیسے پہنچا۔
اس سے پہلے حریت رہنما عبدالغنی لون کے صاحبزادے سجاد غنی لون نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے کے رہنما امان اللہ خان کی بیٹی سے شادی کی تو حریت کے دوسرے حلقوں میں یہ تاثر ابھرا کہ آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ شادیاں کرانے کا کام بھی شاید خفیہ اداروں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
میرواعظِ کشمیر مولوی عمر فاروق کی کشمیری نژاد امریکی لڑکی سے شادی کرنے کے بعد حریت کے بعض حلقوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش میں خفیہ اداروں نے ان راہنماؤں کو ویزا کے چنگل میں ایسا قید کیا کہ آزادی کی آوازیں اب خود بخود بند ہو جائیں گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ جی ليکن يہ بات سمجھ ميں نہيں آئی کہ بنگلور ميں شروع ہونے والی مہم سے کشميری ساسوں نے کيسے تاثر لے ليا ۔۔۔
محترمہ نعیمہ احمد مہجور صاحبہ، آداب عرض! اس بلاگ کی وساطت سے یہ تو خیر پتہ چلا کہ آپ خیر خیریت سے ہیں کہ کافی عرصہ ہوا آپ کا کوئی بلاگ نظروں میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ بات واقعی ہی قابلِ غور ہے اور کشمیری عوام کی سیاسی حِسوں کی موجودگی و پختگی کو واضح بھی کرتی ہے کہ آخر بھارت اور پاکستان سے آزادی کے خواہشمند اور ’خودمختار و آزاد کشمیر‘ کے داعی یاسین ملک شادی خانہ آبادی کرنے پاکستان کیسے پہنچے۔ دیکھا جائے تو ایسا ہو جانا جہاں پاکستان کی ’فتح‘ قرار دی جاسکتی ہے وہیں پہ یاسین ملک کے نعرے ’خود مختار کشمیر‘ کی کسی نہ کسی طرح نفی بھی ہوتی ہے۔ کشمیر سے باہر یعنی شادی کے لیے پاکستان کا انتخاب، یاسین ملک کی سیاست کے لیے کوئی زیادہ خوشگوار عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شکریہ۔
لوگوں نے يہ کہا لوگوں نے وہ کہا۔ ارے لوگوں کی کون پرواہ کرتا ہے جی، اگر لوگوں کی باتوں کے چکر ميں پڑ گئے تو سارے کشميری ليڈر کہيں کنوارے ہی نہ رہ جائيں۔
ساس اور بہو کے قصے زيادہ تر ان گھروں ميں پيدا ہوتے ہيں جہاں مرد يہ سمجھتے ہيں کہ اس کی بيوی کا کام اس کی ماں کی خدمت کرنا ہے۔ اسلام ميں صرف بيٹے پہ لازم ہے کہ وہ اپنے والدين کی خدمت کرےـ۔ بہو اگر خدمت کرے تو يہ اس کی اعلٰی ظرفی ہوگي۔ اصل ميں نيم ملاں نے غلط تعليم دے کر لوگوں کے ليے خطرہِ جان کا سامان پيدا کيا ہوا ہے۔
کم از کم کشمیریوں کو مرضی کا جیون ساتھی چننے کا تو حق دیں۔ باقی تمام آزادیاں تو پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے ان سے چھین لی ہیں۔