'جہادی' کون 'فسادی' کون۔۔۔
کسی بھی تنازعے میں ہر فریق کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا نظریہ اور موقف ہوتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر وہ اپنے کردار اور اعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔ انسانی تاریخ ایسے جواز سے اٹی پڑی ہے۔
سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کا جواز ببرک کارمل کی کمیونٹسٹ حکومت کی مدد اور اس خطے میں ایران اور مغربی اثر وسروخ کو پھیلنے سے روکنا تھا۔ روسی سوچ کے مطابق یہ مداخلت نہیں افغانستان کا دفاع تھا۔ کابل میں اس وقت اگر کارمل کی جگہ امریکہ حلیف کرزئی کی حکومت ہوتی تو شاید واشنگٹن بھی یہی کرتا؟
ایک آزاد ملک میں غیر ملکی فوجی مداخلت آزادی کے علمبردار امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو کیسے ہضم ہو پاتی۔ بس پھر کیا تھا، پاکستان کی فوجی قیادت کی مدد سے مغرب نے افغانستان کو روسی فوجیوں کا قبرستان بنا دیا۔ امریکہ کو سویت یونین کے خلاف اپنی سرد جنگ یہاں گرم کرنے کا موقع ملا۔ ایسا موقع شاید کسی اور کے ہاتھ لگتا تو وہ کیا اسے جانے دیتا؟ سو مغربی دنیا کا جواب بھی شاید درست تھا۔
پاکستانی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو افغانستان میں مغرب کی مدد کے صلے میں حمایت ملی۔ لہذا انہوں نے بھی اپنے مفاد کی خاطر جو کیا ان کی ذاتی بقاء کے لیے درست تھا۔
تاریخ کو چند دہائیاں فاسٹ فاروڈ کیجیے تو آج جنوبی وزیرستان میں لڑنے والا شدت پسند بھی اپنے نظریے کو درست مانتا ہے۔ وہ اپنے 'دفاعی جہاد' کی ایسی ایسی تشریحات پیش کرتا ہے کہ عام آدمی کے لیے ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان انہیں 'جہادی' نہیں 'فسادی' قرار دیتی ہے۔
تو آخر غلط کون ہے؟ ہم انسان کسی ایک وقت میں درست بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔ خود غرضی یہ کہ درست ہم اپنے لیے لیکن بدقسمتی کہ تنگ نظر دوسروں کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم کسی اور کی سوچ کے پس منظر کو جاننے کی یا جگہ دینے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہارون رشيد صاحب آپ کی تعويليں اپنی جگہ بجا مگر کيا کيا جائے صاحب دنيا ہر زمانے ميں مفاد کی، فساد کی شرپسندی کی آماجگاہ رہی ہے۔ افغانستان ميں کيا ہوا -کارمل نے کيسے مدد حاصل کی اور مدد کرنے والوں نے کس جواز کے تحت انہيں مدد فراہم کی۔ ان سب سے قطع نظر سوال نظريہ يا تنگ نظری کا نہيں ہے بلکہ کھيل کا ہے - يہ ايک بين الاقوامی کھيل ہے اور بڑی طاقتيں ہميشہ سے کھيلتی آئی ہيں۔ گھر کی اساس پر، محلے کی اساس پر، علاقے کی اساس پر، شہر کی اساس پر، صوبے کی اساس پر ملکی سطح پر ايسے کھيل تو ہوتے ہيں افسوس تو يہ ہے کہ مہرہ بننے والے کو آخر تک پتہ نہيں ہوتا کہ اسے کون کيسے اور کيوں استعمال کررہا ہے - شاءيد يہی ايک کمزور انسان کی بد نصيبی ہے - ويسے کيا ہم يہ کہاوت بچپن سے سنتے نہيں آرہے ہيں کہ جس کی لاٹھی اسی کی بھينس -!!!
