'جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے'
پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر و مشیر یہ مبارکیں دیتے پھرتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں ملک میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں (اب پتہ نہیں کہ ایم کیو ایم حقیقی کے کئی رہنما و کارکن اور سینکڑوں گمشدہ بلوچ اور سندھی قوم پرست حکومت وقت کے ضمیر کے مطابق سیاسی قیدی کیوں نہیں)۔
آپ اس 'جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے' کا نعرہ لگانے والی حکومت پر ملکی سطح پر سیاسی قیدی رکھنا شاید آسانی سے ثابت نہیں کرسکتے۔ سب سے روشن ثبوت جمہوریت یا اس سے بڑا کیا ہے کہ صدر مملکت اپنے پیشرو آمروں اور نیم آمروں کے ترکے اٹھاون ٹو بی اور سترہویں ترمیم جیسی دفعات و اختیارات پر سانپ بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس عوامی جمہوریت کا کارنامہ یہ ہے کہ سیاسی انتقام کو بھی انہوں نے ڈی سینٹرلائزڈ اور بڑے فنکارانہ طریقے سے 'لوکل' کر دیا ہے۔ یعنی کہ اب سیاسی مخالفین سے ضلع، تحصیل اور تھانے لیول پر نمٹا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت لوکل چل رہی ہے۔
حکومتی پارٹی اور اس کے اتحادی اب مخالفین کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں نمٹ رہے ہیں۔ یہ سارا کام ایس پی اور تھانیدار کی سطح کے 'کمداروں' سے لیا جا رہا ہے۔ (بھٹو دور کا گسٹاپو ٹائپ ایس پی لاڑکانہ محمد پنیل اور سیکرٹری داخلہ محمد خان جونیجو کو ان کے سیاسی مخالفین آج تک نہیں بھولے)۔
جس حکومت نے 'جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے' کا آغاز سندھ کے سابق وزیر اعلٰی اور اپنے حزب مخالف کے دنوں میں سب سے بدتر انتقام پسند ارباب غلام رحیم کو جوتے لگوانے سے کیا تھا وہاں اس کی تازہ واردات سندھ کے بدین ضلع سے مشرف دور کے سابق وزیر سید پپو شاہ کو کئی گھنٹے بدین پولیس کے ہاتھوں گم کروانا ہے کیونکہ پپو شاہ اپنے علاقے میں تاحال سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا سیاسی مخالف ہے جہاں وزیر موصوف کی دو شوگر ملیں بھی ہیں۔ بدین کا مقامی صحافی مہر دین مری 'جمہوریت بہترین انتقام ہے' کی ایک اور مثال ہے۔
اسی طرح نوابشاہ جس کا نام اس کے اکثریتی عوام کی رائے کے خلاف 'بینظیر آباد' رکھ دیا گیا ہے میں سندھ حکومت کے ایک مشیر اسماعیل ڈاہری کے بھائی کے قتل میں کئی سیاسی مخالفین کے خلاف چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
لاڑکانہ میں نوڈیرو کے ایوان صدر کے سکیورٹی انچارج پوڑہو زرداری کا خود پی پی پی کے مقامی کارکنوں کی طرف سے 'پوڑہو زرداری کے مظالم سے نجات دلاؤ' کے بینروں سے بھوک ہڑتالوں اور احتجاجوں کی تصاویر میڈیا میں آنے کے بعد لاڑکانہ سے نوابشاہ کے تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ پوڑہو زرداری سندھ میں تین غیر سرکاری وزرائے اعلٰی میں سے ایک ہیں۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو بھی نیا وزیر اعلٰی آتا ہے وہ تین کام کرتا ہے، گاؤں میں نیا بنگلہ بنواتا ہے، نئی شادی کرتا ہے اور اپنے مخالفین کو جیل میں ڈلواتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘جمہوریت اِک طر حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
بہت اچھی طرح آپ جانتے ہو کہ متوازن تنقید کیسے کی جاتی ہے۔
