| بلاگز | اگلا بلاگ >>

لحد سے ایک پکار

اصناف:

جاوید سومرو | 2009-10-30 ،15:18

میں ایک سات برس کا بچہ ہوں۔ لحد میں اتارے جانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میری ننھی سی زندگی کو کیوں اس طرح ختم کر دیا گیا۔ ابھی تو مجھے سکول جانا تھا، لکھنا پڑھنا تھا، زندگی دیکھنی تھی، اپنے ماں باپ کا سہارا بننا تھا، تو پھر کیوں میری زندگی مختصر کردی؟

کتنا خوش تھا میں۔ میری اماں کی خالہ زاد بہن کی شادی تھی اور اماں مجھے ساتھ لے کر بازار گئی تھی ہم سب کے لیے نئے کپڑے لینے۔ میں تو بس اپنی ماں کے ساتھ خوش خوش بازار گیا تھا۔

پتا ہے مجھے بہت عرصے سے نئے کپڑے نہیں ملے تھے، بابا کہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں اس لیے کمائی نہیں ہے اور کپڑے نہیں خرید سکتے۔ اب دیکھیں آخر انہیں یہ نیا کفن خریدنے کے لیے پیسے تو خرچ کرنے ہی پڑے نہ۔

میری ماں مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ اس کے دامن سے لپٹ کر کبھی کبھی ضد کروں اور وہ میری معصوم ضدوں کو پورا کرے۔ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ دوسرے بچوں کے ساتھ گلی میں کھیلوں، اتنا چاہتا تھا کہ سکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوکر بابا کو خوش کروں، بس اتنا چاہتا تھا کہ کراچی میں اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ مل کر سمندر کی لہروں پر چھلانگیں ماروں اور کوئلوں پر بھنے ہوئے بھٹے کھاؤں۔ سردی کے موسم میں ماں کے ساتھ چپک کر پریوں کی کہانیاں سنوں۔

لیکن یہ کیا؟ وہ تو مجھے ٹھنڈے لحد میں اتار کر چلے گئے ہیں اور برابر میں میری ماں کی قبر ہے لیکن اس کے پہلو کی گرمی بھی میسر نہیں۔

کیا میری زندگی مذہب کے نام پر مختصر کی گئی ہے؟ اگر یہ وجہ ہے تو میرا تو اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ میں تو ابھی مذہب کو سمجھ بھی نہیں پایا اور مجھے مارنے سے مذہب کیسے زندہ رہے گا؟ کوئی بھی مذہب کیسے زندہ رہے گا؟ میں اتنی مشکل چیزیں نہیں سمجھ سکتا۔ مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ میرا باپ میرے دکھ میں پاگل ہو جائے گا اور جب وہ میرے جلے جسم کے ٹکڑوں کو اپنی گود میں اٹھائے گا تو درد اس کے دل کے آر پار ہوگا۔

میں اس تاریک قبر میں ڈر رہا ہوں۔۔۔۔ بابا۔

ماں برابر کی قبر سے مجھے دیکھ کر رو رو کر نڈھال ہوگئی ہے ۔۔۔ بابا تجھے اس کی آواز کیوں سنائی نہیں دیتی؟

کیا بم دھماکے میں میرے جسم کی طرح آپ کے کانوں کے پردے بھی پھٹ گئے ہیں؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:41 2009-10-30 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    آداب! مذہب تو پیار، محبت، بھائی چارہ، انسانیت سے پیار سکھاتا ہے، وہ کیونکر کسی کی زندگی لے گا؟ ہاں، مذہب کے لبادے میں زندگی چھینی جاتی ہے۔ سیاست اتنی ظالم ہو چکی ہے کہ اس نے مذہب جیسے پوِتر ادارے کو بھی نہیں بخشا اور اس کو بنیاد بنا کر ’کرسی‘ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے، ممالک پر قبضہ کیا جاتا ہے، ایٹمی توانائی کو قابو کیا جاتا ہے، نو آبادیاں بنائی جاتی ہیں، لڑوایا جاتا ہے اور ’انسانی حقوق‘ کا علمبردار بنا جاتا ہے۔ جب تک مذہب، سیاست کا حصہ رہے گا، چراغ گل ہوتے رہیں گے اور سیاست دن بہ دن پرتشدد ہوتی جائے گی۔ بہتر ہوگا کہ مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دے کر اس کی اصلی روح کو برقرار رکھا جائے اور اسے سیاست و ریاست سے بالکل الگ رکھا جائے۔

  • 2. 17:15 2009-10-30 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ’وقت سے پہلے بچوں نے چہروں پہ بڑھاپا اوڑھ لیا
    تتلی بن کر اُڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں
    فارغ کیسے دور میں یہ تاریخ ہمیں لے آئی ہے
    اپنے دکھ بھی سہتے ہیں، تاریخ کے دُکھ بھی سہتے ہیں‘

  • 3. 17:50 2009-10-30 ,مريم فائزہ :

    متواتر خود کش حملے واقعی لمحۂ فکریہ بنتے جا رہے ہیں۔

  • 4. 18:20 2009-10-30 ,ظہور احمد سولنگی :

    جاوید صاحب
    یہ آپ کا بلاگ پتھر دل کو بھی پگھلانے کے لیے کافی ہے مگر یہ مذہب کا نام استعمال کر کے معصوم جانوں کو مارنے والے خود کو بھی نام نہاد ’شہید‘ کہتے ہیں اور مرنے والوں کو بھی ’شہید‘ کر کہ خود کی تسلی کرتے ہیں۔ اللہ کرے اب کی بار یہ آپریش کامیاب جائے اور ان لوگوں سے جان چھوٹے۔