آپ نے ایک الگ اور قدرے مختلف نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ ہمیں انہیں لائنز پر سوچنا ہوگا تاکہ مخالفین کے سوچ کا فرق ختم کرسکیں۔
آپ کی باتيں اپنی جگہ ليکن اگر کسی لڑکی سے پيار ہوجاۓ تو اس کاغلط بھی صحيح خلوص دل سے ماننا پڑتا ہے۔
باؤ جی اگر دوسرے کی سوچ کو جگہ دے دی تو جنگ کيسے ہو گي؟ جنگ نہ ہوئی تو مفت کا مال کيسے ہا تھ لگے گا؟
يا رآ پ لو گ جس طرح اپنے آپ کو صحيح کہتے ھيں اور اپنے نظريے کو چلا رھے ھيں اسی طر ح وہ بھی اپنا مو قف بيان کرتے ھی اب آپ لو گ کسی کو بيا ن کر نے کو بھی تنقيد کا نشا نۂ بنا رھے ھيں
محترم ہارون رشید صاحب، اسلام علیکم! مودبانہ عرض ہےکہ نظریوں کے ماننے والے، ان کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے، صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں، ‘منطق‘ اور ‘دلائل پسند‘ ہوں، تحمل مزاج ہوں، بات کو سُننے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔‘مادہ پسندی‘ کی بجائے ‘روحانیت پسندی‘ کو ترجیح دیتے ہوں اور اپنے نظریات کی ترویج و ترقی پر کسی قسم کی ترغیب و لالچ و بلیک میلنگ پر لات مارتے ہوں، اور عمومآ اس قسم کے لوگ زیادہ تر صرف ‘سوشلزم‘ کے جھنڈے تلے ہی ملتے ہیں۔ جبکہ ‘جہادیوں‘ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے لہذا ‘جہادیوں‘ کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ‘ہٹ دھرمی‘ ان کا نظریہ ہو کہ ‘ملائیت‘ عمومآ یہی سکھاتی ہے۔ مان لیا کہ انہیں اسلام سے محبت ہو گی مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نیک اعمال اور اسلامی اصولوں کی پیروی اقتدار و جبر و تشدد و ٹارچر کے ڈنڈے سے نہیں بلکہ پیار و محبت و بھائی چارگی و سیرت و کردار سے عمل میں آتی ہے۔ مذہبی فاشزم اور دہشتگردی سے اسلام نافذ نہیں ہوتا بلکہ صرف جنگل کا قانون نافذ ہوتا ہے جو کہ بہت جلد اپنے قدرتی انجام کو پہنچ جاتا ہے جیسا کہ افغانستان میں ‘طالبان حکومت‘ کے انجام سے عیاں ہے۔ مزید برآں، اگر غوطہ لگا کر حاصل بحث نکالا جائے تو یہ برآمد ہو گا کہ ‘جہادی‘ جن نظریات پر کاربند ہیں وہ دراصل ‘نظریہ پاکستان‘ ہی کے منطقی نتائج ہیں۔ اب جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے ہی گا۔ شکریہ۔
یہ سب جہادی یا فسادی تو نظریہ پاكستان كے حمایتی ھی نہ تھے(اگر یقین نہیں آتا تو تاریخ كا مطالعہ كر كے دیكھ لیں) اور آج بھی اس كے مخالف ھیں اس لیے نظریہ پاكستان كو تو آپ معاف ھی ركھیں۔ ویسے ھمارے سب مسائل كی جڑ جہالت ھے۔ جس ملك كی آدھی سے زیادہ آبادی تعلیم سے بے بہرہ ھو وھاں انتھا پسندی نہ ھو تو اور كیا ھو؟
جناب آپ ذرا اسے بھی زیادہ فلیش بیک میں جھانکنے کی کوشش کریں۔ مغرب کا نوآبادیاتی نظام بھی اپنے نظریے میں صحیح تھا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم بھی صحیح تھا۔ کوریا اور ویت نام کی جنگ بھی صحیح ہے۔ مگر ہم بے وقوفوں کو کون سمجھائے جو ان سب نظریات کو غلط قرار دیتے ہیں۔
جب بھی دو فریقین کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو دونوں فریق اپنے اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں حالانکہ ایک فریق یقینا غلط ہوتا ہےاور غلط کو غلط ثابت کرنے کے لیے عدالتیں موجود ہوتی ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ عالمی تنازعات کو طے کرنے کے لیے ایک عالمی عدالت کی اشد ضرورت ہے (مکمل اختیارات کے ساتھ نہ کہ موجودہ عالمی عدالت برائے انصاف جیسی) اور جو ملک اس عدالت کے فیصلوں کو نہ مانے، اس ملک کا تمام ممالک مل کر بایکاٹ کریں۔
