| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کشمیری قیادت واہ واہ

اصناف: ,

نعیمہ احمد مہجور | 2009-12-10 ،14:56

اکثرکشمیری لیڈروں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے اور دوسری یہ کہ وہ قوم کے مقابلے میں اپنی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ میری بات کا یقین نہیں ہے تو موجودہ قیادت کا ایک سرسری احتساب کریں خود یقین ہوجائے گا۔

اِن کی ایک خوبی بھی ہے کہ وہ حالات واقعات کو دیکھ کر ہی اپنا قول وفعل ظاہر کرتے ہیں اور لمحوں میں اپنی سہولت کے مطابق اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں۔ شاید اِس کی بنیاد کشمیر کے مقبول ترین رہنما شیخ عبداللہ نے ڈالی تھی جب انہوں نے تحریک شروع کرکے اسے ایک ایسے انجام تک پہنچایا کہ جس کو دیکھ کر عوام اور خود اُن کے اپنے پیروکار سدھ بدھ کھوبیٹھے۔ الحاق بھارت کااُن کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط یہ عوام ہی بتا سکتے ہیں مگر ایک بات کا اعتراف ضرورکرنا ہوگا کہ کم از کم اُن میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت تو تھی۔
شیخ عبداللہ کے بعد سیاست دانوں کی جو کھیپ آئی اُن کے بارے میں بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
پھر جب عسکری تحریک کے شروع ہونے کے چند سال بعد علہیدگی پسند سیاسی قیادت کا ظہور ہوا تو کشمیری قوم کی ذرا سی ہمت بندھ گئی کہ قوم کو بچانے والے سالارِاعظم آگئے ہیں۔
ہر کسی نے حُریت کی قیادت کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اگر قیادت نے دن کو رات کہا لوگوں نے لبیک کہا، ہفتے میں پانچ روز ہڑتال کرنے کی کال دی تاجر برادری نے آنکھ بند کرکے حامی بھری، حالانکہ تحریک کے نتیجےمیں کشمیری معیشت کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ درگاہ چلو، جلوس نکالو، مارو اور مرو، جو بھی حریت کے رہنماؤں نے عوام سے کہا وہ عوام نے کرکے دکھایا۔
لیکن اس سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوا کہ سیاسی قیادت نے خود کو ناگزیر اور ناقابلِ تسخیرتصور کیا اور اُن کادماغ اُس ہاتھی کی طرح کام کرنے لگا جو بد مست ہوکر ہر دوست دشمن کوکچُلتا ہے۔
نتیجہ یہ ہواکہ حریت ٹوٹ گئی اور مختلف دھڑوں نے الگ الگ مسجد کا اعلان کیا۔ایک دوسرےکے خلاف میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے اپنے پیغامات پہنچاتے رہے خود رُسوا ہوئے اور عوام کو بھی رُسوا کیا۔ حکومت بھارت دور بیٹھ کر مسکراتی رہی۔
ظاہر ہے کہ سیاسی قیادت پر عوام کا اعتباراُٹھ گیا اور وہ مایوسی کا شکار ہوگئے۔ امرناتھ شرائن بورڑ کو زمین دینے کا مسئلہ کیا پیدا ہوا کہ علہیدگی پسند قیادت کو پھر ایک نئی زندگی مل گئی اور یہ اُمید بندھ گئی کہ رہنمائےِ قوم نے کچھ تو سبق حاصل کیا ہوگا اور شاید الگ الگ مسجدوں سے باہر آکر اس مظلوم قوم پر رحم فرمائیں گے۔
حال ہی میں بھارت نے خاموش ڈپلومیسی کا شوشہ چھوڑا تو سیاسی دھڑوں نے ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنا شروع کیا بلکہ ڈھٹائی سے خفیہ اِداروں پر سیاسی قیادت میں پھوٹ ڈالنے کا الزام بھی دے رہے ہیں۔بھارت نے ابھی بات چیت کرنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی کہ کشمیر کے چودھری ڈائیلاگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے لگے۔
حکومت بھارت آج پھر مسکرا رہی ہے جو کام اُسکے خفیہ ادارے یا اُس کی فوج کر رہی تھی وہ خود سیاسی قیادت اب کر رہی ہے اور بھارت کا کام کافی آسان کردیا ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 21:04 2009-12-10 ,ظہير چغتائی :

    کاش يہ نام نہاد راہنما آپ کے بلاگ پڑھ کر کچھ عقل کے ناخن لے ليں اور تفرقہ بازی کو چھوڑ کر ايک متحدہ حريت کانفرنس بنائيں۔

  • 2. 21:28 2009-12-10 ,جاوید گوندل ، بآرسیلونا۔ اسپین :

    کشمیری قیادت سے بحث نہیں۔ وہ مظلوم، بے بس، مجبور اور متواتر آزادی جیسی نعمت سے محروم لوگ ہیں۔ انکی خواب بُنتی آنکھوں کو جہاں سے بھی روشنی کا ہلکا سا اشارہ ملتا ہے وہ سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔ اسمیں قیادت کی معصومیت کا قصور نہیں بلکہ اُس عیاری کا قصور ہے جس سے انھیں ہر نت نئے روز یک نیا لالی پاپ دے دیا جاتا ہے۔
    اصل مسئلہ کشمیر پہ بھارتی قبضہ ہے۔ کہ کیسے کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کریں؟ اور کیونکر کشمیر پہ انھیں سو فیصد اختیار ہو؟ نیز کس طرح کشمیر سے بھارت کا قبضہ ختم ہو؟۔
    آپ نے ایک نان ایشوء کو ایشوء بنانے سے اصل مسئلہ پس منظر گُم کر دیا ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