این آر اور یا این این او۔۔۔
قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او پر میڈیا میں موجودہ واویلا اپنی جگہ لیکن میری نظر میں اس طرز کے معاہدے اس سے قبل میں ہم مختلف شکلوں میں دیکھ چکے ہیں۔
دسمبر دو ہزار: برطرف وزیر اعظم نواز شریف صدارتی فرمان کے تحت عمر قید سے چھٹکارا پاتے ہیں اور سعودی عرب کو بمعہ اہل خانہ روانہ کر دیے جاتے ہیں۔ سرکاری بیان کے مطابق یہ قدم 'وسیع تر قومی مفاد' میں اٹھایا گیا تھا۔ عدالت عظمٰی نو برس بعد انہیں طیارہ سازش کیس میں باعزت بری کر دیتی ہے لیکن صدر مشرف کے دور میں تو انہیں رعایت دی گئی تھی۔
فروری دو ہزار چار: صدر جنرل پرویز مشرف پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر خاں کو معافی دے دیتے ہیں۔ یہ معافی انہیں ان کے سرکاری ٹی وی پر جوہری ہھتیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق اقراری بیان کے بعد دی جاتی ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح کا این آر او قرار دیا جا سکتا ہے۔
اپریل دو ہزار چار: فوجی حکام جنوبی وزیرستان میں شکئی کے مقام پر قبائلی شدت پسند نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ کرتے ہیں۔ اس سمجھوتے کے تحت فریقین ایک دوسرے کو پہنچائے جانے والے جانی نقصانات کو معاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بھائی قرار دیتے ہیں۔
فروری دو ہزار پانچ: بیت اللہ محسود طویل لڑائی کے بعد حکومت سے سمجھوتہ کرتے ہیں۔ ماضی کا کیا کرایا سب معاف ہوا لیکن پھر نیک محمد کی طرح بیت اللہ بھی میزائلوں کا شکار ہوئے۔
ستمبر دو ہزار چھ میں شمالی وزیرستان اور فروری دو ہزار نو میں سوات کے شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے کو قومی تو نہیں البتہ مقامی مفاہمتی آرڈیننس ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک صورت شدت پسند رہنماؤں کی مختلف اوقات میں رہائی بھی ہے۔
قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ انیس سو پچاسی سے اب تک حکمرانوں نے سو ارب روپے کے قرضے معاف کیے۔ اس این آر او کی بہتی گنگا میں تو صرف سیاستدان نہیں تقریباً ہر کسی نے ہاتھ دھوئے۔
ان سب سیاسی یا عسکری این آر اوز کو اگر اب 'نان آبلیگیٹری آرڈیننس' کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
مياں صاحب لگتا ہے کہ آپ کے مزاج پر اين ار او نے يا اس کی منسوخی نے گراں اثرات ڈالے ہيں۔ نہ نہ پريشان نہ ہو۔
رات دن گردش ميں ہيں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائيں کيا”!
سب سے پہلے تو آپ حضرات کو خراج تحسين ! اين آر او سے متعلق بی بي سی کی رپورٹنگ حقيقت پسندانہ اور ملکی ميڈيا کيلۓ مشعل راہ ہے۔ دراصل صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور پيپلز پارٹي کا قصور يہ ہے کہ انہوں نے کيری لوگر بل منظور کروا کر فوجی امداد کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی۔ يہی وجہ ہے کہ ایجنسیاں اور اس کی بغل بچہ تنظيميں، کالم نگاروں اور صحافيوں کی مدد سے جمہوريت کی جڑيں کھوکلی کر رہی ہيں۔ اب پيپلز پارٹی اس آزمائش ميں کامياب ہو يا نہ ہو پر کيری لوگر بل کی صورت ميں عوام کی رقم عوام تک پہنچانے کا ايک بڑا کارنامہ ضرور انجام دے چکی ہے۔
جناب ہارون رشيد صاحب چند سال قبل امريکی حکومت نے انکشاف کيا کہ مشرف دور ميں ملنے والی امريکی فوجی امداد ميں غبن کيا گيا ہے اگر حساب کتاب کريں تو علم ہوگا کہ سياست دانوں پر لگے تمام کرپشن کے الزامات کو بھي اگر يکجاء کرليا جاۓ تو بھي مشرف دور کي سات سالہ امريکی امداد کا پلڑا بھاری ہے اور اسکا کوئی ريکارڈ نہيں۔ مزيد پيچھے جائيں افغان جنگ ميں ’مجاہدين‘ کی فروخت اور قدير خان کے ذريعے ايٹم بم کی فروخت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہيں جن کے ذريعے اربوں
ڈالر کمائے گئے۔ کيا جسٹس اينڈ کمپنی اس کرپشن پر بینچ بٹھانے کی ہمت رکھتی ہے؟
اگرچہ ‘این آر او‘ کے فوائد میں سب سے پہلا فائدہ تو ملک میں جمہوریت کا در آنا ہے۔ لیکن اس ‘این آر او‘ کا ‘کالعدم‘ ہو جانا بھی خوش قسمتی سے ملک و عوام کے فائدہ ہی میں جاتا ہے کہ اسکی کالعدم ہونے سے بہت سے پردے فاش ہو جاتے ہیں اور حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ ‘این آر او‘ کے ‘کالعدم‘ ہونے سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر دوالے ہونے والی جماعتوں اور اداروں کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے اور انکی اصلیت یا ‘فطرت‘ منظرِ عام آ گئی ہے۔
بی بی سی پر تو این ار او کا بھوت ہی سوار ہو گیا ہے ہر بلاگ این آر او پر آ رہا ہے۔ نہ کان کے بدلے کان سزا پر کوئی بلاگ نہ سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ سے ہم عوام کو پیش آنے والی مشکلات پر بلاگ۔ اچھا یہ نہ سہی آج کراچی میں محرم کے جلوس میں خودکش دھماکے پر بھی تو کوئی بلاگ لکھ دو۔
کم از کم اس بھیڑ چال کی شکار قوم اور خصوصا صحافیوں میں کسی نے انصاف کی بات کی۔ آج تو یہ حال ہے کہ شچ بولتے ہوئے بھی لوگ شرماتے ہیں۔ تاریخ کا پہیہ کچھ اور گھومائیں تو بہی سے اور این آر او مل جائیں گے۔ شاید لوگوں کو خاکی ٹوپی کی عدات پڑ چکی ہے کوئی اور ٹوپی اچھی نہیں لگتی۔
تمھاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
ا ب کو ئ اين ار او غر يبو ں کے ليۓ بھی ھو نا چا ھۓ
ہھم پاکستانی صرف بحث کر تے رھتے ھيں1947 سے ليکرآج تک کس حکمران نے پاکستان کيلےء کيا کيا ہے۔ يہ جمھوريت کس چيز کا نام ہے صرف بم دھماکوں کی مزمت کرتے رہو کرتے رہو، جمھوريت پر يقين رکھتے رھو رکھتےے رھو ،پاکستان کااللہ حافظ