| بلاگز | اگلا بلاگ >>

قصور ہمارا ہے یا ٹی وی کا؟

اصناف: ,

ہارون رشید | 2009-10-22 ،15:22

گھر میں بچوں سے کل رات لڑائی ہوگئی۔ یہ شاید آج کل ہر گھر کی کہانی ہے۔ کشیدگی یقیناً ریمورٹ پر ہوئی لیکن اس کی وجہ ان بچوں کا آج کل کا کریز ہے۔

ان پر آج کل بھارتی ٹی وی سیریز 'سی آئی ڈی' کا جنون سوار ہے۔ دن رات کئی کئی گھٹنے یہ پروگرام دکھائے جا رہے ہیں۔ بچے تو جیسے ٹی وی سکرین سے چپک جاتے ہیں۔ پہلے ہفتے میں ایک دن چلتا تھا اب روزانہ بلکہ دن میں اوپر نیچے کئی کئی گھنٹے چلتا ہے۔ کسی طرح مین کردار اے سی پی پرتومن انتہائی سنسنی خیز انداز میں قتل کے واقعات عقل سے حل کرتے ہیں۔ اس طرح کی 'گروسم' تفصیل بھی کہ کس طرح گولی سر میں لگی اور کس طرح زخمی ٹانگ کاٹی گئی۔

جب میں نے نیوز چینل دیکھنے کا اصرار کیا اور جواز یہ دیا کہ وہ کیا ہر وقت لڑائی خون خرابہ والے ڈرامے دیکھتے رہتے ہو۔ اس سے کیا سبق ملے گا؟ تو ان کا جواب تھا جو نیوز چینلز آپ دیکھتے ہیں ان پر بھی تو یہی خون خرابہ اور ہلاکتیں ہی دکھائی جاتی ہیں۔ بعض چینل کے جذباتی کیمرہ مین تو آپریشن تھیٹر میں گھس کر وہاں زخمیوں کو لگائے جانے والے ٹانکے تک دکھا دیتے ہیں۔ خودکش حملے، کار حملے، بم دھماکے سب روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ ان کو کیا جواب دیتا؟ ریمورٹ انہیں تھماتے ہوئے ہار مان لی۔ قصور ہمارا ہے یا ٹی وی کا؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:41 2009-10-22 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ‘وقت سے پہلے بچوں نے چہروں پہ بڑھاپا اوڑھ لیا
    تتلی بن کر اُڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں
    فارغ کیسے دَور میں یہ تاریخ ہمیں لے آئی ہے
    اپنے دُکھ بھی سہتے ہیں، تاریخ کے دُکھ بھی سہتے ہیں‘

  • 2. 16:39 2009-10-22 ,shaukat :

    جناب قصور کيبل کا ہے مجھے خود اس کا تجربہ ہوا ہے بچوں اور ميرے درميان کشيدگی کا بڑا سبب چينل سليلکشن ہی تھی ليکن بھلا ہو بجلی کی کمی بيشی کا کہ ميرا ٹی وی اس کی نظر گيا اب تين ماہ سے سکون ہی سکون ہے ہم ٹی وي کے بغير بھی رہ سکتے ہيں بی بی سی ويب ساٹ اور ايف ايم پر بھی اس کی نشريات نے مجھے ٹی وی کی کمی محسوس نہيں ہونے دی بچے کمپيو ٹر گيم سے خوش ہيں لہذہ کشيدگی کی جڑ ہی ختم کر ديں.

  • 3. 22:52 2009-10-22 ,A. Mateen :

    سبقت لے جانے کے شوق ميں ميڈيا والوں کا بس چلے تو وہ لوگوں کے سينے چير کر دلوں کی دھڑکن بند ہوتی بھی دکھا ديں۔ ديکھو اسکو گولی لگي، يہ تڑپ رہا ہے، ديکھو اسکا خون بہہ رہا ہے، ديکھو اسکے دل کو خون نہيں مل رہا ہےـ ديکھو يہ مر رہا ہے اور يہ تڑپ تڑپ کر مر گيا ہے۔ حکومت کا کوئی اہلکار نہيں پہنچاـ ہم سب سے پہلے پہنچے ہيں اور ہم نے آپ کو يہ سب براہ راست دکھا ديا ہے۔ آپ نے خود اپنی آنکھوں سے ديکھا کہ يہ شخص کيسے تڑپ تڑپ کرمر گيا۔ دوبارہ ديکھيے اسکی روح کس طرح اسکے جسم سے نکلي۔ ليکن حکومت کا کوئی اہلکار ابھی تک نہيں پہنچا۔ شايد حکومت بھی مرگئی ہےـ

    چوبيس گھنٹے لگا تار ايسا ہی کچھ ہوتا رہے تو ۔۔۔ شايد کبھی کوئی ذہنی امراض کا ماہر کہہ دے کہ پاکستانی ميڈيا نے کمال کر ديا ہے۔ لوگوں کے دلوں سے تمام خوف نکال ديے ہيں۔ ميڈيا کی اس آذادی پر کوئی حرف نہيں آنا چاہيے۔ يہ تو سچ کےرکھوالے ہيں ۔جسکو سچ نہيں پسند وہ ہر طرح کے ميڈيا سے دور رہے۔ بار بار نئےدھماکے کی تلاش ميں بي بی سی کی ويب سائيٹ ريفريش نہ کرے۔ ميانہ روی اختيار کرے اور سارا دن پريشان رہنا چھوڑ دے۔

    معاف کرنا دل کی بھڑاس ہے کہ نکلتی ہی نہيں۔

  • 4. 23:09 2009-10-22 ,sana khan :