اس میں کوئی شک نہٰں کہ بڑی طاقتیں ے بے شمار کھیل کھیلتی ہیں اور وہ آئندہ بھی کھیلتی رہیں گی۔ اور بدقسمتی سے پوری دنیا کے لوگ ان کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی عوام کو بھی محض پرا پیگنڈے کی طاقت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے ہموار کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نجیب الرحمان سائکو صاحب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ کمیونسٹوں نے اپنے دور میں جو مظالم ڈھائے وہ تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ اگر سوشلزم میں طاقت ہوتی تو لوگ دیوار برلن نہ گراتے۔ باقی جہاں تک جہادیوں کی بات ہے تو وہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کا منطقی نتیجہ نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے بنائے ہوئے دہشت گرد ہیں جنہیں مار کر اب امریکہ ہیرو بھی بن رہا ہے اور افغانستان، عراق اور وسط ایشیا پر قبضہ بھی برقرار رکھے ہوئے ہے لہٰذا حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں شکریہ۔
ہارون بھائی بڑی مشکل میں ڈال دیا آپ نے اس بحث میں پڑ کے۔ ہماری تو عادت ہے آلا کار بنے کی۔ بس اب دعا ہی کرسکتے ہیں۔
نظریہ کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے ۔ غلط صرف پاکستان پر قابض سیاسی استعمار ہے۔ ساٹھ برسوں سے پاکستان پر مسلط قیادت غلط ہے۔ ان کی ترجیحات غلط ہیں۔ کل ہو جس کو ٹھیک کہہ رہی تھیں آج وہی فساد ہے ۔ ۔ ۔ یہ تضاد ان کی مجبوری بھی ہے۔ ان کا مفاد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ پاکستان کے گلی کوچوں کوآگ اور خون میں نہلا دینے والا غیر ملکی اسلحہ اس استعمار کے کی مرضی کے بغیر کیسے ملک میں داخل ہو سکتا ہے۔
کل روس کے خلاف يہ جہادی تھے آج امريکہ کے خلاف فسادی کيسے ہو گئے ؟؟؟؟؟
جہادی یا فسادی واقعی نظریہ ء پاکستان کے حق میں نہ تھے اور اِسی امر کی طرف جناب حامد میر صاحب نے اشارہ بھی کیا تھا جس پر'' آئینہ جو اُن کو دکھایا تو بُرا مان گئے''بالکل سچ ثابت ہوتا ہے۔ لہذا نظریہ ء پاکستان کو فساد و جہاد(خود ساختہ و ذاتی اختراع والا)کی بنیاد کہنا کچی بات ہے۔ پکی بات یہ ہے کہ جہالت ہی نہیں اِس قوم کو بھوک نے بھی بہت بدحال اور نڈھال کیا ہے۔ بھوکے مرتے اور کیا کرتے؟یہ الگ بات ہے کہ راستہ ایسا اپنایا کہ روٹی ملنے والی رہی سہی کسر بھی نکل گئی ہے۔
دروغ گوی جيسے بنگلہ ديش میں ہتھیار ڈالنے تک کامیابی ظاھر کی جا رہی تھی کہ صرف نوے ہزار افواج نے ہتھیار ڈال کر جھوٹ کا پردا فاش کردیا۔ لیکن اب وہ دور نہیں آزاد اور بین القوامی میڈیا، موبائل وائرلیس سسٹم، انٹرنیٹ جیسی سہولتوں کہ دور میں آخر یہ جھوٹ کب تک مرو، مارو اور مرواؤ اور ڈالر بناؤ چلے گا۔عوام بے ضمیر ھوچکے ھیں سب کچھ جانتے ھوئے خاموش ہیں، لیڈر بک چکے ھیں۔ اصل حکمرانی تو پاکستان میں آئ ایم ایف، ورلڈ بنک، امریکا ودیگر ممالک کی ہے۔ ایک پاکستانی کی قیمت صرف چند ڈالر ہے۔ ) صرف دروغ گوی کاادارہ ہے۔ سچ کڑوا ھوتا ہے کل بلوچوں کو I.S.P.R)