  • 5. 18:28 2009-10-30 ,آفضل خان :

    کيا رولانا ضروری تھا؟

  • 6. 19:50 2009-10-30 ,علی گل سڈنی :

    جاويد سومرو صاحب آپ نے جو لکھا ہے وہ يقيناً ايک نارمل سوچ ہے اور انسانی ہمدردی کی مثال ہے۔ ليکن جو لوگ اس وحشيانہ عمل ميں ملوث ہيں وہ تو يہ کہتے ہيں کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہی ہے اس لیے يہاں جتنا کم وقت گزارا جائے اتنے ہی کم گناہ ہوں گے اور جلد از جلد ’شہيد‘ ہو کر جنت ميں جگہ بنائی جائے۔ ايسے نظريات رکھنے والے لوگوں کے نزديک زندگی کی کوئی اہميت نہيں اور يہ فلسفہ جنرل ضيا کے دور ميں پروان چڑھا اور اسے صرف ايجنسياں ہی ختم کر سکتی ہيں۔

  • 7. 22:12 2009-10-30 ,مريم فائزہ :

    يہاں زندہ لوگوں کی کوئی نہيں سنتا لحد کی پکار کون سنے گا؟

  • 8. 22:15 2009-10-30 ,وحيد کھوکھر :

    جاويد سومرو صاحب آپ کے بلاگ نے اوپر سے ليکر نيچے تک کاٹ کر رکھ ديا ہے۔ کاش ميں کہہ سکتا کہ فلاں فلم کے ڈائیلاگ لکھنے والے نےغضب کے ڈائیلاگ لکھے ہيں يا ميرے کسی پسنديدہ رائٹر نے کمال کے انداز ميں حقيقت نگاری کی ہے۔ کاش ايسا ہی ہوتا مگر ايسا نہيں ہے کيونکہ اس سات سالہ بچے کی حيراں و لرزاں سرگوشياں اور سسکياں مجھے صاف سنائی ديتی ہيں۔ يہ پھول جسے کھلنے سے پہلے ہی ٹہنی سے توڑ کر مسل ديا گيا ميری آنکھوں ميں جھانک کر اپنی کنفيوز آنکھوں سے کئی سوال کر رہا ہے۔ مجھے معاف کر دے بچے ميں تيرے لیے کچھ نہ کر سکا۔

  • 9. 23:10 2009-10-30 ,جاوید گوندل :

    کیا میری زندگی مذہب کے نام پر مختصر کی گئی ہے؟ آپ نے مذہب (اسلام) پر ہی زور دیا ہے۔ کیا کسی مذہبی تنظیم نے ایسے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے؟ آپ کسی دشمن ملک کی ایجنسی کی طرف بھی اشارہ کر سکتے تھے۔ ملک دشمن ایجینسیاں جو پاکستان میں بہت فعال ہو رہی ہیں یا دہشتگرد بھی لکھ سکتے تھے کیونکہ دہشت گردوں کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ننگی دہشت گردی کا مذہب کے زندہ کرنے سے بے تُکے تعلق کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔

  • 10. 3:03 2009-10-31 ,Husnain Hayder :

    شاید لبنان اور فلسطین میں امریکی آشیر باد سے کی جانے والی اسرائیلیوں کی وحشیانہ بمباری سے ہلاک ہونے والے سینکڑوں بچوں کے بھی یہی خواب تھے اور وہ بھی اپنی قبروں میں ایسے ہی ڈرتے ہوں گے۔

  • 11. 6:49 2009-10-31 ,sana khan :

    يہ سارے بچے تو جنت کے باغ کے پھول ہوگئے ہيں پر سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہيں کہ کس بےدردی و بے رحمی سے بچے مار ديے گئے۔ ہماری تو ذرا سے انگلی جل جاتی ہے تو اتنی تکليف ہوتی ہے کہ بس اللہ ہی رحم کرے اب ہم پر۔

  • 12. 9:43 2009-10-31 ,ماريہ خان :

    خدا کرے يہ پکار ان کے کانوں تک پہنچ جائے جو ان واقعات ميں ملوث ہيں۔

  • 13. 10:04 2009-10-31 ,Sajjadul Hasnain :

    سومرو صاحب ويسے ہی دل کانپ جاتا ہے سوچ سوچ کر کہ کيا ہو رہا ہے۔ کيوں معصوموں کی جانيں لی جا رہی ہيں۔ کيوں پلک جھپکتے ايک نہيں دو نہيں سينکڑوں خاندانوں کو ايک نہ ختم ہونے والا درد دے ديا گيا۔ کيوں يہ لوگ اپنوں ہی ميں موت کا غم بانٹنے کا کام کرتے ہيں۔ کيوں ان کا دل نہيں گھبراتا گور انہیں انہيں آرام سے نيند کیسے آ جاتی ہے۔ ايسے ميں ايک معصوم بچے کی يہ داستان کسی بھی جذباتی انسان کا سکھ چين اور نيند چھيننے کے لیے کیا کافی نہيں ہے؟ اب اللہ ہی عقل دے ان کو جو موت بھی بانٹتے ہيں اور ملک و قوم کو ايک المناکی سے دوچار کرجاتے ہيں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