'شریف النفس'
وہ ملک جہاں لاکھوں کروڑوں بے زمین کسان اور کھیت مزدور ہوں، بلکہ ہزاروں لوگ جبری محنت میں بندھے ہوں اور جہاں محض چند خاندانوں کے پاس ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمینوں کے رقبے اور جاگیریں ہوں وہاں ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک کو 'شریف النفس' قرار نہیں دیا جا سکتا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے پاکستان کے سب سے بڑے جاگيردار کو شخصی طور شریف النفسی کی انفرادیت حاصل ہو تو ہو لیکن سیاسی و اقتصادی طور وہ بھی اس نظام میں غریب مسکین عوام کے جسم پر ایک بڑی جونک ہی تھے۔
یہ تو نواں جتوئی کا پٹواری ہی بتا سکتا ہے کہ وہ زمین کے کتنے رقبے کے مالک تھے لیکن کہتے ہیں کہ سندہ میں ان کی نوے ہزار ایکڑ سے زائد زمین تھی۔ دنیا میں کہیں اور ہو تو ہو لیکن کون کہتا ہے کہ سندھ اور پاکستان میں زمین کا مالک خدا ہوتا ہے۔
ان جاگيروں میں دریائے سندھ کے کنارے دادو ضلع میں کچے کے علاقے میں وہ 'کیٹی جتوئی' بھی ان کی ہی ملکیت تھی جس میں بدنام زمانہ ڈاکو لائق چانڈیو نے مئی انیس سو اکانوے میں اغوا شدہ چینی انجنیئرز یرغمال رکھ کر سندھ میں جام صادق علی حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ جام صادق علی حکومت نے چينی انجنیئروں کی رہائی کے عوض دو کروڑ روپوں سے زائد تاوان کے علاوہ ڈاکوؤں کے مطالبات پر ایک نوجوان کو سندھ پولیس میں اسسٹنٹ انسپیکٹر بھی بھرتی کیا تھا۔ ڈاکوؤں کیساتھ حکومت کے یہ مذاکرات کیٹی جتوئی کے ریسٹ ہاؤس سے خفیہ فوجی ایجنسی کے ایک کرنل اور ایک میجر کی نگرانی میں ہوئے تھے۔
چينی انجنیئروں کو اغوا کرنے والا ڈاکو لائق چانڈیو اس سے قبل ان سندھی قوم پرستوں اور جانو آرائيں سمیت ڈاکوؤں کیساتھ مل کر حیدرآباد سندھ میں تیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کے قتل عام میں شامل رہا تھا جس میں تین سو افراد قتل کیے گئے تھے۔ اس کارروائی کا مقصد ملک میں اعلان شدہ وہ عام انتخابات ملتوی کروانے تھے جو ضیا الحق کی موت کے بعد ہونے تھے۔
کہتے ہیں کہ جانو آرائیں کیٹی جتوئی کی زمینوں پر کبھی منشی رہا تھا۔ لیکن انتخابات ملتوی نہیں ہوسکے تھے۔ ان اتنخابات میں علام مصطفی جتوئی اپنے آبائي حلقے سے بھی ہار گئے تھے۔ لیکن بعد میں انیس سو نوے میں انہیں نگران وزیر اعظم بنایا گیا اور انہوں نے بعد میں کھلے عام اعتراف کیا تھا کہ نوے کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر سرکاری سطح پر دھاندھلیاں ہوئی تھیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستان کے قیام کی ‘دین و ایمان‘ سمجھ کر حمایت کرنے والوں کا بنیادی مقصد ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمینوں کا رقبہ ہتھیانا، ککھ پتی سے لکھ پتی بننے کی سوچ اور جاگیریں حاصل کرنا ہی تھا۔ اس مقصد تک رسائی پانے کے لیے ‘اسلام‘ کا نعرہ انہی لوگوں نے لگایا اور معصوم، سیدھے سادھے، بھولے بھالے، سادہ دل و سوچ کے مالک لوگوں کو ورغلایا اور انہیں ‘قربانیوں‘ کے لیے تیار کیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد زمینوں کی دو نمبر بندر بانٹ بھی اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ پاکستان بنانے کے پیچھے ‘نیت‘ صاف نہیں تھی۔ جناح صاحب اگرچہ فیڈریشن فارمولا کے حامی تھے لیکن ‘ملائیت‘ اور ‘ککھ پتیوں‘ نے مل کر کچھ اس قسم کا کھیل کھیلا کہ جناح صاحب مخصوص سوچ یعنی پاکستان ایک ‘سیکولر‘ ملک ہو گا، کے تحت پاکستان کے قیام پر راضی ہوئے۔ چودہ اگست سنہ سینتالیس کے بعد جب انہوں نے ‘سیکولر‘ پاکستان کی طرف قدم بڑہانا شروع کیا ہی تھا تو ان کی طبیعت ‘اچانک‘ خراب ہو گئی اور کچھ دن بیمار رہ کر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی اچانک موت ایک معمہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا یا حل کرنے نہیں دیا گیا۔ ‘
