| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کیا ان دیکھے این آر او بھی ختم ہونگے؟

اصناف:

جاوید سومرو | 2009-12-19 ، 1:58

چند روز پہلے سولہ دسمبر کی شام میں واشنگٹن میں قائم بنگلادیش کے سفارخانے بغیر کسی دعوت کے چلاگیا۔ کسی دوست نے بتایا تھا کہ وہاں بنگلادیشی، پاکستان سے اپنی آزادی کی تقریب منا رہے ہیں۔ پاکستانی کی حیثیت سے یہ خیال مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا کہ کسی نے ہم سے بھی آزادی لی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ انگریزی کی کہاوت میں کہ 'تجسس کی وجہ سے بلی ہلاک ہوگئی تھی' تو میں نے بھی جاکر تقریب دیکھنے کی ٹھانی۔

درجنوں چہچہاتے بچے، عورتیں اور مرد تقریب میں شریک تھے جہاں بنگلادیشی زبان میں ملی نغمے گائے جارہے تھے اور بعض سازندے مختلف سازوں سے سر بکھیر رہے تھے۔

میں نے سولہ دسمبر کے متعدد پروگرام پاکستان میں دیکھے ہیں اور ہر برس تقریباً یکساں قسم کے نکلنے والے اخبارات کے خصوصی شمارے پڑھے ہیں جن میں بنگلادیش کے قیام پر ماتم کے ساتھ ہندوستان کی سازش کو بے نقاب کیا جاتا ہے اور اگر کبھی مقرر یا مصنف کو تھوڑا سا غیرجانبدار بننے کا خبط سوار ہو تو کچھ تنقید بھٹو اور جنرل یحییٰ خان پر کرکے ضمیر کا بوجھ اتارنے کی کوشش کر لیتا ہے۔

لیکن عام طرح ان مظالم سے پہلو تہی کی جاتی ہے جو جنرل ٹکا خان اور جنرل نیازی کی کمانڈ میں بنگالیوں پر ڈھائے گئے۔ بنگلادیشی کہتے ہیں کہ لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا گیا جبکہ تقریباً دو لاکھ بنگالی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اعدادوشمار پاکستانیوں کے لیے شاید متنازعہ ہوں لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اور مختلف غیرجانبدار انسانی حقوق کے اداروں نے جو اعدادوشمار یکجا کئے ہیں وہ پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہیں۔

بنگلادیشی سفارتخانے میں جہاں یہ تقریب ہورہی تھی وہیں ڈھاکے میں قائم جنگی میوزیم سے لائی جانے والی تصاویر کی ایک نمائش بھی چل رہی تھی۔ تصاویر میں بچوں کی سوختہ لاشیں بکھری ہیں، ایک بچے کے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں کٹی ہیں، ایک میں بے نام لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، ایک اور تصویر میں کنویں میں لاشیں پڑی ہیں، ایک اور میں جنسی زیادتی کا شکار عورتیں اپنے مسلمان بھائیوں کے دئے زخم چھپا رہی ہیں۔

میں نے سوچا میں کسی ماں، کسی بچے یا کسی والد سے جاکر معافی مانگوں۔ لیکن پھر مجھے علی محمد ملے۔ وہ تیرہ برس کے تھے جب ان کے خاندان پر قیامت ٹوٹی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک رات فوج ان کے گاؤں میں داخل ہوئی تو ان کا پورا خاندان سہما ہوا گھر میں اللہ سے دعائیں مانگ رہا تھا۔ علی محمد کے والد نے گھر والوں کو تسلی دی کہ گھبرائیں مت اپنی فوج ہے اس سے کیا خطرہ وہ تو ہندوؤں کو تلاش کر رہی ہے۔

لیکن علی محمد کے مطابق ان کے والد کی تسلی ختم ہی ہوئی تھی کہ ان کے گھر کے دروازے پر لات پڑی اور باوردی جوان اندر گھس آئے۔ گھر میں کہرام مچ گیا، عورتوں نے فوجیوں کی منت سماجت کی، قرآن کے واسطے دئے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ علی محمد کے مطابق فوجیوں نے ان کے گھر کے سات مردوں کو (ان کے والد اور چھ چچاؤں کو) گھر سے باہر قطار میں کھڑا کرکے گولیوں کی بارش کر دی۔ سات گرم لہو خاک میں مل گئے۔

علی محمد کی آنکھیں نم ہوگئیں اور شاید میری بھی۔ میں نظریں چرا کر سفارتخانے سے باہر آگیا۔

دوسرے روز میں نے ایک جاننے والے کو یہ قصہ بتایا تو کہنے لگے ہاں یار بنگالیوں پر بہت ظلم ہوئے، انڈین فوج نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ہزاروں پاکستان کے حامی بنگالیوں کو قتل کیا۔

