ایک سو تیرہ جائز ہلاکتیں!
تکفیر کی اصطلاح کفر سے نکلی ہے۔ تکفیری ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دیگر مسلمانوں کو عقیدے کی کمزوری یا خرابی کے سبب کافر یا مرتد سمجھے اور ایسے مسلمانوں کے قتل کو جائز جانے۔
کسی بھی مسلمان کو مرتد یا کافر قرار دینے کا ایک شرعی طریقہ کار ہے جس کی روشنی میں صاحبِ علم اور مجاز علما ہی کسی کے عقیدے کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔ لیکن بہت سے گروہ جن میں سے غالب اکثریت سلفی نظریے سے متاثر ہے خود کو اس کا اہل گردانتے ہیں کہ وہ کسی فرد یا گروہ کے ایمان کے بارے میں فیصلہ دے سکیں۔ یہ وہ گروہ ہیں جو سلفی نظریے کی مذید انتہا پسندانہ شکل کے نمائندے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص یا گروہ یا مسلمان حکومت اسلام کے بارے میں ان کی تشریح سے متفق نہیں وہ ایک خالص اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ میں اپنی بدعقیدگی کے سبب ایک رکاوٹ ہے جسے ہٹانے کے لیے تشدد سمیت کوئی بھی طریقہ جائز اور شرعی ہے۔
تاریخ میں اس سے ملتا جلتا نظریہ خارجی فرقے کے ہاں ملتا ہے۔ اور تکفیری عقیدے کی جدید شکل طالبان، القاعدہ، مصر اور الجزائر میں متحرک جماع الاسلامیہ جیسے شدت پسند گروہ سمجھے جاتے ہیں۔
اسامہ بن لادن کا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ نتیجہ اہم ہے اس تک پہنچنے کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بقول ان کے'ضروری نہیں ہے کہ جو بھی اس جہاد کا حصہ بنے وہ اسلامی اصولوں پر اپنی ذات کی حد تک پوری طرح سے عمل پیرا ہو۔ اسکی نیت زیادہ اہم ہے۔'
جب امریکی ٹائم میگزین نے مصر کی شدت پسند تنظیم جماع الاسلامیہ کے فکری قائد شیخ عمر عبدالرحمان سے انٹرویو میں پوچھا کہ جو عام شہری کار بم کے دھماکوں میں بے گناہ مارے جاتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ شیخ عمر کا جواب تھا کہ اگر یہ ایکشن دورانِ جنگ لیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں عام لوگ مارے جاتے ہیں تو یہ تشدد کے بدلے تشدد کا عمل ہے اور اس کی ذمہ داری تشدد کا جواب دینے والے پر عائد نہیں کی جاسکتی۔
تکفیری اسے بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اگر دشمنوں کو مارنے کے لیے ایک شخص جان بوجھ کر خود کو ہلاک کرتا ہے تو وہ شہید ہے۔
ڈاکٹر ایمن الزواہری تکفیری سوچ کا ایک سرکردہ نشان ہیں۔ جب وہ سن اسی کے عشرے میں صدر انور سادات کے قتل کے بعد قاہرہ کی جیل میں تھے تو ان کے بقول وہ لوگ جو ایک فاسق و فاجر حکومت کے ہوتے ہوئے چپ رہتے ہیں یا مزاحمتی اسلامی قوتوں کی مدد نہیں کرتے تو وہ بھی فاسق و فاجر حکومت کے مددگار اور واجب القتل ہیں۔ اسی دور میں قاہرہ میں دھماکوں کی ایک مختصر لہر بھی آئی جس میں عام شہریوں کے ساتھ غیر ملکی سیاح بھی ہلاک ہوئے۔
پشاور میں ایک سو تیرہ عورتوں، بچوں اور عام مردوں کی ہلاکت آپ کے نزدیک درندگی ہو، لیکن تکفیری نظریے کی روشنی میں ان کی ہلاکت ایک شرعی اور جائز عمل ہے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت صاحب اس دنیا میں ہر چیز جائز ہے خواہ وہ جلیانوالہ باغ ہو، کوریا یا ویت نام کی جنگ ہو یا پھر فلسطین پر بمباری ہر کوئی اپنے اپنے نظریے کے مطابق جائز کام ہی کر رہا ہے۔ پھر غلط کون ہوا۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
میں کیا اوقات میری کیا
شرعی کیا اور تکفیری کیا
