حکمران، دہشتگرد اور کراچی
اس دن نیویارک کے مینہیٹن میں بھی عاشورے کا جلوس تھا جہاں ایرانی عزادار امریکہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن امریکی فائر بریگیڈ، پولیس اورتمام قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ یقینی بنانے کیلیے چاک و چـوبند کھڑے تھے کہ نیویارک کی ایک بڑی اور فیشن ایبل شاہراہ پارک ایونیو پر برآمد ہونیوالے علم اور ذوالجناج کے جلوس کے شرکاء کی مذہبی اور تقریری آزادیاں محفوظ رہیں۔
لیکن وہ ملک جہاں دیکھی اور ان دیکھی قوتیں آپس میں گتھم گتھا ہوں اور جہاں صدر اور وزراء مولا جٹ ان ٹربل بنے ہوں وہاں کراچي جیسے شہر ڈریسڈن یا کھنڈرات کا نقشہ پیش کرنےلگتے ہیں۔
قطع نظر اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی سی او (یونائیٹڈ نیشنس ڈرگس اینڈ کرائمز آرگنائزیشن) کی گذشتہ اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے افغانستان اور پاکستان میں پشاور کے بعد کوئٹہ اور کراچي جیسے بڑے اور انتہائي گنجان آبادی والے شہروں میں بھی اپنی سب ڈویژنز کھول رکھی ہیں۔
لیکن جب طالبان نہیں تھے تب بھی تو یہ خونی معاملات چودہ سو سال سے چلتے آئے ہیں۔
کابل، بغداد، پشاور، پنڈی، لاہور، ہنگو اور ڈیرہ غازی خان سمیت کئي شہروں اور قصبوں کو تاراج کرنے کے بعد اگر طالبان نہیں تو تاتاریوں نے اب پھر کراچي پر یلغار کر ڈالی ہے۔ بیالیس معصوم انسانوں بشمول مردوں، عورتوں اور بچوں کو پلک جھپکتے ہی دہشتگردی کے ذریعے اجل کا لقمہ بنادیا گيا۔
لیکن وہ بھی دہشتگردی ہی کہلائے گي جس طرح سے لنڈا مارکیٹ سے لے کر بولٹن مارکیٹ تک آگ لگا دی گئي۔ کراچي کے ایسے دل دکھاتے والے مناظر تمام دنیا کی میڈیا پر دکھائے جار ہے ہیں۔ نہ فقط غریب و امیر دکانداروں کا اربوں کا نقصان ہوا، قدیم و عظیم کراچي کا ایک قیمتی تاریخی آرکیٹیکچرل حصہ بھی جلا دیا گيا۔
نام نہاد فائر بریگيڈ کا کیا کہنا وہ تو کروڑہا روپوں کے غیر ملکی انجنوں کے باوجود تعینات ہی بے آب و گیاہ کربلا میں ہی ہوتے لگتے ہیں۔
پتہ ہونا چاہیے تھا ان اداروں کو کہ ایسے مواقعوں پر کالے کپڑوں والوں کو ہر سفید کپڑے والا 'یزید' دکھائي دیتا ہے تو اس غصے اور غم کی آگ کو ان لوگوں کی املاک تک پھیلنے سے بچـایا جا سکتا تھا جن کا قصور محض یہ تھا کہ یہ مختلف عقیدہ لوگ اتفاق سے اسی محل وقوع اور جغرافیے میں رہتے یا کاروبار کرتے تھے جو دہشتگردی کے شکار جلوس کے روٹ پر پڑتا تھا۔
لیکن کیا کہیے اس وطن اور صوبہ کا جہاں وزیر داخلہ ملک توڑنے اور ہوائي جہاز اغوا کرنے کی باتیں کرتا ہو اور سارے سکیورٹی ادارے عام عزاداروں اور شہریوں کے تحفظ سے زیادہ صدر اور وزیر عظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول یا بقول انکے، انکے خلاف سازشوں میں لگے ہوں۔
تبصرےتبصرہ کریں