کم از کم مرنے والے کو تو بخش ديا کريں جناب
آپ نے جو لکھا بالکل درست ہے کيونکہ بندہ جنوبي پنجاب ميں شوگر مل ميں کام کرتا رہا ہے وہاں بھی زيادہ تر يہ ہی صورت حال ہے کہ عام آدمی اور جاگير دار ميں زمين اور آسمان کا فرق ہے۔ ميں نے کئی مزدوروں کو سنگلوں سے بھی بندھے ديکھا ہے اور ان کی عورتوں کی بھی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ايسے ميں کچھ لوگ يا تو خود کشی کر ليتے ہيں يا ڈاکو بن جاتے ہيں۔
ہم غریبوں کیلیے
جاگیرداری کی جونکیں اگر نہیں ہوتپں تو
میں آج وہاں (پاکستان میں) ہوتا۔ چھ زبانیں بولتا ہوں ؛ ہسپانوی، ،عربی،جرمن
انگریزی اور عبنرانی
لیکن جرمنی میں مزدور ہوں۔
یہ ایک چشم کشا بلاگ ہے۔ آپ نے سو فی صد درست کہا ہے۔
ايک سندھی مين کہاوت ہےکہ سندہ آنے والون کي ہے پيدا ہونے والوں کی نہين،سندھ مين بڑے بڑے جاگيردار انگريزوں کے خوشامدی رہے اوراس ميں بہت کم سندھی تھےزيادھ خوشامندی باہر کے تھے اس کمداری مين جاگيريں ان کو مليں سندہ کی حالت يہ ہے کہ اصل سندھيوں کے پاس سندھ کی دس فی صد ايراضی نہیں، سندھ کے علائقوں پہ ان جاگيرداروں نے قبضا کيا ہواہے
کون کہتا ہے کہ پاکستان ميں زمين کا مالک خدا ہوتا ہے ؟- مذاق ميں ہی سہی مگر آپ نے سوال بڑا زبردست اٹھايا ہے اب رہی بات شريف يا پھر شريف النفس لوگوں کی تو کس کی مجال ہے کہ ان کی شرافت پر انگلی اٹھائے؟ اب پتہ نہيں کيوں آپ نے جتوئی کو اپنے کاٹ دار قلم کی خوراک بنانے کا سامان کيا ہے مگر تمام چيزوں کے باوجود بے چارے شريف کہلائینگے۔ -----
جاگیر داری اسی انگریز کا تحفہ ہے جس کی گود میں بیٹھ کر آپ یہ بلاگ لکھتے ہیں۔
آپ شکر کريں دور ہيں ورنہ نہ لکھ سکتے نہ بول سکتے ان جاگيرداروں کے خلاف،عيد مبارک
جنوبی پنجاب میں عام آدمی اور جاگیردار میں فرق کی وجہ تو یہانپر تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہے۔
لیکن حیرانی ہوتی ہے کراچی جیسے شہر میں لوگوں کی حالت زار دیکھ کر۔
وہاں پر تو پڑہے لکھے ہونے کے باوجود لوگ بلیک میل ہور ہے ہیں۔ اور پاکستانی نجی چینلز جو صدر پاکستان تک کو کھلی آزادی سے زیر بحث لاتے ہیں لیکن کراچی میں لوگوں کے حقوق پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی اس موقعے پر جانبدار ہوجاتا ہے۔
ہندوستان کیطرح یہاں زمین کی تقسیم کبھی نہیں ہوسکتی۔ یہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ حکمران ہمیشہ عوام نہیں رہے۔
جاگيرداری کے بارے میں لکھنا اچھی بات ہے، لیکن آپ یہ بتانا بھول گۓ کہ یہ لوگ برطانوی بیٹھکی راج کی کٹھ پتلیاں تھے۔ انگریزوں نے ان لگوں کو اپنی وفاداری اور افرادی قوت فراہم کرنے کے بدلے میں جاگیریں عطا کی تھیں۔۔ مزید برآں ان جاگیرداروں نے جاگيریں اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت کچلنے میں برطانیہ کی مدد کرنے کے صلے میں بھی حاصل کی۔
برائے مہربانی برطانیہ کا ذکر کرنا مت بھولیں۔ میرے خیال میں شاید یہ آپ کے 'مفادات کے ٹکرائو' کے زمرے میں آتا ہے۔
ہاہاہا۔
دينا پڑے کچھ بھی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا