جسونت سنگھ اور جناح پور
اتنا جسونت سنگھ کی کتاب سے زمین اور آسمان ایک نہیں ہوئے جتنا جناح پور کے نقشوں والی بات سے دھرتی تانبا بنی ہوئی ہے۔
وہ جو کہتے ہیں نہ کہ گالیوں سے بچے پیدا نہیں ہوتے، جتنا گھمسان کا رن جھوٹ اور سچ، تردید وتصدیق، اصرار وانکار جناح پور کی نقشوں والی بات سے اٹھا ہے اس سے ایک جناح پور تو کیا کئی ملک بن جانے تھے۔
ابھی بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی بغیر پڑھے کتاب کی جناح کے متعلق سطروں پر پہلے پہل چائے کی پیالیوں میں اٹھا طوفان بحر ہند سے ہوتا ہوا جب بحیرہ عرب پہنچا تو وہ جناح سے جناح پور بن چکا تھا۔
جناح جی کی کتنی بھی جے گائي جائے، دو جمع دو پانچ ہو سکتے ہیں گاندھی جناح نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ ہی جناح گاندھی ہو سکتے ہیں۔ دونوں میں صرف دن رات کا ہی فرق نہیں پر گاندھی کی مارکیٹ اب بھی سلم ڈاگ ملینئیر سے بہت بڑی ہے، جبکہ مرتے وقت جناح کی جیب میں سب سکے کھوٹے تھے۔ باسٹھ برس ہوگئے اور وہ کھوٹے سکے کب کے کھرے ہوگئے۔
بھائي لوگوں کا بس چلے تو اسے جنرل مولانا کامریڈ قائداعظم بھٹو زرداری بنا دیں۔ یعنی کہ جو درگت، بقول میرے دوست پاکستان نے اپنے بنانے والے کی بنائي اس سے مکتی اسے جسونت سنگھ نے آکر دی ہے۔
لیکن ہندوستان کی طالبان ورزن بی جے پی نے ہندوستان میں ایسے کتاب لکھنے پر اپنی پارٹی کے جسونت سنگھ سے وہی سلوک کیا جو انیس سو پچاس کے عشرے میں پاکستان اور اسکے میڈیا نے 'آگ کا دریا' جیسا ناول لکھنے پر قرۃ العین حیدر سے کیا تھا۔
اب بھی جھوٹ کے کھڑے گندے پانیوں میں آمریت کی باقیات اقبالی بیانات کی ڈبکیاں لگاتے ہیں اور ان پر سات خون معاف ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی چینل طوفان نوح کی کشتی بنے ہوئے ہیں۔ بنگال میں لاکھوں لوگوں کی نسل کشی، بلوچوں کے تاحال قتل عام، سندھیوں اور پختونوں پر آپریشن کا چرچا ہی نہیں ہوا۔۔۔ اس وقت یہ سورما نما اینکر کہاں تھے جب کراچي میں ڈبل سواری پر نوجوانوں کو موٹر سائیکلوں کے گرم سائلسنر چومنے کو کہا جاتا تھا اور ایس ایچ او اپنے علاقے میں بیس بال کیپ اور کاٹن کا جوڑا نہ پہننے کے اعلانات لاؤڈ سپیکروں پر کرواتے پھرتے تھے۔۔۔ جو کچھ کراچي سمیت سندھ میں ہوا اس سے جناح پور کے نقشے سچے تھے یا جھوٹے اس سے کیا فرق پڑتا ہے!