میرا اتنی شدت سے دل چاہا کہ اس کو ایک زوردار تھپڑ ماروں (نہیں چماٹ ماروں، کیونکہ جو تسکین چماٹ مارنے سے ملتی ہے وہ تھپڑ میں کہاں)۔

اسی وقت ایک موہوم سی خواہش نے بھی دل میں جنم لیا کہ اب جب ملک سے بدعنوانی اور ظلم کو ختم کرنے کا بیڑہ سپریم کورٹ نے اٹھا ہی لیا ہے تو کیا ہی اچھا ہو اگر بنگالیوں پر مظالم کرنے اور ملک توڑنے والوں کو ان دیکھے اور ان لکھے این آر او سے دی جانے والی معافی کو بھی آئین اور قانون سے متصادم قرار دے دیا جائے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 2:56 2009-12-19 ,ظہير چغتائی :

    بہت دور کی کوڑی لائے ہو صاحب!
    ويسے ايسا ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہيں۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ بس بلاگ رکھتے رہيے اور باقاعدہ۔ يہ نہيں کہ آج لکھا، پھر سال کے بعد صورت دکھائي۔

  • 2. 7:42 2009-12-19 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ‘فوج حق کو کچل نہیں سکتی
    فوج چاہے کسی یزید کی ہو
    لاش اٹھتی ہے پھر عَلم بن کر
    لاش چاہے کسی شہید کی ہو‘

  • 3. 9:07 2009-12-19 ,Ghalib Ali :

    آہ ! کيوں پرانا درد جگاتے ہو بھئي؟ کوئی ہے جو روک سکے جو اب ہو رہا ہے يا ہونے جا رہا ہے- پھر نئے دکھ کی تياری کرو اور نئی صبح کے خواب بناؤ-

  • 4. 9:22 2009-12-19 ,ساحر خان :

    آپ اين آر او کی بات کر رہے ہيں جبکہ وہاں انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگير کو برا لگا کہ کيوں سپريم کورٹ نے اس يکطرفہ اور کرپٹ لوگوں کو معافی نامے کو ختم کروا دياـ وہ بھول گئ ہيں کہ يہ اين آر او کوئ پارليمنٹ کا بنايا ہوا قانون نہيں بلکہ ايک ڈکٹيٹر کا بنايا ہوا آرڈيننس تھا جس کے ذريعے بڑی مچھليوں کو بچايا گيا تھا- اب بنگلہ ديشی بھائيوں کی بات اگر ايسا ظلم ہوا جو آپ نے بيان کيا ہے تو بہت برا ہوا ہے اور جنہوں نے کيا تھا اگر وہ زندہ ہيں تو انکو سزا ملنی چاہيۓ اور اسکی تلافی متاثرہ خاندانوں کو مالی معاوضہ بھی ادا کيا جاۓ اور اسکے ساتھ ساتھ بنگلہ ديش ميں پھنسے ہوۓ پاکستانيوں کو واپس لايا جاۓ-

  • 5. 11:29 2009-12-19 ,faizan siddiqui :

    ”بنگاليوں کو دو دن ميں سبق سکھا دونگا” يہ الفاظ ٹکا خان نے نہيں اس کے بھوت نے ادا کۓ تھے- بنگلا ديش کی اجتمائ قبريں فوجيوں نے نہيں بھريں تھيں بلکہ مرنے والوں نے خدکشی کرلی تھي- اور کيا کيا لکھوں کہ سولہ دسمبر کے شماروں ميں لکھی بکواس پڑھنے کے بعد بے حد بھرا ہوا ہوں - يہ آپ کا احسان ہے کہ يہاں ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع فرام کيا-
    جناب اعلی بھٹو شہيد پر الزام دھرنے والے حالات و واقعات کا علم ہی نہيں رکھتے ورنہ جس قسم کا تحقير آميز رويہ ايوب خان اور صوبہ بپنجاب نے بنگاليوں کے ساتھ اپنايا تب ہي ان کی اور ہماری راہيں جدا ہوگئيں- بعد ميں رہی سہی کسر یحییٰ خان نے پوری کردی تاريخ بتاتی ہے کہ جيسے جيسے وہاں حالات بگڑے اس کی کراچی ميں عياشياں بھی بڑھيں- سولہ دسبر آيا تو بی بی سی کی ان دنوں کی قيمتی ويڈيو چلاکر ديکنے لگا - جب ہندوستان کی فوج کے کھلکھلاتے چہروں کے سامنے ہمارے فوجيوں نے اپنےہتيار ڈالے تو يقين جانيے آنکھوں سے آنسو رواں ہوگۓ ايسے محسوس ہوا کہ جيسے ان فوجيوں نے ميرے منہ پر ”چماٹ” رسيد کرديا ہے - کاش کہ يہی تکليف ہماری عدليہ ، ہماري فوج اور ہماری عوام بھی محسوس کرے-

  • 6. 13:56 2009-12-19 ,sajjadul hasnain syed :