الزواہری اور اسامہ بھی ارسطو اور سقراط کی طرح نظریات کے خالق بنتے جا رہے ہیں۔ سبحان اللہ واہ بھئی واہ! ایک سو تیرہ ہی کیوں 9/11 کے بعد سے سب جائز۔ ایسا لگتا ہے ہم بارودی سرنگوں پر چلتے ہوئے سکول، دفتر، ہسپتال جا رہے ہیں اور شام کو گھر لوٹ جائیں تو ناجائز۔۔۔
سلفی نظریے سے متاثر لوگوں کے بارے میں بتایا، تو پھر سلفی نظریے کے حامل لوگوں کے بارے میں بھی تو بتاتے۔ یا ’سے متاثر‘ اور ’کے حامل‘ ایک ہی بات ہے؟
خون ناحق کسی طرح بھی اور کوئی جائز قرار نہيں دے سکتا۔ يہ دراصل ميڈيا کی اختراع ہے اور پراکسی وار کا حصہ۔
اسلام کی تاريخ ميں کتنے خودکشی کے واقعات درج ہيں يہ تو لاپتہ افراد کے ساتھ بم باندہ کر اڑانے کا نيا طريقہ ہے۔ مسلمانوں کو بدنام کرو اور پھر بغير انسان کے جہاز بھيج کر اور مسلمان مار۔
ایک سو تیرہ جائز ہلاکتیں! ايسی سوچ کی مذمت کی جانی چاہیے جس ميں کسی معصوم کی جان چلی جائے۔ ’جيو اور جينے دو۔‘
آخر ايسی سوچ کب بدلےگی؟
گزارش ہے کرے کوئی بھرے کوئی۔ ليکن جو بويا تھا وہ تو کاٹنا ہی پڑے گا۔ مقتدر طبقات کی دانستہ يا غير دانستہ چشم پوشی نے وہ چھتر چھايا فراہم کی جس ميں پل کر يہ اژدہے بن گئے اور اب سب کچھ نگلنے کے چکر ميں ہيں۔ الميہ يہ ہے کہ قصورواروں کي پکڑ نہيں اور بھگت عام شہری رہا ہے۔
مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ پشاور میں کئی مزيد قيمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ یہ بم دھماکہ سراسر دہشت گردی ہے۔ اس کے جائز ہونے ميں کوئی بھی جواز پيش کرنا درست نہيں۔
آپ کے اس بلاگ سے مجھے ’فرقہ واريت‘ کی بو آرہی ہے جس ميں ايک مخصوص فرقے کو نشانہ بنايا گيا ہے۔
پشاور والی درندگی ضروری نہیں کہ تکفیری نظریے والوں نے ہی کی ہو۔ یہ ہمسایہ ملک کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے۔
وسعت اللہ خان صاحب، واہ! تاریخی حقائق کا کیا خوب خلاصہ بیان کیا ہے۔
جناب وسعت اللہ خان صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور میں جو کچھ ہوا وہ درندگی کی انتہا تھی اور مذہب کے نام پر دوسروں کو قتل کرنا گناہ ہے۔ مگر آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسے لوگ ہر طرح کے معاشروں میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک انتہا پسند غیر مسلم نے جرمنی میں ایک عورت کو حجاب پہننے کی وجہ سے قتل کر دیا۔ آسٹریلیا میں نسل پرست سفید فاموں نے ساحلوں پر مسلمان لائف گارڈز کو تعینات کرنے پر کتنا واویلا کیا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جتنے بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ اکثر جب امریکی جرنیلوں اور اعلیٰ حکام سے پوچھا جاتا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو کیوں مارا تو وہ کہتے ہیں کہ ’طالبان انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔‘ اگر مٹھی بھر طالبان کو مارنے کے لیے پوری پوری آبادیوں کو اڑا دینا انسانیت سوز ظلم ہے تو قبلہ آپ نے اس کے خلاف کچھ کیوں نہیں لکھا؟ آپ کو صلیبی جنگوں کا احوال بھی یاد نہیں رہا جب پادری لوگوں کو جنت کے خواب دکھا کر جنگ پر ابھارا کرتے تھے جبکہ عیسائیت جیسے عطیم مذہب میں تشدد جائز ہی نہیں ہے۔ سپین کی خانہ جنگی کے دوران زیادہ تر یورپی ملکوں نے اسے مذہب کی جنگ قرار دیتے ہوئے اپنے فوجی اور رضاکار بھیجے اور پادریوں نے بھی رضاکاروں سے لڑنے کی اپیل کی۔ خود یورپ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے عقیدے کو غلط قرار دے کر مدتوں تک لڑتے رہے۔ ذرا ان سب کے بارے میں بھی لکھ کر دکھائیے جناب وسعت اللہ خان صاحب۔