| بلاگز | اگلا بلاگ >>

'فسانۂ جنگِ یورپ'

اصناف:

اسد علی | 2009-09-26 ،16:04

subamrine_226.jpg
لندن کی برٹش لائبریری کے کروڑوں مسودوں میں ایک بوسیدہ سی جلد بھی محفوظ ہے جس میں ہندوستان میں پہلی جنگ عظیم کے دوران شائع ہونے والے اردو زبان کے چند کتابچے موجود ہیں۔

ان میں ایک کتابچہ 'فسانۂ جنگ یورپ' بِشن سہائے آزاد اور پیارے موہن کی تصنیف ہے اور 'حقیقتِ جنگ' واعظ لال جوئیل کی۔ ان کتابچوں میں ہندوستان کے ایک طبقے کے نمائندگی کی گئی ہے جو یورپ کی کامیابیوں سے متاثر تھے لیکن صنعتی انقلاب کے بعد پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی تباہی نے انہیں شدید مایوسی کا شکار کر دیا۔

بیسویں صدی کے آغاز پر جنگ کے دنوں میں واعظ لال جوئیل لکھتے ہیں کہ ہمیں فخر تھا کہ اخلاقیات اس معیار پر پہنچ گئی ہے کہ اب دنیا میں خونریزی ممکن نہیں اور آئندہ جدید سوچ اور فلسفہ قوموں کے درمیان ایسا تعلق قائم کرے گا کہ قیمتی انسانی خون دوبارہ کبھی نہیں بہایا جائے گا۔

جوئیل لکھتے ہیں کہ کسے معلوم تھا کہ اسی یورپ میں جو قوموں کا رہنما تھا ایسا طبل جنگ بجے گا کہ سننے والے کانپ اٹھیں گے اور یہ ہر کسی کو دہشت زدہ کر دے گا۔

'فسانۂ جنگ یورپ' کے مصنفین نے کہا کہ یورپ کی مثال اس مور کی سی ہے جو اپنے حسن کے نشے میں ناچ رہا ہے لیکن جیسے ہی اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی ہے اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ جتنی بھی ترقی کر لے جب تک سورج طلوع و غروب ہو رہا ہے یہ جنگ اس کی تاریخ میں ایک بد نما داغ ہے۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جنگ کیا تباہی لاتی ہے یہ لعنت ختم نہیں ہو سکی۔ پھر خود ہی کہا کہ اس کا سیدھا سا جواب ہے۔ 'دنیا کی تمام بڑی قومیں مہذب تو ہو رہی ہیں لیکن درندگی ختم کرنے میں وقت لگتا ہے۔

'انسانوں کو مکمل طور پر مہذب ہونے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔' انہوں نے کہا کہ انسانوں کو یہ باور کروانے کے لیے اور بھی زیادہ وقت چاہیے کہ ان کے خیالات اور احساسات کے بدلنے کے ساتھ ان کے اعمال میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔

مصنفین کے یورپ اور مغرب کے خلاف مقدمے کی بنیاد جرمنی کے ساتھ اختلافات پر امن طریقے سے حل کرنے کی ناکامی تھی۔

المختصرا ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں جب بھی جنگ ہوئی ہے فریقین نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا، اتنا ہی حق پر جتنا یورپ میں ممالک جرمنی کے خلاف جنگ کرنے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے تھے۔ تہذیب کی چھلانگ یہ ہوتی کہ معاملات بغیر جنگ کے حل ہو جاتے۔

ان مصنفین کو اپنی باتیں کہے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ اب اکیسویں صدی کا آغاز ہے۔ لیکن جنگی حکمت عملی بین الاقوامی تعلقات کا ابھی بھی اہم جزو ہے، بلکہ اب اس میں مشرق بھی برابر کا شریک ہے۔ بڑی طاقتیں معاملات کے حل کے لیے ہیبت(shock and awe) کا سہارا لیتی ہیں۔

دنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ جاری ہے۔ ایسے میں جوہری اسلحہ کا پھیلاؤ روکنے اور تخفیف اسلحہ کے لیے قراردادیں مہذب سوچ کا ثبوت ہیں اور ان کے بعد اب امید کرنی چاہیے کہ انسان 'درندگی' سے بھی جلد نجات پا لے گا۔ یہ سمجھنے میں کتنی دیر اور لگ سکتی ہے کہ مہذب نظریات مہذب عمل کے بغیر بے معنی ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 18:16 2009-09-26 ,Waseem :

