گھر کی گھات لگائے کمانڈو
پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف آجکل امریکہ میں آزاد پنچھی کی طرح اڑتے پھر رہے ہیں۔
امریکہ جسے کل تک پاکستانی تارکین وطن کے لیے چیف جسٹس کی بحالی یا وکلاء تحریک کی حمایت کا قلعہ کہتے تھے وہاں کے کئی شہروں میں مشرف کی بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔
ان کے جلسوں میں ڈیڑہ دو سو کے قریب پاکستانی شریک ہوتے ہیں جو کہ امریکہ کے حساب سے خاصی بڑی تعداد ہے۔ لیکن، بقول شخصے، یہ کوئی بیرومیٹر نہیں کہ جس سے پرویز مشرف کی خود پاکستان میں مقبولیت کی پیمائش کی جاسکے۔
ان کی مقبولیت کا اندازہ تب لگایا جا سکے گا جب وہ بانفس نفیس جاکر پاکستان کے کسی ہوائی اڈے پر اتریں گے۔ ہاں، البتہ یہ اور بات ہے کہ صدر زرداری سے مقبولیت میں وہ اب بھی دو قدم آگے ہی ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ جو وزیرستان سے لیکر پیر ودھائی تک اور وڈہ سے لیکر چیچہ وطنی تک آگ لگی ہوئی ہے یہ سب مشرف کی 'ڈبل گیم' کی لگائی ہوئی ہے جو یہ جنرل امریکہ اور طالبان سے کھیلتے رہے۔ یعنی کہ چوروں کو کہتے چوری کرو اور مالکوں سے کہتے 'خـبردار! وہ آ رہے ہیں۔
'
پچھلے دنوں انہوں نے نیویارک میں تین مقامی پاکستانی اخبارات کے مدیروں سے بات چیت کی۔ دوران بات چیت ایک
مدیر نے پوچھا کہ 'آپ صدر بھی تھے، جنرل بھی تھے اور کمانڈو بھی۔ قوم نے آپ پر بڑی انویسٹمینٹ کی لیکن آپ پاکستان کو نازک وقت میں چھوڑ کر آگئے۔' تو انہوں نے کہا 'ہاں، میں جنرل بھی تھا اور کمانڈو بھی لیکن کمانڈو کا کام گھات لگا کر حملہ کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے وقت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں ابھی وقت نہیں آیا کہ میں پاکستان جاؤں۔
'
جی ہاں۔ یہ وکھرے ٹائپ کے کمانڈو ہیں جو اپنے ہی گھر کی گھات لگائے ہوتے ہیں۔ شیر شاہ سوری کے باز اپنے ہی گھر کے مرغے مارا کرتے تھے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن صاحب اس وقت پاکستان کے وجود کے زيادہ تر دشمن اندرونی ہی ہيں جبکہ باہر سے بہت کم خطرہ ہے۔پاکستانيوں کو انڈيا کی بجاۓ آپس کی فرقہ پرستی ،قوم پرستی ،لسانيت اور طالبانوں سے زيادہ خطرہ ہے۔ شايد ہمارے پرانے دشمنوں نے کہ ہم کمزور ہی رہيں ہميں ان نظرياتی چکروں ميں ڈال ديا ہے کہ آپس ميں ہی لڑ لڑ کر مر جائيں۔پرويز مشرف کو بھی جنرل ضياالحق يا جنرل ايوب کی طرح پذيرائی ملنی تھی ليکن حالات اور بيرونی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے اندرونی دشمنوں سے لڑائی کی جبکہ سابقہ جرنيلوں نے ان کی سرپرستی کي۔
مشرف ایک اعلٰي درجے کے قاۂد اور کمانڈو ہيں- انہوں نے 9/11 کے فوری بعد پاکستان کو تاريخ کے بد ترين مشکل دور ميں محفوظ رکھا انکا يہ کارنامہ پاکستان کی تاريخ ميں ہميشہ ياد رکھا جاۓ گا- وہ يقینن مناسب وقت پر پاکستان کو دوبارہ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف ليجاۂيں گے -
گھر کا بھيدی لنکا ڈھائے تو سنا تھا ليکن گھر کی گھات لگائے کمانڈو تو پہلی پہلی بار سنا اور پڑھا ہے۔
