مر کر بھی آنکھیں کُھلی رہیں
جب میں نے اپنے پڑوسی سے مُغلی کے انتقال کی خبر سنی تو میں نے اُن سے پوچھا 'کیا اس کا بیٹا مل گیا تھا؟' پڑوسی نے جواباً ایک لمبی آہ بھری۔
مغلی گذشتہ بیس برسوں سے اپنے اِکلوتے بیٹے کو دیکھنے کے لیے ترستی رہی جو اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں آیا۔ اس کا بیٹا نذیر ان دس ہزار نوجوانوں کی فہرست میں شامل ہے جو انسانی حقوق کے اِداروں کے مطابق کشمیر میں آزادی کی تحریک کے دوران لاپتہ ہوگئے ہیں اور جن کے بارے میں اب تک مقامی حکومت کوئی سُراغ نہیں دے پائی ہے اور نہ ہی بھارتی سکیورٹی فورسز نے اپنی تحویل میں لینے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بھارت کی حکومت کہتی ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوگئے ہیں مگر اس کی سروسز ٹیم خدشات کے پیش نظر وہاں رانجی ٹرافی کھیلنے سے ڈرگئی۔
ریاستی حکومت برطانیہ کے سیاحت کے میلے میں کشمیر کی خوبصورتی اور سازگار حالات بیان کرتے کرتے تھک گئی لیکن یورپی حکومتوں کی ایڈوائزری کو ہٹانے میں ابھی تک ناکام رہی کیونکہ یورپ والوں کو ان کی بات کا یقین نہیں ہے۔
میں اس مخمصے میں ہوں کہ حالات کی بہتری سے کیا مراد ہوتی ہے۔ اگر مُغلی کو اپنا بیٹا مل گیا ہوتا یا کم از کم اُس کو مرنے سے پہلے بیٹے کی ہلاکت کے بارے میں بتا دیا ہوتا تو میں ضرور یقین کرتی کہ حالات اگر بہتر نہیں تو کم از کم حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور پھر مغلی کی آنکھیں مرنے کے بعد بھی کُھلی نہ رہتیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
خدا انسان کي درندگي ختم کرکے اسے جذبہ رحم سے آشنا کرے - بچھڑوں کو ملا دے اور زندہ درگور ماؤں کو صبرواستقامت عطا فرماۓ -
‘زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
مُجھ سے اب خونِ تمنا نہیں دیکھا جاتا‘
يہا ں بھی بيچا را عا م آد می قر با نی کا بکر ا بنا يا گيا کشمير بھی لا کھو ں انسا ن نگل گيا
نعيمہ باجی درست فرمايا آپ نے کہ حالات کسی بھی طرح درست نہيں ہيں اور حالات اس وقت تک درست نہيں ہونگے کہ جب تک وہاں کی عوام کو ان کے حقوق نہيں ديۓ جاتے - پر مغلی کی داستان سن کر ميرے ذہن ميں اچانک اس بلوچ خاتون کی آنکھيں گھومنے لگيں جس کا بيٹا نہ جانے کہاں”گمشدہ” ہوگيا ہے اور وہ کسی پريس کلب کے سامنے احتجاج کررہيں تھيں- محترمہ ميں پہلے سوچتا تھا کہ آخر کيسے يہ ہندوستانی فوجی لوگوں کو غائب کرديتے ہيں،خواتين اور بزرگوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑ ديتے ہيں - پھر دل ہی دل ميں سوچتا کہ چلو وہ تو ہندوستانی فوجی ہيں- پر اب ميں خد کو بے حد بے چين محسوس کرتا ہوں جب مجھے پتا چلتا ہے کہ بلوچستان ميں بھی آٹھ ہزار افراد غائب ہيں- کشمير ميں جب خواتين پر ظلم ہوتا ہے تو کم از کم وہاں کے مظلوموں کی آواز پوری دنيا ميں پہنچ جاتی ہے ، عدالتی کميشن بنتا ہے- پر يہاں ہمارے بلوچستان ميں جب سوئ کے علاقہ ممنوعہ ميں ڈاکٹر شازيہ پر ظلم ہوتا ہے تو پوچھنے والا کوئ نہيں ہوتا - محترمہ وہاں اگر سکورٹی کی حالت اتنی بری ہے کہ ٹيم کرکٹ کھيلنے پر تيار نہيں ہے تو يہاں تو حالت ايسی ہے کہ عام عادمی بلوچستان کا سفر کرنے کو تيار نہيں- مانا کہ آپکے کشمير کے حالات بہت خراب ہيں پر وہاں کی مغلی کا دکھ بتانے کے لۓ ”نعيمہ باجي” موجود ہيں پر يہاں کی ” مغلي” کا کيا کوئ دکھ بتاۓ گا ،کيونکہ انديشہ ہے کہ بتانے والے کی اپنی ماں کہيں کھلی آنکھيں لے کر انتقال نہ کرجاۓ-