    ضمانت امن عالم کی نہتے لوگ ہوتے ہيں
    جہاں فوجيں نہيں ہوتيں وہاں جنگيں نہيں ہوتيں

    آج جنا ب اوبامہ بھی امريکہ کی اس اخلاقی برتری کی بحالی کا عزم رکھتے ہيں جس کا کبھی وجود ہی نہيں تھا-


    بہر حال يہ عالمی جنگيں اس لحاظ سے بہتر تھيں کہ اگر يہ نہ ہوتيں تو آج بھی دنيا نام نہاد عالمی طاقتوں کی چراگاہ ہوتی

  • 2. 18:55 2009-09-26 ,اے رضا :

    چچا غالب ايسے ہي تو نہيں کہہ گۓ :
    بس کہ مشکل ہے ہر کام کا آساں ہونا
    آدمی کو بھی ميسر نہيں انساں ہونا

  • 3. 19:05 2009-09-26 ,خاور کھوکھر :

    اچھا لکھا هے ،جنگیں نہیں هونی چاہیے لیکن کرنی بڑتی هیں ، هوجاتی هیں
    لاتوں کے بھوت کیسو مانتے هیں ؟ بگڑے لوگوں کا ڈنڈا پیر هوتا هے
    لیکن جی اسلحے کے ڈھیر پر کھزے هو کر میرا بھی جی چاھتا ہے که امن کے للکارے ماروں

  • 4. 20:27 2009-09-26 ,علی گل سڈنی :

    اگر ديکھا جائے تو جنگ ہر جگہ ہورہی ہےـدنيا ميں براعظموں ميں ملکوں کے اندر صوبوں کے اندر شہروں کے اندر گھروں کے اندر حتی کہ قريبی رشتے سب اس لڑائی ميں ملوث ہيں اور وجہ صرف دولت اور ذاتی انا ہوتی ہے جبکہ مذہب،سياست يا ديگر نظريات کو ہتھيار کے طور پر استعمال کيا جاتا ہے آخر ساۂنس کی روح سے ہيں تو سارے ہی جانور يعنی سوشل اينيمل ـاس برائی کو ختم تو نہيں کيا جاسکتا ليکن کم از کم اپنے ملک کے حالات ترقی يافتہ ملکوں کی طرح بہتر بنائے جا سکتے ہيں جس کے ليۓ فرقہ پرستی ،سياسی کھنچاؤ کا ختمہ اور ايک دوسرے کی عزت کرنا ضروری ہےـ

  • 5. 21:36 2009-09-26 ,انور حسين :

    يوروپ کے مذہب ہونے کا اٌج تک تو کوئی ثبوت تاريخ ميں درج نہيں ہے- يورپ کی جنگ سے پہلے ہندوستان ` افريقہ اور اس سے بھی بہت پہلے امريکہ ميں ريڈ انڈين جس درندگی کا شکار ہوئے اس کا اکيلا ذمہ دار يوروپ ہی ہے- موجودہ عشروں ميں يہی درندگی فلسطين` عراق اور افغانستان کا مقدٌر بنی ہوئی ہيں-

  • 6. 3:08 2009-09-27 ,محمداخلاق مرزا :

    امریکہ پہلے خود جوہری اسلحے سے دستبردار ہو پھر اسکے پھیلاؤ کو روکنے کی بات کرے تو مناسب لگے گا۔ ہزاروں ایٹم بم کے مالک امریکہ کیطرف سے جوہری اسلحہ کا پھیلاؤ روکنے اور تخفیف اسلحہ کی بات کچھ بےمعنی سی لگتی ہے ۔جس کا مقصد صرف عام ممالک کو دفاعی اسلحے سے بھی دور رکھنا ہے تاکہ امریکہ کیطرف سے دنیا میں تباہی پھیلانے پر بھی کوئی للکارنے والا پیدا نہ ہو ۔ طاقت کے نشے نے ہمیشہ انسان کو فرعون بنایا ہے ۔ اور قدرت کا قانون ہے کہ ہر فرعون کیلئے ایک موسی' ضرور پیدا ہوتا ہے ۔۔۔

