کیسا کوپن کہاں کا ہیگن!
ماحولیاتی ابتری سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک نے کوپن ہیگن میں سات دسمبر سے جاری کانفرنس سے قبل دنیا کے باوسیلہ ممالک اور اداروں کی توجہ اپنی ماحولیاتی زبوں حالی کی جانب مبذول کرانے کے لیے طرح طرح کی دلچسپ کوششیں کیں۔ جیسے مالدیپ کی کابینہ کا زیرِ آب اجلاس ہوا، اور نیپال کی کابینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ پر اپنا کانپتا ہانپتا اجلاس کیا۔
پاکستان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار ماحولیاتی زبوں حالی کے سب سے زیادہ شکار بیس ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ لیکن کوپن ہیگن میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر جس طرح کا اطمینان پاکستانی میڈیا اور حکومتی حلقوں میں پایا جا رہا ہے وہ ہمیشہ کی طرح قابلِ داد ہے۔
توقع ہے کہ ایک سو سے زائد ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت کانفرنس کے حتمی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ جبکہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ مندوبین اور ہزاروں صحافی اس کے علاوہ ہیں۔
لیکن اب تک کانفرنس کی کوریج کے لیے کوپن ہیگن میں صرف ایک پاکستانی فری لانسر خاتون انگریزی صحافی موجود ہیں اور وہ بھی وہاں ماحولیات و میڈیا کے اشتراک سے متعلق ایک سکالر شپ کے طفیل ہیں۔ بقول ان کے اس وقت کوپن ہیگن میں سرکاری افسروں، این جی او کارکنوں اور ڈنمارک کے سفارتخانے کی فنڈنگ سے کچھ نوجوانوں سمیت جو چھبیس رکنی پاکستانی وفد کوپن ہیگن میں موجود ہے اس کی قیادت دفترِ خارجہ کے ایک افسر کر رہے ہیں۔ جبکہ وزیرِ ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں طے نہیں ہے کہ ان میں سے کون کوپن ہیگن جائے گا یا نہیں جائے گا۔ اس معاملے میں دفترِ خارجہ سے لے کر کوپن ہیگن میں پاکستانی سفارتخانے تک سب خاموش ہیں۔
صرف ایک پاکستانی چینل نے اب تک یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیرز کتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور سیاچن گلیشیر پاکستان اور بھارت کی فوجی سرگرمیوں کے سبب کیسے آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا اور اخباری فرنٹ پیجز پر کانفرنس کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو ہونا باقی ہے۔ اب تک تو ٹی وی چینلز اور اخبارات پر حسبِ معمول این آر او، بم دھماکے، رحمان ملک، بلوچستان اور کرپشن چھائے ہوئے ہیں۔ باقی جگہ موبائیل فون کے اشتہارات نے گھیر رکھی ہے۔ اس فضا میں کیسا کوپن اور کہاں کا ہیگن!