| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جج، جنرل اور زرداری

اصناف: ,,

حسن مجتییٰ | 2009-12-21 ،12:24

مانا کہ وہ شخص سولہ کروڑ لوگوں میں واحد بدعنوان سیاستدان ہے اور قابل گردن زنی ہے۔ لیکن یقیناً اس کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے اگر وہ اپنے اقتدار کے پہلے ہی دن تمام معطل شدہ جج بحال کر دیتا۔

اسے اور اس کے ساتھیوں اور پارٹی کو 'ماب لِنچِـنگ' کا سامنا نہ کرنا پڑتا اگر وہ کشمیر میں 'گھس بیٹھیوں' کو دہشت گرد قرار نہ دیتا، بھارت کے ساتھ دوستی کی باتیں نہ کرتا۔۔۔ کہتے ہیں ممبئي حملے اس کی ہندوستان پالیسی کا، اس کو، اسٹیبلشمینٹ کی طرف سے جواب تھا۔ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمینٹ سے اسی آنکھ مچولی میں بینظیر بھٹو ماری گئیں۔

وہ پھر بھی بچ جاتا اگر وہ کیری لوگر بل میں وہ شقیں نہ ڈلواتا جن شقوں کا براہ راست تعلق فوجی مداخلت روکنے یا اس سے مشروط غیر فوجی امداد سے تھا۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ، 'مگر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ہے۔۔۔' اسٹیبلشمینٹ اس کے خلاف نعرہ مار کر میدان میں اتر آئي ہے 'زرداری نہ کھپے۔۔۔' بقول میرے دوست کے کیا کسی نے کبھی کیانی اور جنرل شجاع پاشا کےاستعفوں کا بھی مطالبہ کیا ہے؟ یہ لوگ بھی تو این آر او کے سٹیک ہولڈر تھے نہ؟

آصف علی زرداری ساڑھے آٹھ سال تک بدعنوانی، قتل اور ڈاکوں کے مقدمات میں جیلیں کاٹتے رہے اور بینظیر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑ کر کبھی احتساب عدالتوں تو کبھی لانڈھی اور سینٹرل جیل کراچي کے پھاٹکوں پر دھکے کھاتی رہی۔

سندھی میں کہاوت ہے،

'ہم نےنہیں مارا کالے کتے نے مارا
کالا کتا جیل میں ہم سارے ریل میں۔۔۔'

ایک جج کو جام صادق علی نے شوگر مل کا پرمٹ جاری کیا تھا جس نے آصف علی زرداری کی ضمانتوں کی درخواستیں مسترد کی تھیں اور اسی سب انسپکٹر کو ایس پی اور ڈی آئی جی تک ترقی دی جس نے زرداری پر سی آئی سینٹر کراچي میں جسمانی و ذہنی تشدد کا ٹھیکہ لیا تھا۔

