دوسرے کی مان لو۔۔۔
حکومت پاکستان نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بار بار احتجاج کی بےاثری کو دیکھتے ہوئے اب اس بابت ان سے بظاہر تعاون شروع کر دیا ہے۔
ملکی خودمختاری کے احترام کا جملہ آخری مرتبہ کس وزیر کے منہ سے سنا گیا کسی کو یاد ہے؟
اپنے تحقیقاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، ماضی کی ایک حکومت نے سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کی پہلے سکاٹ لینڈ یارڈ اور اب موجودہ حکومت نے اقوام متحدہ کے ماہرین کی مدد سے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ عوامی پیسے کے زیاں کے علاوہ ان اقدامات سے کیا حاصل ہوا؟ نہ تو قاتل ملا اور نہ شاید آگے چل کر کبھی سامنے آ پائے۔
مالاکنڈ میں شدت پسندوں کے خلاف تین ماہ کی قدرے کامیاب کارروائی کے بعد اب حکومت نجی لشکروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ بچا کھچہ کام اب ان لشکروں کی ذمہ داری ٹھہری۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 'چینی مافیا' کو سدھارنے کی بجائے خود ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے ہاں میٹھی ڈشوں کی تیاری پر پابندی عائد کر دی۔ خود لاکھوں ایکڑ اراضی زیر کاشت لانے میں ناکامی کے بعد اسے امیر خلیج ممالک کو لیز کی جا رہا ہے۔
سرحد کی حکومت نے مسجد قاسم علی خان کے علماء کی طرف سے غیرسرکاری رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد نہ کرنے پر ناکامی کے بعد خود ہتھیار ڈالتے ہوئے عید الفطر انہیں کے حکم کی تابعداری میں منانے کا اعلان کر دیا۔
یہ ہے آج کل کا انداز حکمرانی۔ جہاں اپنی نہ چلے وہاں بہتری اسی میں ہے کہ دوسرے کی مان لو۔
تبصرےتبصرہ کریں
دوسرے کی تب مان لينی چاہيے جب وہ درست ہو ليکن ہمارے ملک ميں جو انداز حکمرانی ہے وہ حکمرانی نہيں غلامی ہے دراصل۔۔۔ نہ کچھ اچھا کر سکتے ہيں نہ ہی بہتری کی اميد ايسے حکمرانوں سے جو چينی چور ہوتے ہوئے عوام کو شوگر سے بچاؤ کے طريقے بتا رہے ہيں۔۔۔ جبکہ خود ہيں پيدائشی امير اسکے باوجود حرص کی تمام اول وآخر حديں پھلانگنے کے باوجود ڈرامے کرنے ميں لگے ہوئے ہيں، کيونکہ عوام بھی ڈرامے شوق و دلچسپی سے ديکھتی ہے۔۔۔
‘انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت
کوئی نہیں ہے بےوفا افسوس مت کرو
یہ دیکھو، پھر سے آ گئیں پھولوں پہ تتلیاں
ایک روز، وہ بھی آئے گا افسوس مت کرو۔
محترم ہارون رشید صاحب، آداب عرض! ہے کہ ڈراونز حملوں، بنجر زمیں خلیجی ممالک کو دینے اور مالاکنڈ میں نجی لشکروں کی تشکیل و سرپرستی کو پاکستان کے زمینی، سیاسی، ملکی اور بین الاقوامی حالات کے پیش نظر دیکھا جائے۔ ڈراونز حملوں پر آخر پاکستان کر ہی کیا سکتا ہے سوائے بیانات جاری کرنے کے، زبانی کلامی احتجاج کرنے کے؟ جب دنیا کے سرمایہ دار، نام نہاد ‘وار آن ٹیرر‘ کے بل بوتے پر تیسری دنیا کو اپنی ‘نوآبادی و منڈی‘ بنانے کے لیے‘اکٹھ‘ کر چکے ہوں تو ان کے سامنے اکیلا پاکستان کیا کر سکتا ہے سوائے بڑھکیں مارنے کے؟ جو لوگ ڈراونز حملوں پر پاکستان کو ‘خودمختاری سے عاری‘ کا طعنہ دیتے ہیں وہ دراصل دیدہ یا نادیدہ طور پر ‘استعمار‘ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ایسا کرکے وہ پاکستان کو دانستہ طور پر ‘غصہ‘ دلوانا چاہتے ہیں تاکہ ڈراونز حملوں کا جواب ڈراونز حملوں ہی میں دیا جائے جس کے نتیجہ میں سارا پاکستان ہی ‘قبائلی علاقہ‘ قرار دینے میں آسانی ہو اور ‘اتحادی‘ ملک میں در کرنے میں ‘حق بجانب‘ ہوجائیں۔ مالاکنڈ میں نجی لشکروں کی تشکیل و سرپرستی ایک سیاسی عمل ہے حربی نہیں اور جس کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ ‘افغانستان‘ کو دکھایا جائے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ ‘طالبانزیشن‘ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ بات ملک کی زمین کو ‘دہشتگردی‘ کے لیے استعمال نہ ہونے دینا کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ اب رہ گئی بات خلیجی ممالک کو بنجر زمین پٹے پر دینے کی تو اس بابت خاکسار کچھ ‘تحفظات‘ ضرور رکھتا ہے اور ان تحفظات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خلیج پر امریکہ کا کنٹرول ہے اور سعودی عرب، امریکہ کا سب سے بڑا ‘اتحادی‘ ہے جیسا کہ اس کے کویت عراق جنگ میں امریکہ کو ہوائی اڈے دینے سے عیاں ہے۔
بہت اچھا بلاگ ہے لیکن یہ تمام باتیں جمہوری حکومت میں ہی کیوں دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
بہت خوب ہارون رشيد صاحب
اسی انداز حکمرانی نے تو جناب صدر صاحب کو ابھی تک صدر بنا رکھا ہے ورنہ خدا جانے ان کا کيا حشر ہوتا
يہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ہم آپ کے لیے ہوسکتا ہے حشر سامانی ہو
مگر حشر سامانی کی تعريفيں بھی تو الگ الگ دلربا کی حشر سامانی تو شاءيد آپ نے ديکھی ہی ہونگيں اب حکومت ديکھ رہی ہے انداز اپنا اپنا صاحب
پاکستان کی حکومت پیر سید یوسف رضا گیلانی رحمۃ اللہ علیہِ کے فرمانِ عالی شان کے عین مطابق چل رہی ہے، جو یہ ہے ۔۔۔"ہمیں صرف وہی کرنا چاہئے جو ہم کر سکتے ہیں"۔۔۔
ہر جگہ اور ہميشہ کچھ باتيں مانی اور کچھ منوائی جاتی ہيں ليکن اگر آپ کے ساتھ ايسا ہو جائے کہ آپ کی بات تو نہ مانی جائے بلکہ من مانی ہی کی جائے تو سمجھ ليجيئے کہ دوسروں کو آپ پر اعتماد نہيں-اعتماد بنانےاور گنوانے ميں فاصلہ کافی زيادہ ہے-کردار سے باتيں مانيں اور منوائی جاتی ہيں-اگر آپ کے کردار پر داغ لگتا ہے تو سمجھ ليجئے کہ ہر بات آپ کو ہی ماننی پڑے گي-
