'کیا امریکی سودائی ہیں'
یہ خبر تو آپ نے سن ہی لی ہوگی کہ ایک اطالوی عدالت نے امریکی سی آئی اے کے تئیس اور اطالوی خفیہ کے دو ایجنٹوں کو ایک مصری عالم ابو عمر کو اطالوی شہر میلان سے اغوا کر کے مصر منتقل کرنے کے جرم میں تین سے آٹھ برس تک قید اور دو دو ملین یورو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
اگرچہ مجرم قرار دیے گئے امریکی ایجنٹ بہت پہلے اٹلی چھوڑ کر اپنے ملک جا چکے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں لاقانونیت کو لگام دینے کے تعلق سے مذکورہ فیصلے کی زبردست علامتی اہمیت بتائی جا رہی ہے۔
مگر اس اطالوی عدالتی کے فیصلے سے 'بے وفائی' اور 'احسان فراموشی' کی بو بھی آ رہی ہے کیونکہ امریکہ وہ ملک ہے جس نے دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کو مسولینی کے فاشزم سے نجات دلوائی اور بعد ازاں جنگ زدہ اٹلی کی تعمیرِ نو کے لیے مارشل پلان کے تحت کروڑوں ڈالر کی امداد دی۔ امریکی سی آئی اے نے سرد جنگ کے دوران اٹلی کو کیمونسٹوں کے سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو بھاری رقوم فراہم کیں۔ ناٹو میں اٹلی کو شامل کیا گیا اور اس یارِ وفادار پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے چھٹے امریکی بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر اطالوی ساحلی شہر نیپلز میں قائم کیا گیا۔ جبکہ اطالوی عدلیہ نے امریکہ کے تاریخی لگاؤ اور محبت کا صلہ سی آئی اے کے تئیس ایجنٹوں کو سزا سنا کر دیا۔
اٹلی سے تو کہیں اچھا پاکستان ہے جس نے نہ صرف امریکہ کو یکطرفہ طور پر اڈے دیے، سرد جنگ میں سرخوں کے خلاف امریکہ کا رضاکارانہ اتحادی بنا۔ افغان جنگ میں روس کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کے لیے نہ صرف اپنے گھر کے دروازے بلکہ کھڑکیاں اور روشن دان تک کھول دیے۔ امریکہ نے جتنی بھی امداد دی اسے صبر شکر کے ساتھ دعا دیتے ہوئےقبول کرلیا۔ رمزی یوسف سے ایمل کانسی تک اور افغان سفیر ملا ضعیف سے عافیہ صدیقی تک امریکہ نے جس جس پاکستانی یا غیر پاکستانی کو مجرم جانا اسے نمک خواروں نے خود اغوا کر کے منہ پر نقاب پہنا، ڈنڈا ڈولی کر جہاز پر چڑھایا۔ سینکڑوں لوگوں کو غائب کروا دیا گیا۔ بلکہ یہاں تک اہتمام کیا کہ کوئی پاکستانی ادارہ یا عدالت کسی مغربی پر بالعموم اور امریکی پر بالخصوص ہاتھ نہ ڈالے چاہے وہ بلا اجازت پاکستان کے کسی بھی حصے میں جاکر کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی شخص سے ملے یا حساس مقامات کی تصاویر بنائے یا سادہ کپڑوں میں پاکستان کی سڑکوں پر اسلحہ لے کر دندنائے ۔
اگر کسی سرپھرے نے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اس جانب لانے کی کوشش بھی کی تو انشا جی کے شعر میں (تھوڑا سا تصرف کرتے ہوئے) یہ کہہ کر سمجھا دیا گیا
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم 'امریکہ' کا نام نہ لو، کیا 'امریکی' سودائی ہیں!
تبصرےتبصرہ کریں
جناب نے کيا خوب نمک چھڑکا ہے پاکستانی قوم کے زخموں پر اب تو تکليف بھی تفريح ديتی ہے جب سب کچھ سيلاب کی نظر ہوجاے تو بچا کچھا سامان بھی سيلاب کی نظر کر دينا چاہيے آہے مل کر بربادی کا تماشہ ديکھيں
بيشک پاکستانی اس رؤے زميں پر سب سب سے بہتر بشر ہے- کسی بھی پاکستانی سے اٌپ اس پر بات کر کے ديکھ ليں- اگر ہم ملٌ ضعيف`ڈاکٹر عافيہ يا سيکڑوں ديگر کو بغير کسی قانونی کاروائ کہ امريکہ کے حوالے کر بھی ديں تو اس قوم کے کان پر جوں بھی نہيں رينگتی اور اس سے ہمارے مقام اور وقار کو کوئ دھکا نہيں لگتا-
بھائی صاحب مفت ميں کوئی کام نہيں کرتا۔ امريکہ پورے پيسے ديتا ہے اور وہ بھی کام سے پہلے۔ ہم تو وہ لوگ ہيں جو پيسے پکڑ کر بھی کام نہيں کرتے۔ ان سياستدانوں اور جرنيلوں کے بيرون ملک اثاثے کوئی وراثت ميں نہيں آئے، سب عوام اور امريکہ سے اينٹھا ہوا مال ہے۔ ويسے امريکہ بھی اتنا بےوقوف نہيں۔ ايک ڈالر ديتا ہے، جو دو بن کر واپس اس کے ملک پہنچ جاتے ہيں۔
کیا خوب بلاگ ہے۔ دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کڑوا سچ میٹھی باتوں کے ذریعے ہمیشہ بیان کرتے رہیں۔