مئي انیس سو اٹھانوے میں جب حیدرآباد سندھ میں تربت بلوچستان سے پی آئی اے کے جہاز کی مبینہ طور اغوا کی کوشش ناکام ہوئی تھی تو تب نواز شریف کی حکومت تھی اور آصف زرداری جیل میں تھے۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سےحیدرآباد میں تب کے ایک سینئر پولیس افسر کو فون آیا تھا کہ ہوائي جہاز کی ایف آئي آر میں آصف علی زرداری کا نام ڈالا جائے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:26 2009-12-21 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    معروف فلاسفر خلیل جبران ایک جگہ لکھتے ہیں ‘ سزا اس کے لیے ہے جو جُرم کرے۔ لیکن سزا وہ دے جس نے وہی جُرم خود نہ کیا ہو۔ مسیح نے کہا پہلا سنگ وہ چلائے جس نے بدکارہ جیسا جُرم نہ کیا ہو اور پہلا پتھر کہیں سے نہ آیا‘۔ لکھنے کا مقصد یہ کہ عدلیہ پہلے خود کو ‘پاک صاف‘ کرے اور اپنا ‘احتساب‘ شروع کرے تو یہ دوسروں کا احتساب کرتی اچھی لگتی ہے۔ ‘این آر او‘ کالعدم کرنے کے بعد سیاستدانوں کا ‘احتساب‘ تو بحال ہونے والی عدلیہ نے شروع کر دیا ہے۔
    ایک بات اور قابلِ غور ٹھہرتی ہے کہ ‘این آر او‘ سے مستفید ہونا اور ‘ایل ایف او‘ پر حلف اٹھانا میں اُنی وی سے زیادہ فرق نہیں۔ بلکہ یہ دراصل ایک ہی چیز ہے۔ لہذا اگر ‘این آر او‘ کا مردہ اکھاڑا جا سکتا ہے تو پھر ‘پی سی او‘ اور ‘ایل ایف او‘ کا مردہ اکھاڑنے میں تامل کرنا ڈنڈی مارنے کے مترادف ہے۔
    عرصہ تیس سال گزر جانے کے باجود ابھی تک پنجاب کے استعمار کے پنجرے تک محدود ن لیگ، رنگ میں بھنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والی جماعتِ اسلامی، نو مولود تحریک انصاف اور انہی جماعتوں کے سپورٹر چند کالے کوٹ والوں نے ‘سیاسی کندھا‘ دے کر اور میڈیا نے بانس کو شہتیر بنا کر معطل عدلیہ کو بحال کروایا۔ پاکستان کو ‘عالمی سامراج‘ کے شکنجے سے بچانے کے لیے سیاستدانوں کی گذشتہ نو سال کی تمام تر کوششوں کو، انکی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو، انکے ‘ممبئی دہشتگردی‘ پر ‘ردِعمل‘ کو اور پاکستان میں ‘یکجہتی‘ کی فضاء کو جو کہ یقینی طور پر پاکستان ‘سلامتی‘ کے لیے اولین شرط ہے اور یہ اس لیے بھی مزید اولین شرط ٹھہرتی ہے جب دیکھتے ہیں کہ افغآنستان میں تیس ہزار اتحادی فوج کی آمد کا اعلان ہو چکا ہے، اس نو سال کے ‘اثاثہ‘ کو مٹی میں ملانے کے لیے ‘این آر او‘ کا مردہ اکھاڑا گیا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی ‘خفیہ ہاتھ‘ جمہوریت پر ڈاکہ ڈلوانا چاہتا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو سیاسی طور پر توڑنا چاہتا ہے۔ ‘این آر او‘ اوپن کرنے کے پیچھے جو سازش کارفرما معلوم ہوتی ہے اس میں یہ دکھانا مقصود ہے کہ ملک کے ‘خیرخواہ‘ اصل میں ملک کے ‘دشمن‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ کرپٹ، بلووں، فوجداری کیسوں میں ملوث جیسے ‘ملزم‘ سیاستدانوں کی باتوں کو کون مانے گا؟ ‘این آر او‘ کا ‘ری اوپن‘ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت فراڈی، ملک دشمن، عوام دشمن، دھوکے باز، کرپٹ، ملزم، جھوٹی، اور ڈرامہ باز ہے لہذا اسکا کوئی بھی فعل ‘سچ‘ نہیں ٹھہر سکتا، اگر یہ کہتی ہے کہ ‘القاعدہ‘ کی قیادت پاکستان میں نہیں ہے تو جھوٹ ہے، ‘اسامہ‘ پاکستان میں ہی ہے؟ اگر یہ کہتی ہے کہ وزیرستان میں ملٹری اپریشن کامیاب ہے تو درست نہیں ہو سکتا کیونکہ کہنے والے تو خود دھوکے باز، چور اچکے ہیں؟ لہذا وزیرستان آپریشن حکومت کی معیاد پوری کرنے کا ایک ‘ڈرامہ‘ ہے، اس لیے وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف اپریشن کرنے کے لیے امریکی فوج کو آنا چاہیے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • 2. 13:58 2009-12-21 ,ربڈنو شر کراچي :