    جناب جاويد صاحب حقيقت کو جاننے کے لءے جگر چاہيے ہوتا ہے سچ کو جاننا اس کا سامنا کرنا اور پھر اسے بيان کرنا دل گردے کا کام ہے اور يہ آپ نے کر دکھايا ہے ايز اين انڈين نہيں بلکہ ايک غير جانب دار قاری کی حيثيت سے ميں نے يہ بات کہی ہے -

  • 7. 15:02 2009-12-19 ,Kashif Hussain :

    جاوید سومرو صاحب

    عنبر خیری کابلاگ نظر سے گزرا چند جملے پڑھے ( مقدمہ سازی کی قیمت )سپریم کورٹ کا فیصلہ اصولی اور اخلاقی طور پر بجا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں جانا کبھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے اور اسی لیے مقدمہ سازی کو دشمنیوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔یہ نہ صرف انتہائی مہنگا عمل ہے بلکہ یہ عملی طور پر اتنا طویل بھی ہوتا ہے کہ اس سے ملزم مالی اور ذہنی لحاظ دونوں سے تباہ ہو سکتا ہے۔سیاستدانوں نے بدعنوانی ضرور کی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف مقدموں کا فیصلے دس سال سے زیادہ عرصے میں کیوں نہیں ہوتا؟ یا تو سیاستدان انہتائی چالاک ہیں، یا پھر عدالتیں حکومت وقت سے انتہائی خوفزدہ رہی ہیں یا پھربہت ہی تابعدار۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ صحیح بات ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔ اور این آر او پر عدالتی فیصلے کے بعد غور طلب یہ بات بھی ہے کہ پاکستان میں یہ کیوں ہوتا ہے کہ بار بار ایک ہی جماعت یا سوچ کے لوگ اس مقدمہ سازی کا نشانہ بنتے ہیں؟
    کیا باقی تمام سیاستدان بہت معصوم اور شریف ہیں؟

  • 8. 15:37 2009-12-19 ,مصد ق خا ن ميا نو ا لی :

    سو ا ۓ شر م ا و ر د کھ کے ا حسا س کے علا و ہ کيا کھا ا و رکيا جا سکتا ھے„„
    ا و ر ا ب بھی وہی حا لت ھے„„„
    ھر شا خ پہ ا لو بيٹھا ھے
    انجا م گلستا ن کيا ھو گا„„„

  • 9. 16:54 2009-12-19 ,محمد ہارون :

    يہ صحيح ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگاليوں پر بہت ظلم کيا جيسا کہ وہ آجکل اپنے ہی قبائلی علاقوں ميں کر رہی ہے ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ بنگاليوں کے ايک گروپ مکتی باہنی نے غيربنگاليوں اور پاکستان کے حامی بنگاليوں پر بہت ظلم کيا - دونوں کو ايک دوسرے سے معافی مانگی چاہيے - کسي بھي اچھے نامہ نگار کو حقيقت سے منہ نہ چراتے ہوۓ اپنے جذبات کو قابو ميں رکھتے ہوۓ لکھناچاہيے - اس وقت فوج بھی آپ کی طرح جذبات ميں بہہ گئ جيسا کہ تم نے کہا ”میرا اتنی شدت سے دل چاہا کہ اس کو ایک زوردار تھپڑ ماروں” - ظلم ظلم کا جواز نہيں بن سکتا-

  • 10. 6:29 2009-12-20 ,sana khan :

    ،بنگلاديش تو گيا اب ان چار نھنے سنبھالوں پاکستان کے اور پليز بی بی سی اينٹی اين آراوپن مزيد نہ پھيلايئں بات ہوتی کياہے اور اس ميں آجاتاہے اين آر او پچاس سال بعد تو عدليہ جاگی ہے حوصلہ افزائ نہيں ہوسکتی تو کيڑے نہ نکاليں

  • 11. 7:33 2009-12-20 ,محسن حجازی :

    مجھے یہ بتائیے کہ جب محض ایک این آر او ختم ہونے پر اس قدر شور و واویلا ہے، آپ ہی کی صحافتی برادری کے لوگ بھی چیخ رہے ہیں، عدالتی دہشتگردی قرار دیا جا رہا ہے تو فرمائیے کہ یہ سارے این آر او کالعدم قرار دیئے جائیں تو کہاں کہاں سے آوازیں نہیں اٹھیں گی؟

  • 12. 10:10 2009-12-20 ,Furqan Awan :

    جناب بہت خوب لکھا ہے، دیکھیں جب بنگلادیش آزاد ہو گیا ہے تو آبہ رونے کا کیا فایدہ ہمیں باقی بچا ملک پاکستان بچانا ہے .

  • 13. 2:20 2009-12-22 ,ڈاکٹر غلام شبیر رانا :

    ميں تو ہر طرح کے اسباب ہلاکت ديکھوں
    اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت ديکھوں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