ہارون بھائی يہ بات تو بڑی عام سی ہے مگر اس کا بيک گراؤنڈ بڑا سيريس ہے- جب آپکا اندر يا باطن کھوکھلہ ہو چکا ہوتو ايسا ہی ہوتاہے بظاہر شير بھی بزدل ہو جاتا ہے- ہوا اکھڑ جاتی ہے کوئی دس قدم بعد ہينڈز اپ کرتا ہے کوئی چار اور کوئي دو قدم بعدہی يوٹرن لے ليتا ہے اور بعض تو صرف ايک فون کال پر ہی ڈھير ہو جاتے ہيں- يہ سب دراصل ہوس اقتدار ہوس دنيا ہوس مال اور ہوس گناہ کی وجہ سے باطن کو سياہ کرکے اپنے آپکو پستی کی طرف لانا ہوتا ہے ورنہ تو جتنے مصائب ومظالم کے پہاڑ ہمارے ہمسائے ميں امام خمينی پر توڑے گئے ہم ہوتے تو کب کے خس و خاشاک کی طرح بہہ چکے ہوتے اسکے بچے مار دئے گئے-اسکے عالم فلاسفر پروفيسر اور انتہائي تعليم يافتہ ساتھی ايک بڑی تعداد ميں مار دئے گئے ملک بدر کيا گيا پھر جنگيں مسلط ہوئيں معاشی بائکاٹ ہوئے پورے ملک کا گھيراؤ کيا گياپرويگنڈے کے طوفان کھڑے کيے گئےکبھی ظالم دہش گردوں کی صف ميں ڈالنے کی کوشش کی تو کبھی کفر کے فتوے دلوائے گئے کبھی اس کے نظام کو غير جمہوری قرار ديا تو کبھي(مادر پدر) آذادی کا مخالف قرار ديا گيا مگر مجال ہے جو کوئی نام نہاد طاقت اسکے پاؤوں ميں ذرہ سی لغزش پيدا کر سکی ہو يہ کيا تھا فقط اسکی دنيا سے دوري- اقتدار و اناپرستی و ذرپرستی کے چنگل سے آزادي- - بس يہ آزادی ہی انسان کو کمال کی طرف لےجاتی اور باطن کو روشن کرتی ہے - جب ہمارے ملک ميں لوگ کہتے ہيں کاش ہميں بھی کوئی خمينی مل جائے -تو اس کا مطلب يہی ہوتا ہے کہ کاش کوئی حقيقی آزاد انسان ہميں بھی مل جائے جس دن يہ ہو گيا پھر کوئی ہميں ڈرا دھمکا کر ہمارے اوپر سوار نہيں ہو سکے گا ورنہ دوسری صورت ميں تو وہی کچھ ہو گا جو ہم کر رہے ہيں اور واقعا اسی کے مستحق بھی ہيں
بڑے جو بھی فيصلے کرتے ہيں انہيں عملی جامہ پہچانے کے ليۓ چھوٹوں يعنی عوام کی حمايت ضروری ہوتی ہےـاس ليۓ خطرے سے بچنے کے ليۓ وہ پہلے ہں يا نہ سے کام ليتے ہيں يا ٹيڑے طيقے سے بيان ديتے ہيں بالکل اسطرح جس طرح ٹيسٹر سے کرنٹ چيک کيا جاتا ہے اگر عوامی ردعمل مثبت ہو تو مان جاتے ہيں ورنہ دوسروں پہ الزام ڈال ديتے ہيںـورنہ سب کو پتہ ہے پاکستان ميں کيا ہو رہا ہے کون کسی کو مارتا ہے کون قيمتيں بھڑاتا ہے يا کيسا اسلام ہونا چاہيۓ اگر علم نہيں تو بيچارے معصوم لوگوں کو نہيں کيونکہ وہ اصل حقيقت جاننے کی کوشش بھی نہيں کرتےـ
بحثیت قوم ہم اسے کے مستحق ہیں
بھٹو صاحب کے معتمد اور سابق اسپيکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علي خان اپنی کتاب ” جمہوريت صبر طلب - - - ” ميں رقمطراز ہيں کہ ان کے دور ميں دوست اسلامی ممالک حساس خارجہ امور ميں بھٹو صاحب سے مشاورت کيا کرتے تھے - بھٹو صاحب کے بعد تنزل ہوتے ہوتے نوبت يہ آگئی کہ حکومت پاکستان کو اسلام آباد ميں سعودی سفارت خانے سے رجوع کرنے کو کہا جانے لگا - مذہب کي آڑ ميں مقتدر طبقات سے عوام الناس تک معاشرے کے رگ و پے ميں سما جانے کے بعد آج سعودی رسوخ کا يہ عالم ہو چکا ہے کہ مستقبل قريب کے پاکستان ميں سياست کا ريموٹ کنٹرول سعودی عرب اور دفاع کا امريکہ ميں نظر آ رہا ہے -