تبصرےتبصرہ کریں
بس يا کچھ اور کہنا باقی ہے؟ ميرے دوست کيا آپ مہربانی فرما کر تصوير کا دوسرا رخ بھی ديکھانا پسند کريں گے؟ نہ معلوم آپ توازن کا دامن کيوں چھوڑ چکے ہيں ۔۔۔
درست کہا ہے آپ نے يہی تو ميں اتنے دنوں سے کہہ رہی ہوں پر ميری سنتا ہی کون ہے۔ ميں صحافی نہيں ہوں ناں اس ليے۔ اب بھلا کون جواب دے گا ان ساری باتوں کا۔ سائيکو صاحب ہر وقت جناح پور جناح پور کرتے رہتے تھے اب بتائيں ناں ذرا کہاں سے برآمد ہوئے تھے وہ نقشے؟ اور کاٹن کا جوڑا کراچی ميں منع تھا يہ تو ميرے ليے نئی خبر ہے وجہ بھی ساتھ بتا دی ہوتی تو تجسس ختم ہو جاتا۔
حسن صاحب يہ تمام مسائل صرف اور صرف دين سے دوری کا نتيجہ ہیں۔ ہميں مکمل خصوع وخشوع کے ساتھ دين کے نفاذ کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام مسالک اور فرقوں کے مولويوں کو اپنے اپنے فرقے کے پرچار کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ايسا کرنے سے دنيا وآخرت دونوں ميں ہمارے چودہ طبق روشن ہو سکتے ہیں۔
جسونت سنگھ نے تو کھير پکائی مگر اپ نے افطاری کے لیے کھچڑی۔۔۔ ہاں ساری دنيا اچھی مگر نہيں ’چنگا‘ تو پاکستان! سندھی، بلوچی، پختون سرداری ميں پھنسے تو پھر پاکستان بہت چنگا لگےگا۔۔۔
یہ ایک تلخ سچائی ہے جسے کوئی مان نہیں رہا کیونکہ مظلوموں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حسن مجتبی صاحب میں آپ کو ایسا جرآت مندانہ بلاگ لکھنے پر سلام کرتا ہوں۔۔۔
حسن صاحب بلاگ اچھا لکھا ہے مگر اردو قدرے مشکل ہے۔ لگتا ہے آپ اردو ميں اچھے نمبر ليتے رہے ہيں اور کسی بابائے اردو سے ٹيوشن بھی پڑھی ہے۔ ميرے خيال ميں جناح اور گاندھی ميں ايک بات تو مشترک تھی کہ وہ دونوں سيکولر ذہن تھے اور انسان کو انسانی نظر سے ديکھتے تھے ليکن جناح پور کے خالق گو کہ وہ اس کی نفی کرتے ہيں وہ انسان کو لسانی نظر سے ديکھتے ہيں، اور تو اور وہ پکی پکائی کھانا چاہتے ہيں۔۔۔ شاید ان کو معلوم نہيں کہ يہ ملک کتنی قربانيوں کے بعد بنا۔ قائد اعظم تو سوچ بھی نہيں سکتے ہوں گے کہ ان کی محنت پر کوئی پانی پھيرے مگر يہ کتنی احمقانہ بات ہے کہ نام بھی جناح پور منتخب کيا۔ اس منطق کی مجھے تو سمجھ نہ آئی۔ ايسی بات پہ گھمسان کا رن تو پڑنے ہی والا ہے۔۔۔
شکر ہے حسن مجتبی نے بھی کچھ معقوليات کا دم بھرنا شروع کيا، ورنہ آج سے پہلے تک تو يہ بغض معاويہ ميں جھوٹ سچ کی تمام حديں پھلانگتے ہوئے 1945 کی انتخابی دھاندلی بھی جنرل مولانا کامریڈ قائداعظم بھٹو زرداری کے کھاتے شريف میں ڈال دی تھی۔۔۔
مجتبی صاحب جناح پور کے نقشے والی بات بے جانے ہی اس بلاگ پر بے ساختہ تبصرہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ جسونت سنگھ نے جو کچھ بھی لکھا اس کے پس پردہ جو بھی ہو ليکن انہوں نے اپنی بھنا ہی لی ہے۔ ويسے آپ نے سچ ہی کہا ہے يہ طوفان پيالی ہی کا کہلائے گا۔ يہ بات بھی بڑی عبرت انگيز ہے کہ پاکستانيوں نے اپنے بنانے والے کی قدر نہيں کی۔ ہم بھی بچپن سے يہ سنتے آرہے ہيں کہ آخر وقت ميں قائد آعظم کو دوا بھی ميسر نہيں تھی اور تو اور تقسيم کے موقع پر ہونے والے قتل عام کا بھی قائد نے بہت اثر ليا تھا اور اس اثر کے باعث وہ راتوں ميں اٹھ اٹھ کر روتے تھے۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔۔۔