ليکن اپ بھينس کی چوری کا مقدمہ بھی مشرف کے خلاف درج ہورہاہے
امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں ہر ڈکٹیٹر کی پشت پر اسی کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس لئے جمہوریت کے دعوئوں کے باوجود مشرف کو جس طرح پروٹوکول اور سکیورٹی مہیا کی گئی وہ پوری دنیا میں جمہوریت کے حامیوں اور امریکی ٹیکس دہندگان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہے ہی نہیں اور وہی اب بھی پاکستان دشمن قوتوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ نے کس منہ سے سری لنکن آرمی چیف کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواب دینے کیلئے طلب کیا ہے جبکہ وہ خود افغانستان میں سینکڑوں شہریوں کو یہ کہہ کر مار چکا ہے کہ انہیں طالبان انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے اس لئے ایسا کرنے ضروری تھا۔۔۔
واہ رے امریکہ تیرے انصاف کے صدقے جائیں۔۔۔
بہت خوب۔ جنرلوں نے بار بار اپنے ہی ملک کو فتح کیا ہے۔ہمارا ملک دشمن کا مفتوحہ علاقہ لگتا ہے جسپر ہمارے اپنے ہی
اجنرل وار کرتے ہیں اور فتح کرتے ہیں۔
برائے مہربانی ایما ڈنکن کی کتاب 'بریکنگ دی کرفیو ' اور عائشہ صدیقہ کی کتاب پڑہیں تو آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ پاکستان کا اسی فی صد بزنس یا تو براہ راست فوج کے کنٹرول میں ہے یا بلاواسطہ فوج کے ہی اتحادی اداروں کے کنٹرول میں۔
یہ لو اب تو سچ سامنے آہی گیا نہ! یہ اپنے ہی پاکستان کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ساری عمر اسی کام میں لگادی ہے
اگرکما نڈو ايکشن سے پہلے سازگار حالات کا ہو نا ضروری ہے تو کيا ايسے حالات بناۓ حا رہے ہيں؟ اور اگرايسا ہے تو اس کو سابقہ کمانڈو صدر کا سابقہ يا موحودہ کردار کہا جاۓ تو کہاں تک درست ہو گا؟
حسن صاحب فوجی پاکستان ميں ہميشہ صحيح وقت پر ہی آتے ہيں جب کہ عوام تو ہے ہی گاجر مولی
حسن بھائی، حسرت ہی رہی کہ کوئی اچھا کالم ہی آپ کے نام سے پڑھ لیا جائے
میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ مشرف نے وہ کام کیے جو کام آج تک کسی بھی صدر نے پاکستان میں نہیں کیے۔ .
ذرا گنوائو تو کتنےکارنامے مشرف نے تعیلم کے میدان میں سر انجام دیے۔
اس نے کتنے اسکالروں کو پی ایچ ڈی کرنے غیرملک بیھجا؟ کتنے اسکالرز پکستان کے اندر پی ایچ ڈی کرنے آئے ہوئے ہیں ا؟
ہمارے موجودہ صدر زرداری سے ذرا موازنہ کریں تو مشرف بہترین صدر تھا۔
کہاں گۓ اب قاضی حسین احمد جو ہر تیسرے روز
ہکہتے تھے وردی
اتارو!۔
سابق صدر مشرف کے دور میں طالبان میں ہمت نہیں تھی اور اب انکا زور دیکھیں
مشرف کے دنوں میں پاکستان کی کرنسی مضبوط تھی۔ سیکیورٹی کا یہ عالم تھا کہ امریکہ شاذ و نادر ہی پاکستان پر حملے کرتا تھا اب ہر روز ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
مشرف میں دنیا کے کسی بھی لیڈرکیساتھ بات کرنے کی قابلیت موجودہ ہے۔
غالب کا شعر مجتبی صاحب کیلے
آئینہ کیوں نہ دیں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہوں جسے۔
