خاموشی سے وہ بھی چلے گئے
جرنلزم کے دوران میں نے یہی سیکھا ہے کہ صحافی کھری بات کہنے کا قائل ہوتا ہے گو کہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ کس جگہ اور کن حالات میں کام کرتا ہے۔
کشمیر میں اکثر صحافی جن حالات میں کام کرتے ہیں اور جن حالات سے گزرتے ہیں اس کا مجھے بخوبی احساس ہے اور کئی بار میں خود بھی ان حالات سے گزر چکی ہوں۔ مگر مجھے یہ بات کبھی ہضم نہیں ہوتی تھی کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی دباؤ میں رہتے ہیں، دباؤ میں لکھتے ہیں اور دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ خاص طور سے وہ صحافی جنہوں نے کشمیر میں اردو صحافت کی بنیاد ڈالی ہے اور جِن میں سرینگر ٹائمز کے ایڈیٹر صوفی غلام محمد اور آفتاب کے ایڈیٹر خواجہ ثنا اللہ قابل ذکر ہیں۔
اگست کے ماہ میں لندن روانہ ہونے سے پہلے میں کشمیر میں سرینگر ٹائمز کے ایڈیٹر صوفی غلام محمد کو اپنی کتاب کا مسودہ دکھانے ان کی رہائش گاہ پر گئی۔ میرا مسودہ دیکھنے کے بجائے انہوں نے اپنی کتاب کا لمبا قصہ چھیڑا اور اس کے ابواب پڑھنے لگے۔ میں سوچتی رہی کہ شاید ایک ہی ملاقات میں مجھے پوری کتاب پڑھ کر سنائیں گے۔
ان کی کتاب کے چند ابواب سُن کر محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے کشمیری ثقافت، سیاست، تہذیب اور روایات پر مرثیہ لکھا ہے اور وہ خود مرثیہ خواں ہیں۔
انہوں نے کشمیر کے جس پہلو پر لکھا ہے اس پر ماتم کناں نظر آئے۔ میں نے پوچھا 'صوفی صاحب آپ کی تحریر میں اتنی افسردگی اور ناامیدی کیوں جھلک رہی ہے؟'
'اس لیے کہ کبھی دل کی بات صاف صاف نہیں کہہ سکا اور اب دل کھول کر لکھنا اورکہنا چاہتا ہوں۔'
'آپ نے تو ہمیشہ بے باک بات کہی ہے کیا آپ کو بھی کبھی 'مصلحت سے کام لینا پڑا ہے؟'
اُن کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی اور کہنے لگے 'کشمیر میں 'مصلحت' کے بغیر کوئی کام ہوتا ہے کیا؟لندن میں رہتی ہو اسی لیے ابھی اس کا تجربہ نہیں ہوا۔'
میں اُن کی بات پر کافی دیر تک سوچتی رہی لیکن میں نے تہیہ کیا کہ اگلے سال کشمیر جاکر ان سے 'مصلحت' کی وضاحت کراوؤں گی۔ چند روز پہلے معلوم ہوا کہ وہ انتقال کر چکے ہیں۔ میرا دل کافی اداس ہوگیا اس لیے کہ کشمیر میں اُردو صحافت کا ایک اہم ستون گِرگیا اور پھر مرتے وقت بھی صحافت نہیں چھوڑی اور اشاروں و کنایوں میں بہت کچھ کہہ کر خاموشی سے چلے گئے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘مَیں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
مَیں چُپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے‘
اکثر بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں ميں اندر سے
بھارت میں بنا ہوا محبتوں کا تاج محل نظر آتا ہے مگر ہزاروں آدمخوروں کے شکنجے میں سسکتی ہوئی بابری مسجد دکھائی نہہں دیتی۔
صحافی سچی باتيں صرف اسی صورت ميں لکھ سکتا ہے اگر معاشرہ اسے قبول کرے اور حکمران جمہوری طريقے سے منتخب ہوئے ہوں ۔ کشمير ہو يا پاکستان اور انڈيا ہوں تو نظرياتی طور پر لوگ مختلف گروہوں ميں بٹے ہوئے ہيں اس ليۓ ہر ايک کو خوش رکھنا بہت مشکل کام ہے ليکن صوفی غلام محمد جيسے اديبوں کی تحريريں معاشرے کی زبوں حالی کی عکاسی ضرور کرتی ہيں۔يہاں ميں عرض کرنا چاہتا ہوں زبانيں ترقی تب کرتی ہيں جب وہ زبان بولنے والا معاشرہ خوشحال ہو اور امن پسند ہو تو باقی قوميں يقينا ان سے لين دين کريں گيں اورزبان عروج پکڑے گي۔ اردو زبان کی ترقی کے ليۓ اور اپنی بقا کے ليۓ دنيا کے ساتھ چلنا ضروری ہے