’ستاروں پہ تم ڈالتے ہو کمندیں
میرے گھر میں پینے کا پانی نہیں ہے‘
جے ہو ہماری میڈیا کی جب آٹے اور چینی کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں، میڈیا گڑے مردے اکھاڑنے میں لگا ہوا ہے۔
گاندھي جی کي شخصيت جناح جی سے مطابقت يا مقابلہ نہيں رکھتي۔ شخصيتي قدر، احترام کا اندازہ لگانا ہو تو اس شخصيت کے دور میں موجود بڑي شخصيات کا اس شخصيت کے بارے ميں خيال اور رائے بہت اہم ہيں۔ جناح کےگن جس قدر ان کے سياسي حريفوں نے گائے، جتنا احترام انہيں عالمي شخصيات نے ان کے اصولوں اور قابليت پر ديا ان کے اپنے وطن کے ليڑروں نے نہيں ديا۔ پاکستان کے رکھوالوں نے جناح کے ساتھ بھی وہی سلوک کيا جو انہوں نے آج تک پاکستان کے ساتھ کيا۔ ہٹ دھرمي، انا، جھوٹ، خاندانی سياست، ميرا باپ بڑا تيرا نہيں ميرا۔۔۔ جن کی سياست گھر سے شروع ہو وہی ختم۔ ان کے ليے جناح کون؟
ايک اچھا بلاگ لکھنے کا شکريہ! محترم جسونت سنگھ کی کتاب فقط ان کے تاثرات کی ترجمان ہے جب کہ جناح پور ايک ايسا انقلابی اعلانيہ تھا جس نے مسلمانوں کو برصغير ميں ممتاز بنايا۔ جناح کی سوچ بحيثيت خود ايک تبديلی کا باب تھي جب کہ آپ نے جن بدمزگيوں کی نشاندہی کی ہے اس کے ذمہ دار صرف ہم ہیں۔۔۔ ماضی کا ہر عکس سياستدانوں کی بد عنوانی کا عکس پيش کرتا ہے جن سے اگر ان کے اعمال کی پوچھ گچھ کی جائے تو ان پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ بقول شاعر:
’کسی کو اپنے عمل کا حساب کيا ديتے
سوال سارے غلط تھے، جواب کيا ديتے‘
چلو کسي بھي بہانے نام تو ليا جا رہا ہے جناح کا۔ ابھی پوری خوشی منائی نہ تھی جسونت سنگھ کی جناح کنفرميشن پر کہ ون مين شو الطاف حسين کود پڑے انيس، بيس سال پہلے کے سوال جواب ليکر۔۔۔ نيوز چينلز کے مزے ہوگئے، ايک لڑائی نما تقرير نے ان سب کو سٹوری ديدی بيٹھے بيٹھے ادھر تو ويسے ہی سستي وکاہلي عام ہے پر رمضان ميں خاص ہو جاتي ہے۔۔۔ سر جھاڑ، منہ پھاڑ، جناح پور پر بحث برائے بحث۔۔۔
پنجا ب کے عوام کو ايم کيو ايم کا غلط تاثر ريا گيا۔۔ ميرے خيال سے يہ ايک سوچی سمجھی ساذش تھی۔۔۔ِ
جناب حسن مجتبیٰ صاحب! میرے خیال میں آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے یا حالات کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں تو پتا ہوگا کہ جو واقعات آپ نے اوپر بیان کیے ہیں اس وقت میڈیا کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا تو وہ کیسے خبر دیتے؟ میڈیا نے وکلا تحریک اور آمر کی رخصتی میں جو کردار ادا کیا ہے اس نے سارے زخموں کا مداوا کر دیا ہے مگر شاید آپ کا دل ابھی صاف نہیں ہوا۔ آپ کو یہ بھی بتا دوں کے پختونوں کے خلاف کبھی آپریشن نہیں ہوا بلکہ وہاں کے عوام کی مرضی سے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہوا ہے
باسٹھ برس گزر گئے انہی تجزيوں اور مباحثوں ميں۔ اصلاح کا وقت آتا نظر نہيں آتا۔ نعمت کی ايک حد ہوتی ہے۔ اس کے بعد افسوس کے سوا کچھ نہيں رہ جاتا ہے۔