جناب عالی مشرف آج بھی ان تمام آزمودہ سیاستدانوں اور عزت ما آب 'چیف صاحب' سے بدرجہا بہتر ہیں۔وقت آنیوالا ہے جب پاکستانی عوام انکا پرتپاک استقبال کریں گے۔ آپکو ہنسی آرہی ہوگي میری اس بات پر مگر یہ مت بھولیں یہ پاکستانی قوم ہے جو بینظیر سے لیکر نواز شریف تک کو کاندھوں پر بٹھاتی ہے تو مشرف کو کیوں نہیں؟
ایک خیال یہ بھی ہے کہ زرداری کے بعد یا جب جنرل ڈکٹیٹر موصوف کی سرکاری ملازمت کے بعد دو سال سیاست میں حصہ نہ لینے والی شرط کی پابندی پوری ہوگئی تو امریکہ ڈکٹیٹر مشرف موصوف کو، پالش کر کے چمکا کر، ایک سیاستدان کی حیثیت سے پاکستان کے صدارتی اور سیاسی دنگل میں اتارے گا۔
اس نظریے پہ نا یقین کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں بھی تو معین قریشی و شوکت عزیز وغیرہ پاکستان کے امپورٹیڈ حکمران ہو گزرے ہیں۔ پاکستانی قوم نے ان کا رستہ روکنا تو کُجا بلکہ ان کی زیر نگرانی چوں چراں کئیے بغیر انھیں حکمرانی کا مقرر کردہ عرصہ پورا کرنے کا بھرپور موقعہ دیا۔کچھ لوگ تو موجودہ حکومت کو بھی مشرف کا تسلسل قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ مشرف کی واپسی تک کی بندوبستی حکومت ہے جو امریکہ کے اشارہ ابرو کی منتظر ہے۔ کہ کب مشرف کے لئیے سرخ کارپٹ اسلام آباد کے ائرپورٹ پہ بچھائے۔ البتہ مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا پاکستان کے اعلی ترین عہدیدار یعنی صدر مملکت کی صورت میں پاکستان وارد ہونے پہ ، پاکستانی قوم کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔
امریکہ جسے چاہے پاکستان کا آقا و مولٰی مقرر کرسکتا ہے۔ ڈکٹیٹر تو بس مفت میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ ڈکٹیٹر نے ملک کا جو تیا پانچا کرنا تھا وہ تو کب کو ہو چکا۔ اب تو رہے سہے "کھک" چننے والی بات رہ گئی ہے۔
سارا نزلہ کمانڈوپنے کا مشرف پر نہ گرائیں سارے ہی تو ايسے ہوتے ہيں مشرف کے جانے کے بعد خلاف توقع انھيں زيادہ ہی پذيرائی ملي ہے جوکہ پاکستاني سياستدانوں تک کو نصيب نہيں ہوئی ہے۔
حالات مشرف کے جانے کے بعد ہی خراب ہوئے ہیں۔.
شاید مشرف اس چکروں میں ھے کہ جس طرح افغانستان میں امریکہ کو ظاہر شاہ کی ضرورت پڑگئی تھی ایسے ہی کبہی پاکستان میں ان حضرت کی ضرورت بھی ُپڑجائے اور جس طرح افغانستان میں اس لیڈر کو بابائےقوم بنا کر واپس تخت کابل پر بٹھادیا گیا تھا ایسے ھی آنجناب کو بھی تخت اسلام آباد دوبارہ سونپ دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایسے ہی موقعے و حسرت کو مشرف نے اپنے لفظوں میں گھات کا نام دیا ہے
میں چھتیس برس کا ایک پاکستانی ہوں اور مجھے کبھی یاد نہیں کہ جنرل ضیاء سے پھر ابتک جمہوریت کبھی بہتر ثابت
ہوئی ہو۔
جنرل مشرف پاکستان کی ترقی میں رہنمائي کرنے
کیلیے صحیح بندہ ہے۔
خدا پاکستانی قوم کو پاکستانی سیاستدانوں سے بچا کر رکھے۔
مشرف کو جانے دو، رات گئی بات گئی، اب یہ دیکھیں زرداری، کیانی کس ڈگر پہ ہیں؟
مشرف، شاہ (ظاہر شاہ) ضرور ہو گا مگر پاکستان افغانستان نہیں۔
نہمشرف اچھا تھا اعر نہ اب زرداری اچھا ہے ۔ اچھہا وہی ہوگا جو پاکستانی بن کر اپنی قوم کے بقاء کے تناظر میں پاکستانی بن کرفیصلے کرے گا۔