    آپ تو خوش نصيب ہے جو اتنے سمجھدار بچے ہيں کيونکہ ميں خود بھی انتہائ شوقين ہوں بلکہ اس سی آئ ڈی کی سيريئل واچر ہوں، غلطی جس کی بھی ہے ليکن اس ميں سی آئ ڈی اور سر پرتومن کا کوئ قصور نہيں، يہ سوال ان کيمرمين اور رپورٹرز سے کريں جن کا بس چلے تو خودکش بمبار کے دھماکہ کرنے سے پہلے اسکی نوعيت پوچھ ليں ہلاکتوں سميت اگر ہم لوگوں سے ہی سوال پوچھنے ہيں تو پھر ماہر تجزيہ نگار و دفاعی امور کيا کريں گے ؟

  • 5. 23:28 2009-10-22 ,Qadir :

    اسلام ميں اس بات کا حکم نہيں ديا گيا ہے کہ بقرعيد پر جانوروں کی قربانی معصوم بچوں کے سامنے کريں

  • 6. 2:18 2009-10-23 ,Aftab Ahmad :

    ہارون مسلہ تب شروع ہوتا جب آپ حد کراس کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے تمام حدیں کراس کر لی ہیں۔ ہر میزبان سمجھتا ہے کہ وہ تمام پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ لوگ ان ٹاک شوز سے تنگ آچکے ہیں۔

    اکثر پاکستانیوں کو نہیں معلوم ان کا میڈیا کس جانب جا رہا ہے۔

  • 7. 4:43 2009-10-23 ,Ghulam Fareed Shaikh :

    دونوں ان چینلوں سے پرہیز کرو۔

  • 8. 5:36 2009-10-23 ,احتشام بشیر :

    یہ بات درست ہے کہ ٹی وی چینلز پر آج کل خون خرابے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اخبارات اور ٹی وی چینلز ٹینشن کے علاوہ کچہ نہیں اگرچہ میرا تعلق بھی اس شعبے سے ہے لیکن گھر جانے کے بعد تفریح چینل ہئ دیکھتے ہیں میرے خیال میں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے تاکہ آج کل حالات میں عوام خبروں کے زریعے خوف کم دیں

  • 9. 5:44 2009-10-23 ,Asim :

    پاکستان کا میڈیا آزادی کے اس مقام پر جا پہنچا یے جہاں اب سب کچھ دیکھانا ممکن یے۔ افسوس کی عوام ابھی زہنی طور پر بالغ نہ ہوے تھے کہ آزاد میڈیا نے اکژیت کے ازہان کو قابو کرلیا،اب جس موقف کا پرچار کیا جاے گاسادہ لوح عوام اس سچ کو ہی سچ مانیں گے۔
    اب یہ کون طے کرے کہ کیا سچ ہے اور کیا سچ کہ نام پر دھوکا۔۔۔۔۔۔۔

  • 10. 5:49 2009-10-23 ,Hamid Marwat :

    میرے خیال میں آپ اپنے بلاگ کے لیے مناسب موضوع نہیں تھا اس لیے اپنی روزی روٹی کی خاطر یہ لکھا؟

  • 11. 9:22 2009-10-23 ,khawar awais :

    یہ جو پاکستان میں ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار زرداری ہیں، بھارت ہے یا پھر پاکستانیفوج؟ پیپلز پارٹی کو تو ہر وقت پھنسا کر رکھا جاتا ہے۔

  • 12. 9:37 2009-10-23 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ‘قصوروار نہ طوفان تھا، نہ پانی ہے
    کہ ان کا شہر ہی دریا کی رہ گذر پر تھا‘

  • 13. 9:42 2009-10-23 ,Mubashir Hassan :

    ہارون رشید صاحب بلکل درست فرمایا آپ نے، میڈیا ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے تمام ضابطہ اخلاق کو بالاطاق رکھتے ہوے اکثر اوقات بہت کچھ دکھا جاتا ہے، اور اس عمل سے دہشت گرد دھرا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ اپنے ایک عمل سے بیک وقت پورے ملک کے اوم کو دہشت ذدہَ کرنے مے کامیاب ہو جاتے ہیں،،، اسے بند ہونا چاہئے،،،

  • 14. 9:54 2009-10-23 ,sana habib :

    ٹی وی کا قصور ہے۔

  • 15. 11:09 2009-10-23 ,FAIZAN SIDDIQUI :

    جناب کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کچھ ہميں بھی تھا-رات ميں جب وقت ملتا تو ہمارے گھر کو بھی ميرے اور چھوٹے بھائ کے درميان محاز آرائ کا سامنا ہوتا - ميں کہتا کہ نيوز چينل پر ”لال پٹي” چل رہی ہے تو جواب ملتا کہ وہ تو ہر وقت چلتی ہے -بہر حال اب صورت حال کنٹرول ميں ہے اور اب ہم دونوں مل کر سی آئ ڈی ديکھتے ہيں اور وقفے کے دوران ميں جلدی جلدی نيوز چينل لگاديتا ہوں کہ” کتنے ہوگۓ”- ويسے بھی اے سی پی کيس حل تو کرتا ہے اور آخر ميں ” تمھيں ضرور پھانسی ہوگي” کہہ کر فيصلہ بھی صادر کرديتا ہے- يہاں تو سرے سے کيس حل ہی نہيں ہوتے،بلکہ شروع ہی نہيں ہوتے اللہ اللہ کرکے مناواں حملے والا ايک کيس حل ہوا اور شدت پسند کو ملی ”دس سجل قيد بامشقت” وہ بھی قانونی موشگافيوں کے نتيجے ميں پانچ سال ہوجاۓ گی -

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