    ابھی انکو کون سمجھائے کہ يہ لوگ کيا چاہتے ہيں جج کونسے پاک ہيں انکا احتساب کون کرے

  • 3. 15:02 2009-12-21 ,شہريار :

    سلام سا ب جی ساب جی کبھی باکستان کے حق ميں بھی لکھ ديا کريں

  • 4. 15:03 2009-12-21 ,راجہ اکرام :

    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
    اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور حکومت میں آصف علی زرداری کو بالخصوص اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بالعموم اس دیس کی مقبول ترین پارٹی بننے کے بے شمار مواقع ملے لیکن ذاتی مفاد کی فکر اور دور اندیشی کی کمی نے انہیں کچھ نہ کرنے دیا، اور وہی سنہری مواقع ان کے لئے یوم سیاہ بن گئے۔ ججوں کی بحالی، مشرف کا موخذہ، این آر اور کا خاتمہ ان میں سے چند ایک ہیں۔ یہ سارے کام صدر صاحب کر کے ہیرو بن سکتے تھے لیکن نہیں بن سکے۔۔اب آخری چیز ان کے پاس ہے سترہویں ترمیم۔۔۔ ہوگا اس کا بھی وہی حشر کیوں کہ پی پی پی ابھی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
    اب بھی اگر این آر او زدہ وزراء کو وقتی طور پر مستعفی کر کے عدالتوں کے سامنے پیش کر دیں تو کچھ ساکھ برقرار رہ سکتی ہے، ورنہ رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔
    اور اسٹیبلشمنٹ تبھی منہ زور ہوتی ہے جب حکومت عوامی تائید سے محروم ہو چکی ہو۔ اب یہ تائید کیسے حاصل کرنی ہے یہ سوچنا صدر اور پی پی پی کا کام ہے۔

  • 5. 15:15 2009-12-21 ,مصد ق خا ن ميا نو ا لی :

    ایکن ا ب سب کچھ ايک رخ سے ديکھنے سے تومعلو م نھيں ھو تے„„آ پ کی ھمد رد يا ں! بے چا ر ے ا ب اتنے اجلے ا و ر پا ک د امن تو نيہں „„„ٹھيک ھے الز ا ما ت گھڑ ے بھی گۓ ھيں„„„آ جکل آپ کو کچھ زیادہ ہمدردی نہیں ہورہی ہے محترم صدر سے؟

  • 6. 16:10 2009-12-21 ,ثنا خان :

    استغفراللہ يقين نہيں آرہا کہ ہی بلاگ آپ نے ہی لکھا ہے،سوچ ليں پہلے کہ آپ نے اينٹی ذرداری آگے ہونا ہے کہ نہيں،چلو اين آراو کی وجہ سے آپکا سندھی جاگ ہی گيا ،زرداری مظلوم ہےکہ ظالم؟ پہلے آپ صحافی بھائی لوگ تو ايک بات پر متفق ہوجائیں تاکہ پڑھنےوالے بھي اپنا ذہن بناليں

  • 7. 17:59 2009-12-21 ,اشتیاق احمد :

    حیرت ہے آپکی آنکھیں دیر سے کھلی۔ یہ ججز ہوں +جنرل یا نواز شریف۔۔۔ یہ سب اس ٹولے کا حصہ ہیں جس نے ہمیشہ غیر پنجابی حکومتوں کی گردن زنی کی ہے۔آپ نے آمریت فوج میں اورسیاست میں سنی تھی۔ ایک اور آمریت کا اضافہ کرلیں اپنی لغت میں اور وہ ہے عدالتی آمریت۔ یہ انصاف نہیں ہوا ہے ذاتی انتقام لیا گیا ہے۔وقت اور تاریخ
    اپنے آپکو دہراتے ہیں۔
    این آر او کے فیصلے سے پی پی پی اور مضبوط ہوئی ہے۔ آپ کو ہنسی آرہی ہوگی لیکن وقت اسکو ثابت کرے گا۔ آخر میں سرور بارہ بنکوی کا شعر
    دم بخود ہوں اب سر مقتل یہ منظر دیکھ کر
    میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صف قاتل میں ہوں۔

    .