مجتبی، بھئي سياست ميں تو يہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ارے صاحب جمہوريت ومہوريت سب دکھاوے کی باتيں ہيں اب تو صرف انتقام ہی انتقام ہے۔ انتقام سے جمہوريت کو جوڑنا کيا آپ کو مضحکہ خيز نہيں لگتا ؟ ہمارے ہاں بھی يہ باتيں ہوتی ہيں۔ پرانی مثال جيہ لليتا ہے جس نے چيف منسٹر بننے کے ايک ہفتے کے اندر ہی سابق چيف منسٹر اور ٹمل ناڈو ميں حزب مخالف کے رہنماء کروناندھی کو رات کے آخری پہر ان کے بيڈ روم سے اٹھواليا تھا نيم برہنہ حالت ميں اور مزاحمت پر پوليس جوانوں کی جانب سے ان کی نہايت بے رحمی سے پٹائي کروائي تھی، اور کروناندھی کی درد بھری وحشتناک چيخوں کی لائیو کوريج کے لیے ميڈيا والوں کا بھی پہلے سے انتظام کررکھا گيا تھا کتنی مثاليں دوں مگر يہ سب سے اعلی ہے -اور ہندوستان ميں وزير اعلی کی جانب سے انتقام کے جذبے کی منہ بولتی يادگار تصوير بھی ---
حسن صاحب سياسی قيدی وہ قيدی ہوتے ہيں جو جمہوريت کی خاطر آمريت سے نبردآزما ہوتے ہيں۔تو ظاہر ہے کہ اب فوجی حکومت نہيں تو کوئی سياسی قيدی بھی نہ رہا ہوگا۔جہاں تک قوم پرست قيديوں کا تعلق ہے تو اس طرح کی سياست کا دنيا ميں کوئی ملک اجازت نہيں ديتا جس کا ملک کی سالميت پر اثر پڑے۔گو کہ ان کو عدالتوں ميں پيش کرنا چاہيے نہ کہ ايجنسيوں کی قيد ميں ہونا چاہيے ۔باقی قصے جو آپ نے لکھے ہيں وہ سب ديوانی مقدمات ہيں کيونکہ انتقام لينا ہماری قوم کا شغل ہے جب وہ حکومت ميں آئیں گے تو يہی کريں گے۔
محترم حسن مجتبٰی صاحب، اسلام علیکم! اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی تاریخ میں ہر حکومت میں سیاسی مخالفین سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی انداز اپنایا جاتا رہا ہے۔ کوئی سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کرتی ہے، کوئی تشدد کرتی ہے، کوئی نظربندی پر اکتفا کرتی ہے، کوئی نوکریوں سے فارغ کرتی ہے، کوئی جھوٹے مقدمے قائم کرکے جیل میں پھینکتی ہے، کسی سے کوئی معاہدہ کر لیا جاتا ہے، کوئی حکومت مقدمے قائم کرکے ان کو لمبے عرصہ تک زیرِسماعت رکھتی ہے۔ کوئی حکومت شاہی قلعہ، چونا منڈی، دلائی کیمپ جیسے رسوائے زمانہ تفتیشی مراکز قائم کرکے سیاسی مخالفین کو ‘راہ راست‘ پر لانے کی تگ و دود کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اولآ پاکستانی معاشرہ کے لوگ دیسی معاشرہ کے لوگ ہیں جہاں پر ‘مونچھ‘ ہی یہ سب کروانے پر مجبور کرتی ہے۔ ثانیآ، سیاسی مخالفین کو دبانے کے پیچھے انتقام ہوتا ہے اور اگر یہ انتقام نہ لیا جائے تو سیاسی مخالفین خوامخواہ ‘پُھول جاتے ہیں‘۔ ثلاثآ، ایسا کرنا کسی انجانے خوف وخدشہ کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے یعنی ‘حفاظتی اقدامات‘۔ بہرحال، سیاسی مخالفین کو میدانِ سیاست میں ہی نمٹنا ‘جمہوریت‘ ہوتا ہے لہذا حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس کی ساکھ خراب نہ ہو، اور اس لیے بھی کہ کل کو یہی حکومت ‘جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کے مصداق، خود بھی ‘انتقام‘ کا نشانہ بن سکتی ہے۔ شکریہ۔
‘اتنا کھل کھیلنا انساں کو نہیں ہے بہتر
اس قدر جامے سے ہو جائے نہ اپنے باہر‘
مخلص، نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان۔
مبارک ہو ہم سب کو جمہوريت
جيساکہ آاپ نے ذکر کيا ہے کہ جمہوری دورحکومت ميں پاکستان میں جو بھی نیا وزیر اعلٰی آتا ہے وہ تین کام کرتا ہے، گاؤں میں نیا بنگلہ بنواتا ہے، نئی شادی کرتا ہے اور اپنے مخالفین کو جیل میں ڈلواتا ہے ۔ سنا تو ميں نے بھی يہی ہے۔ ليکن اک شادی نہيں کئ شادياں کرتا ہے۔ کيونکہ اختيارات کا استعمال بھی تو ضروری ہے۔
ایک سب سے اہم کام جو ہر وزیر، وزیر اعظم، مشیر، وزیر اعلی ضرور کرتاہے کہ تمام برائیوں اور خرابیوں کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر انہیں ٹھیک کرنے کے لئے مزید پانچ سال مانگ لیتا ہے۔
پیارے مجتبی
میں ایک طویل عرصے سے آپ کے کالم پڑہ رہا ہوں مگر افسسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے ملک کے منفی تصور کو پیش کیا ہے۔ برائے مہربانی کبھی تو اپنے ملک کے مثبت پہلو کو بھی اجاگر کیا کریں۔