مارا گیا آج معافیاں مانگ رھےھو۔ ایسے ھی کل وزیرستان میں گھٹنے ٹیکنے
پڑینگے۔
سوويت يونين کا جو حشر ہوا اور بعد ميں مجاہدين نے افغانستان کا جو حشر کيا، اس کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب کی آشيرباد سے افغانستان ميں طالبان کی ايک مضبوط حکومت قائم ہوچکی تھي- (اس ليۓ پرانے قصے دہرانے کا کوئي فائدہ نہيں)اگر طالبان کے سرپرست ممالک اپنی ذمہ داری نبھاتے اور طالبان کو قابو ميں رکھتے تو کسی کو بھی يہ دن ديکھنے نہ پڑتے- اگر طالبان سے کوئی حماقت بھی ہوگئی تھي، تو پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کو آگے بڑھ کر خود القاعدہ کا خاتمہ کر دينا چاہيۓ تھا۔ اگر ايسا ہوتا تو نہ صرف عام افغان کوئی اعتراض نہ کرتا، بلکہ امريکی حملے کا بھی جواز نہ بنتا- ليکن يہ سب تب ممکن ہوتا، اگر ہمارے حکمران طبقے کی نيت درست ہوتي۔
بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی۔جہادی ھو یا فسادی جو غریب بم دھماکے میں مارا گیا وہ کس کے دامن پہ اپنا خون تلاش کرے۔ جہالت کا یہ عالم ھے کہ دونوں فریق مسلمان اور بفضلِ خدا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے۔ تکرار کی بنیاد جو بھی نظریہ ھو اگر اس میں مخالف کو صرف مخالفت کی وجہ سے جان سے مار دینے کا سبق موجود ھے تو وہ نظریہ سراسر غلط ھے۔اب چاھے نظریے کو اسلام کا رنگ و روغن ھی کیوں نہ کر دو۔ معصوموں کے قتل کا حساب تو روز ِ حشر دینا ھی ھوگا
خدا کے لیے اس جنگ کو جو ہماری نہیں امریکہ کی ہے بند کرو۔
آداب! خاکسار، محترم حسنین حیدر صاحب اور سعید صاحب سے مودبانہ عرض کرنے کی جسارت چاہے گا کہ اگر ملک میں جاری افراتفری و دہشت گردی، فرقہ واریت، انتہا پسندی، ھٹ دھرمی، بنیاد پرستی اور ‘ملائیت‘ کے ڈانڈے ‘نظریہ پاکستان‘ کا منطقی نتیجہ نہیں ہیں تو پھر غور کرنے کی بات ہے کہ ‘مسلم قومیت‘ (دو قومی نظریہ) کےاستدلال کے تحت تو پاکستان کے قیام کی صورت میں فوائد حاصل کر لیے گئے لیکن اب ‘دو قومی نظریہ‘ ہی کا جدید نام ‘نظریہ پاکستان‘ سے کون سے مقاصد حاصل کرنا باقی ہیں؟ جب مسلمانوں نے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹوٹا حاصل کر لیا تو پھر پاکستان میں ‘نظریہ پاکستان‘ کا جواز کیا بنتا ہے؟ دن کا تصور تب ابھرتا ہے جب رات سامنے ہو۔ تضاد ہی کسی چیز کے وجود اور اس کی اہیمت و افادیت کو واضح کرتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں ہندو نہیں رہے تو پھر ‘ملائیت‘ نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ اس مقصد کی خاطر انہوں نے اسلام کی متضاد صورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سامنے لانا شروع کیا اور اسلام کے مقابلے میں دیگر موضوعات مثال کے طور پر اسلام اور شرک، اسلام اور بدعت، اسلام اور فحاشی، اسلام اور سوشلزم، اسلام اور سیکولرازم، اسلام اور لبرلزم، اسلام اور ہیمونزم، اسلام اور فاشزم، اسلام اور جمہوریت، اسلام اور ڈکٹیٹرشپ، اسلام اور سائنس، اسلام اور مغربی تعلیم، اسلام اور سرمایہ داری، اسلام اور جاگیرداری جیسے عنوانات کے تحت ‘نظریاتی مقابلے‘ شروع کروا دیئے۔ ابتداء نیک نہ ہو تو انتہا کا نیک ہونا سوائے ‘معجزہ‘ کے ممکن نہیں ہوسکتا لہذا جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے ہی گا۔ شکریہ۔