  • 8. 18:11 2009-12-21 ,‎‎شازیہ راولپنڈی :


    قاضی حسین احمد ہو یا پھر لشکر طیبہ کے امیر حافظ محمد سیعد انہوں نے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر اربوں روپے کشمیر کے جہاد کے نام پر اکھٹے کئے لیکن آج تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنی رقم اکھٹی کی اور کہاں خرچ کی۔
    کیا یہ بتائیں گے کہ کس کشمیری نے ان کو یہ حق دیا تھا کہ یہ ان کے نام بھیک مانگيں۔ کیا یہ خاندان کشمیر میں بتا سکتے ہیں جس کی انہوں نے کوئی مدد کی ہو۔
    ان سےکوئی حساب کیوں نہیں لیتا۔ جماعت اسلامی کا بنگلہ دیش کی علحیدگی کے وقت کردار کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
    بنگالی خواتین کی عصمت دری کی گئی وہاں لوگوں کا قتل عام ہوا اور جماعت اسلامی اس میں برابر کی شریک رہی۔ آج تک قاضی حسین احمد یا موجودہ امیر جماعت اسلامی یا ان کے پیشرو پاکستان کی فوج کے اس ایکشن کی حمایت کرتے رہے۔
    خیر پتہ نہیں جماعت اسلامی کے لوگ کون ہیں؟ یہ وہی بتاسکتے ہیں ان کی سیاست انسانیت کے خون سے بھرپور ہے۔
    پاکستانی میڈیا کے ایک سیکشن کا رول تو بہت ہی گندہ ہے اور صرف ایک جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور بعض انکرز کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ جنت سے آئے ہیں اور وہ سب سے اعلیٰ ہیں۔ مگر ان کو صحافت کی الف ب بھی نہیں پتہ۔ جب وہ کسی ٹاک شو کو ماڈریٹ کررہے ہوتے ہیں تو ان کے روئے سے لگتا ہے کہ بس ان ہی کے دم سے دنیا قائم ہے۔ اٹ از شیم

  • 9. 18:35 2009-12-21 ,عمر :

    جناب جج اس نے بحال نہيں کيے اس سےکرواۓ گئے - کرپٹ تو سارے سٹيک ھولڈرز ہيں ليکن زرداری صاحب سواری کرتے ہوۓ مڑ کر بھی نہيں ديکھتے- بےنظير کے بچوں کا بڑا خيال ہے اور قوم کے بچے جو راتيں بھوکی پياسی رو رو کر گزارتے ہيں ان کی خير ہے- ان کی بھوک پياس کی وجہ يہی بےنظير کے بچوں کے والد صاحب ہيں

  • 10. 18:41 2009-12-21 ,نذیر بلوچ :

    میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کہاں سے شروع کروں۔ میرے خیال میں ہر کوئي پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کچھ کہہ یا لکھ سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں
    اس بحران کے وقت جس پر پاکستان آج کھڑ ا ہے اس میں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم لوگ سندھی، پنجاب، بلوچ یا پختون ہوکر کسی کی
    طرفداری نہیں کر رہے۔
    جس کسی بھی شخص نے کوئی جرم کیا ہو اسے عدالتی کٹہرے میں آنا چاہیے

  • 11. 19:24 2009-12-21 ,شیری شمسی :