  • 7. 6:17 2009-09-27 ,طيب عباس :

    جنگی رويوں ميں انساں مہذب تو نہيں البتہٰ سمجھ دار ضرور ہو گيا ہے ۔ اب نام نہاد ترقی يافتہ ممالک نے باہمی مفادات کے تحفظ کے ليے جتھے بنا ليے ہيں اور گروہ کی شکل ميں شکار کو ترجيح دی جا رہی ہے ۔ اپنے علاقوں کو ميدان جنگ بنانے کی بجائے يہ جنگيں دوسرے ملکوں ميں لڑنا سمجھ داری ہی تو ہے۔

  • 8. 7:02 2009-09-27 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ‘نئی اور پرانی تہذیب میں بس اتنا فرق ہے
    اسے کشتی نہیں ملتی اسے کنارا نہیں ملتا‘

  • 9. 11:38 2009-09-27 ,sana khan :

    مرکزی خيال اس بلاگ کايہ ہے کہ انسان ترقی يافتہ ہونے کے باوجود مہذب نہيں بن سکتا کيونکہ ہر انسان کے اندر کم ازکم ايک حيوان 24\7 موجود رہتا ہے،افغانستان،عراق جنگ کے بعد مغرب کتنا مہزب ہے اور مشرق اسکے جواب ميں کتنا يہ سب جانتے ہيں،ذاتی مفاد ايسی چيز ہےجو ہميں مہزب ہونے سے دور کرتي ہے اور مغرب اجتماعي مفاد کی خاطر مہزب بنتے بنتے رہ جاتا ہے

  • 10. 14:25 2009-09-27 ,faizan siddiqui :

    جناب يورپی تاريخ کے حوالے سے آپ کی تحرير بے حد پسند آئی خاص کر اس لۓ کہ ميں خود بھي يورپی تاريخ کا طالب علم رہا ہوں- جناب اعلی يورپی تاريخ کے اب تک کے مطالعے کے بعد ميں اس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ يہ قوم کبھی بھی مہذب نہيں رہی کيونکہ مہزب قوميں ہر ايک کے لۓ نيک سوچ ہی رکھتی ہيں جبکہ يورپی معاشرہ شروع دن سے ہی خود غرضی کا شکار ہے- قدرت کا ايک اور اصول بھی ہے جناب کہ ’جيسی کرنی ويسی بھرني‘ چناچہ اس وقت کہ جب يورپ ميں ترقي (سوائے اخلاقی ترقی کے )عروج پر تھی ايسی خونريزی مچی کہ واقعی يہ يورپ پر اب تک سياہ داغ کی طرح ہے - ميں موجودہ دور کووہ درميانی عرصہ سمجہتہ ہوں کہ جس ميں فريقين جنگی تيارياں کرتے ہيں

  • 11. 23:02 2009-09-27 ,شاہدہ اکرم :


    آپ کے بلاگ کا جواب آپ کی اپنی ہی لِکھی ہُوئی ايک لائِن ميں ہے
    ‘انسانوں کو مکمل طور پر مہذب ہونے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔’
    ايسے ميں مُجھے برِٹِش ميوزيم ميں ديکھا ہُوا ٹيپو سُلطان کا لِباس ياد آگيا جو مُجھے مامُوں نے باقی چيزوں کو ديکھتے ہُوئے يہ کہہ کر دِکھايا تھا کہ بيٹا ديکھو يہ ہے ہمارا وُہ شاندار ماضی جِسے يہ بھی شاندار سمجھ کر محفُوظ کِۓ بيٹھے ہيں
    اور ہم يہی سوچ کر خُوش ہو جاتے ہيں کہ
    کبھی ہم خُوبصُورت تھے
    جبکہ اصل بات يہ ہے کہ جنگ جيسی لعنتی چيز شايد دُنيا ميں اور کوئی نہيں پِھر بھی نا جانے „ھل مِن مزيد „کے چکر ميں طاقتور اور ترقی يافتہ قوميں اپنا آپ کيُوں بُھلا کر اور رقبے اور نئ دُنيائيں دريافت کرنے کو نِکل کھڑے ہونے کو بے تاب رہتے ہيں جبکہ جانتے ہيں کہ اِس سب کا حاصِل حصُول کُچھ نہيں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