کرسمس ، ٹرکی اور تحائف
یوروپ کی ایک بڑی خوبی تھی کہ یہاں کے لوگ کرسمس کو ہمیشہ روایتی انداز میں دل وجان سے مناتے اور خوب لُطف اٹھاتے تھے اور اِس تقریب میں ایک تقدس ہوتا۔ شاید یہ اتنے ماڈرن نہیں تھے اور بیشتر خاندانوں کو مذہب یا مذہبی اقدار کا لحاظ تھا۔
موجودہ دور میں اب تقریباً دو ماہ پہلے سے ہی بازاروں کی سجاوٹ اور خریداری شروع ہوجاتی ہے۔ اس موقع پراہل خانہ جمع ہوکر خوب کھانا پینا اور موج مستی کرتے ہیں۔ اتنا پیتے اور پلاتے ہیں کہ این ایچ ایس کی اس دباؤ کے نتیجے میں کمر جُھک جاتی ہے۔
اِن کی ایک بات مجھے انتہائی عزیز ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اہل خانہ مل کر نئے سال کے لئے ہدف مقرر کرتے تھے یعنی پورے سال کا روڈ میپ مرتب کرتے ہیں۔ کچن بنانے سے شادی کرنے کے تمام منصوبے تحریر کرکے رکھتے اور یقین مانیے ہر فرد روڈ میپ کے تحت اپنی زندگی گزارتا اور اس کے مطابق اپنے شب وروز ترتیب دیتاتھا۔
یوروپ میں رہ کر میں نے بھی اِن کی کتابوں کا مطالعہ کرکے روڈ میپ مرتب کرنے کی جرات کی تھی مگر ہر مرتبہ بڑی اماں کے الفاظ کانوں میں گونجتے کہ ہماری زندگی کا پورا پلان اللہ مرتب کرتا ہے ہمیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مرتبہ بیٹے نےبڑ ی اماں سے پوچھا کہ چھت سے بارش کاپانی ٹپک رہا ہے چھت کی تعمیر ضروری ہے۔ اماں نے جواب دیا جب اللہ کو منظور ہوگا خود ترکھان آکر چھت ٹھیک کرے گا۔ کئی ماہ تک ترکھان نہیں آیا اور تیز بارش کے بعد چھت نیچے آکر گرپڑا۔ بیٹے نے بڑی اماں کو ٹوک کر کہا میں نے کہا تھا کہ چھت کو ٹھیک کروائیں تو اماں نے جواب دیا کہ جب اللہ کو منظور ہی نہیں تھا تو میں کیا کرتی۔
میرا اس بات پر پکا ایمان ہے کہ دنیا کی ہر شے اللہ کی بدولت چلتی ہے مگر اللہ نے ہی اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لئے ہمیں نہ صرف مواقع فراہم کئے بلکہ عقل بھی دے دے رکھی ہے تاکہ اپنے مستقبل کو سنوار سکیں۔ شاید عید کرسمس دیوالی اور سبتھ جیسے مذہبی تہواروں کو اہل خانہ کے ساتھ منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے اندر جھانک کر نہ صرف اپنا احتساب کریں بلکہ اس کی روشنی میں مستقبل کا بلیو پرنٹ بھی تحریر کریں۔ لیکن ایسا اب محال ہی ہوتا ہے یوروپ والے اتنے رسمی بن گئے ہیں کہ کرسمس اب ٹرکی کھانے اور تحفوں کے تبادلے کے سوا اور کچھ نہیں رہا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
شا يد آپ کا کہنا درست ہے۔ اب ھر مذ ہب کے ما ننے وا لے اپنے مذ ہب ا ور اسکی رو ح کو سمجھ ہی نہيں پاۓ۔ lيکن آپ کا پو ائنٹ بلکل ويلڈ ہے۔ اچھا نقطہ اٹھايا ہے۔
آداب عرض! جس طرح ‘ملائیت‘ اسلام کی حقیقی روح سے غافل ہے اور اسلام کو محض خیالوں، بیانوں، مناظروں، ٹیلیفونک خطابوں، سزاوں اور فتوؤں کا مذہب سمجھتے ہوئے اور مخصوص ثقافتی، معاشی اور سیاسی جبر کے ترازو میں تولتے ہوئے اسے اپنی مرضی و مفاد کے مطابق استعمال کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح مذہبی تہواروں کی حقیقی روح کو بھی لوگوں نے ‘امارت‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ دور کیوں جائیں، عید الضحٰی پر قربانی کو ہی دیکھ لیں تو ہر طرف بکروں کی جسامت و وزن و قیمت و قد کاٹھ کو ہی موضوعِ بحث و قابلِ غور بنا کر دیکھا اور دکھایا جاتا ہے اور اسی ‘نصاب‘ کو مدِ نظر رکھ کر کوئی بکرا یا اونٹ کی قربانی بارے فیصلہ کرتا ہے اور اسی ‘نصاب‘ سے قربانی دینے والے کے ‘جذبہ‘ کو ٹٹولنے و پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قربانی دینے والا اللہ سے کتنے فیصد محبت کرتا ہے؟ گویا قربانی اللہ کے لیے نہ ہوئی، دنیا میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ہوئی۔ بندہ پوچھے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے نہ کہ ظاہرات پر۔ شکریہ۔
نعيمہ جي!بلاگ پڑھ کر خيال آيا کہ ہماری زندگی ميں ہر بات ميں اللہ تعالی کی مرضی تو يقينا شامل حال ہوتی ہے مگر ہم ہرکام کو اس سے ہی منسوب کرتے ہيں۔ ہم تو وہ لوگ ہيں جو رضائے الہی سے پيدا ہوتے ہيں اور قضائے الہی سے فوت ہوجاتے ہيں! جہاں تک کرسمس رواج ميں تبديلی کا معاملہ ہے تو کمر توڑ مہنگائی نے سب کچھ ہی بدل کررکھ ديا ہے۔خود ہم نے کيک کٹنگ ميں کٹنگ کردی ہے اور روايتی خشک ميوہ جات بھی کم خريدے اور پيش کئيے ہيں۔ يہ سب وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبديلی کا مظہر ہے جسکی جانب آپ نے برمحل تذکرہ کيا ہے۔
مذہبی رواداری وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔کرسمس کے موقع پر عیسائی بھائیوں کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔اہل کتاب کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کے بارے میں ہمارے مذہب نے تاکید کی ہے۔
نعيمہ جی يورپ والوں کو کيوں دوش ديں صاحب ہم انڈيا والے کہاں کچھ کم ہيں۔ پہلے عيد کا مہينوں انتظار ہوتا تھا اب کہاں عيد آئی اور چلی گئی پتہ ہی نہيں چلتا۔ شکر ہے کہ رمضان ميں نماز پڑھ لی جاتی ہے اور بقرعيد ميں قربانی ہوجاتی ہے ورنہ تو پھر کہاں ہم نے روایات برقرار رکھی ہيں۔ انسان جيسے جيسے ترقی يافتہ ہوتا جارہا ہے ويسے ويسے مشينی بھی بنتا جارہا ہے۔ کہتے ہيں کہ پہلے آٹا گھروں ہی ميں پيسا جاتا تھا ہمارے دور ميں ہم نے چکی والے کے پاس قطار ميں کھڑے ہوکر پسوايا ہے۔ چکی سے مشينی چکی اور آج ريڈی میڈ ہی بازار ميں دستياب ہے۔ ہمارے بچپن ميں منگنی کے ٹھيک ايک سال بعد شادی کی تاريخ پکی ہوتی تھی اور پورا سال تياريوں ميں نکل جاتا تھا مگر اب ايسا نہيں اب تو چٹ منگنی اور پٹ بياہ والی بات محاورہ نہيں رہی۔ يقين نہ آئے تو ہمارے اخباروں ميں چھپنے والے ضرورت رشتہ کے اشتہار ديکھ ليں۔ صاف لکھا ہوتا ہے کہ شادی ميں عجلت ہے يا اندرون ايک ہفتہ کی جائے گی۔ اب ہو بھی يہی رہا ہے۔ کسی ميريج حال ميں چلے جائيں تو کيٹرنگ سے ليکر کاسٹيوم تک اور کاسٹیوم سے ليکر ٹرانسپورٹ تک ہر چيز بنا کسی ٹینشن کے ايک ہی دن ميں تيار۔ گويا گھر ميں کسی پيشگی انتظام کی ضرورت ہی نہيں۔ روائتيں اور رواج تواب قصہ پارينہ ہوگئی ہيں اور ٹھنڈی سانس بھرنے کا ايک ذريعہ بھی۔
سائکو صاحب - نعيمہ نے کيا بات کی اور آپ نے کيا لکھا واہ واہ
عيد بھی تو اب ہوتی ہی منافق،بدنيت رشتہ داروں سے گلے ملنے اور ہائے ہيلو کرنے کيلۓ اور کھانے کيلۓ کچھ سال بعد يہ بھی نہ ہوگا، ہارون صاحب انکے نام کے آگے سائکو لکھا ہوتا ہے اخلاقا تو سمجھ جايئں خود ہيِ شکريہ