    جناب مجھے تو کچھ بدلا نہیں لگتا، وہی پرانی کہانی جو ہر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف دہرائی جاتی ہے- پہلے 'سرے محل' کا راگ الاپا جاتا تھا اب این آر او کی باری ہے - کرپشن کس ملک میں نہیں ہے، اس نظام میں اسکا خاتمہ نا ممکن ہے، اور نظام کی تبدیلی کے بغیر کرپشن کے خاتمے کی بات کرنا، کھُلے عام دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔

  • 12. 19:29 2009-12-21 ,رومی :


    بھائي ہم سب جانتے ہیں کہ آپ پیپلزپارٹی کے ہمدرد ہیں ۔مگر پہلے خیری صاحبہ اور اب آپ بھی کھل کے زرداری صاحب کو بچآنے کیلیے میدان میں آگئے ہیں۔

  • 13. 6:23 2009-12-22 ,ملک :

    آصف زرداری کی مظلومیت اپنی جگہ پر، اور دوسروں کا ظلم اور کرپشن روز روشن کی طرح عیاں، مگر کیا بہتر نہ ہوگا کہ جناب صدر محترم ان مقدمات کا سامنا کریں اور بری ہوجائیں اور سب کو منہ توڑ جواب دیں۔ اور اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پی پی پی پی نے اپنا کرب و بلا تو کھول ہی رکھا ہے۔ ویسے تو پی پی پی پی فیڈریشن کی علامت ہے مگر سندھ اور اسکی مظلومیت کا ڈھول بھی ساتھ رکھتی ہے۔

  • 14. 6:50 2009-12-22 ,احمد سید :

    شاید پاکستان کی تاریخ کے یہ دو طبقات ہیں جنکی وجہ سے ہمارے حالات یہناتک پہونچ گۓ ہیں۔..
    یہ ساری لڑائي زرداری سےنہیں اپنے مفادات کی ہے۔ ان دونوں اداروں نے آجتک جو بھی فیصلے کیے انکی وجہ سے ہمیشہ کنفیوزن پیدا ہوا ۔ یہ لوگ اپنے گٹھ جوڑ سے , کسی کو لٹکاتے ہیں، باہر بھیجتے ہیں، یا ملک میں آنے نہیں دیتے۔
    یہ بات نہ کسی میڈیا کو دکھتی ہے نہ کسی منصف کو نظر آتی ہے۔یہ وہی راگ الاپتے ہیں جسکا انہیں حکم ہوتا ہے ۔ اور معصوم عوام اپنے مسائل میں گھرے ہیں۔ نہ جانے کب کوئي مسیحا آئے گا جو انکو بھی سنے گا۔ بقول شاعر
    ' ہم نے دیکھا ہے بہاروں کو چمن میں جلتے
    ہے یہاں کوئي اس باغ کی تقدیر بدلنے والا؟

  • 15. 6:51 2009-12-22 ,سلمان :

    واہ حسن مجتبی واہ کیا بات کی ہے زرداری صاحب کی دوراندیشی کے بارے میں ۔ کیا حقیقت بیان کی ہے اس مرد مومن کیخلاف سازشیں کرنے والوں کی۔, واقعی جب کسی نے اس ملک میں نعرہ حق لگایا ہے اسٹبلشمینٹ نامی ایک جماعت نے اس کا راستہ روکا ہے۔۔۔۔کوئی کپھے نہ کھپے زرداری ضرور کھپے۔۔۔ کیا ہوا مرد مومن کے ہاتھ پر مبینہ اغوا اور ڈکیتی کے کیسز تھے؟کیا ہوا اس بیچارے کے پاس مبینہ چند بیلین ڈالرز ہیں۔ کھپے کھپے زرداری جیئے جیئے زرداری

  • 16. 9:20 2009-12-22 ,ممتا‍ز علی :

    کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سب پاکستانی اقتدار کیلی ایک دوسرے سے نفرت کرنا چھوڑ دیں، اور صرف پاکستان کی بھلائی کا سو چيں،اور پاکستان کیلیے کام کریں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو ہمیں کوئي نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ یہ راستہ صرف بربادی کی طرف جاتا ہے۔

  • 17. 12:32 2009-12-22 ,مقبول چنہ :

    وہ شخص آصف علی زرداری جن پرمبینہ بدعنوانی، قتل اور ڈاکوں کے الژامات تھےفوجی اسٹیبلشمینٹ کی تائید سے صدر بن گئے

  • 18. 12:35 2009-12-22 ,محمد طاہر :

    اسٹبلشمینٹ اور سیاستدان سب کرپٹ ہیں۔ یہ ملک بس اللہ کے آسرے چل رہا ہے۔ ورنہ یہ میڈل نہ سیاستندانوں اور نہ اسٹبلشمینٹ کو جاتا ہے۔
    بس جس کو جیسا موقع ملا پاکستان کا بیڑہ غرق کیا۔

  • 19. 13:04 2009-12-22 ,ہلال احمدابوظھبی :

    یہ تو ايسا ہے کہ ”سب چوروں کو پکڑو ورنہ اس کو بھی چھوڑو۔”

  • 20. 17:57 2009-12-22 ,لبنا مرزا :

    ہم نے سنا ہے کہ تاریخ ایک نہ دوسری طرح اپنے آپکو کو دہراتی ہے۔ پاکستان میں آجکل وہی ہورہا ہے۔ یہ بار بار تبتک ہوتا رہے گا جبتک ہم سب ایک اکائي اور یک آواز بنکر نہیں سوچتے۔ وگرنہ ہم اپنی زندگی اور سماج میں تنزل کا شکار ہوجائيں گے۔
    اس سے کیا ہوگا اگر زرداری کل اپنے عہدے سے ہٹ جائے، تو اسکی جگہ حکومت میں کوئی
    اور آ جائیگا۔ تبتک کچھ بھی نہیں ہونے والا جبتک ہم کوئی مختلف کام نہ کریں، کچھ مختلف فلسفے کو نہ سوچيں۔
    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔
    اسی طرح زرداری تاریخ میں کوئي بیگناہ شخص نہیں ہے، قطع نظر اسکے وہ دوران قید کن مصائب سے گزرا تھا۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ زرداری تالی بجانے کیلیے ایک ہاتھ ہے۔ سوچیں کہ دوسرا ہاتھ کون ہے؟میرا مطلب کہ ہمارے سماجی، سیاسی ا اور انصاف کے نظام میں کوئي پکڑ پوچھ یا 'چیک اینڈ بئلینس 'سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہمیں کرنا کیا چاہیے ،ہمیں ایک دفعہ اس حکومت کو اپنی معیاد مکمل کرنےدینا چاہیے ۔ اور اسکے بعد ہرکسی کو اسکے عہدے اور تعلقات کے قطع نظر عدالت قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔'


  • 21. 19:05 2009-12-22 ,زرقا مفتی :

    اس ملک میں لاکھوں بے نظیریں اپنے ننھے منے بچوں کی انگلیاں پکڑے عدالتوں کے چکر کاٹتی ہیں۔ آصف زرداری اگر پاکستان کے ہمدرد ہیں تو اپنے اثاثے پاکستان واپس لائیں۔ اور صرف آصف زرداری ہی کیوں تمام شریفین بھی ایسا ہی کریں۔ عدالتیں اگر آزاد ہیں تو سب کے کیس کھولیں سب کا احتساب ہونا چاہیے
    جو سب سے بڑے عہدے پر ہے وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے

  • 22. 17:03 2009-12-23 ,بريرو دبی :

    مشرف کو نو سال برداشت کيا پاکستانی قوم نے اور ضيا کو آٹھ سال تک ۔ ليکن جب پی پی پی آتی ہے تو سب شروع ہوجاتے ہيں کہ نہيں چاہیے۔ کيوں کيا زرداری انڈين ہیں؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