جتنے مرضی بلاگ لکھ ليں يا جتنے مرضی عنوان تبديل کرليں نہ لوگوں نے اپنا لائف سٹائل تبديل کرنا ہے اور نہ ليڈروں نے منفی سياست چھوڑنی ہے۔بھلا اگر کوئی اپنے نظريے يا ثقافت کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو غيروں کو ان کے اس اقدام کا بل آتا ہے يا کوئی حرج ہوتا ہے۔تجھ کو پرائی کيا پڑی اپنی نبيڑ تو۔پاکستان کے بہت سے لوگ دوسروں کی نہ صرف مذہبی رسومات ميں دخل اندازی کرتے ہيں بلکہ روزمرہ کے امور يا کسی کے ذاتی يا گھريلو مامعملات ميں داخل ہو کرکے ہيومين رايٹس کی خلاف ورزی کرنے ميں فخر محسوس کرتے ہيں اور اپنے کسی مذہبی جماعت سے لنک کو بطور ہتھيار استعمال کرتے ہيں۔
کراچی ميں جب تک ايم کيو ايم کا وجود رہے گا يہ جلاؤ گھيراؤ چلتا رہے گا ضرورت اب انکے تشددپسندانہ پاليسيز اور اقدامات پر فل سٹاپ لگانے کی ہے،اور جب حالات خراب ہيں پورے پاکستان کے تو ايسے ميں جلوس نکالناپہلے سے ہی رسکی تھا احتياط بہتر تھی
میں سب سے پہلے اس واقعے کی مزمت کرنے کے بعد جلوس میں شامل اپنے بھائی کا انکھوں دیکھا حال بیان کروں گا۔ وہ دھماکے کی جگہ کے بلکل قریب تھے اتنے کہ گھر آکر بھی ان کی جیب سے گوشت کے لوتھڑے نکلے تھے۔ دھماکے کے فوراً بعد ہی شروع کی افراتفری کے بعد کچھ لوگ بڑے ہتھوڑے اور دیگر سامان سے مسلح دکانوں کے تالے توڑ رہے تھے بھائی کے منع کرنے کے باوجود وہ لوگ اپنے کام میں لگے رھے جن لوگوں نے زیادہ روکنے کی کوشش کی ان کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جن لوگوں نے جلوس پر حملہ کیا انھی کے بندوں نے اسی سفاکی کے ساتھ مارکٹوں کو آگ لگائی۔ اور ہرطرح کے خطرات کے باوجود عزاداران جلوس میں بڑے ہتھوڑے پیٹرول اور کیمیکل نھیں لیکر جاتے۔
اس افسوسناک سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
کاش ہمارے حکمران اس ملک کے ہر بچے کو بلاول، بختاو آصفہ سمجھیں۔[.
اور صرف اپنے بچوں کے مستقبل کیلیے نہیں بلکہ پوری قوم کے بچوں کے مستقبل کیلیے پالسیاں بنائيں۔
سندہ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کے بقول دس ہزار پولیس والے جلوس کی حفاظت کیلیے تھے اور انکے سامنے آگ لگ رہی تھی
مگر وہ اسے نہیں روک سکتے تھے کیونکہ وہ صرف جلوس کی حفاظت کیلیے تھے
اور باقی شہر کے لوگ یتیم ہیں۔
کرب و بلا کے اس موقع پر کراچی کے اس سانحے نے دل دہلا کر رکھديا ہے -مجتبی صاحب امريکہ تو امريکہ ہے انسانی حقوق - توقير -اعلی و ارفع ہونے کا تو ٹھيکہ لے رکھا ہے نا اس نے وہاں تو خير بہترين انتظام ہونگے ہی ليکن انڈيا ميں بھی کچھ کم ريسپکٹ نہيں ہوتی اس جلوس کی _حيدرآباد ميں بی بی کے علم کی برآمدگی اپنی تاريخ رکھتی ہے اس جلوس ميں ماتم کنان کی سينہ کوبی اور غم ميں اپنے سينوں کو چھلنی کرنے والے لوگوں کی قابل لحاظ تعداد ہوتی تو ہے ساتھ ہی اس جلوس ميں شرکت کرنے والوں کا شمار بھی لاکھوں سے تجاوز کرجاتا ہے -اس جلوس کے پر امن اختتام کیلیے کيا کچھ نہيں کيا جاتا ۔ تاريخ گواہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کی ايک عظیم مثال پيش کرتا ہے يہ جلوس اس کے باوجود سيکيوريٹی فائر انجن ايمبولنسوں کے ساتھ ساتھ بہترين ٹريفک انتٌظام کی اعلی مثاليں يہاں ديکھنے کو ملتی ہيں سونے پہ سہاگہ جلوس کی روانگی کی تمام راہوں پر محرم کے آغاز کے ساتھ ہی نئی سڑکيں بھی بنوائی جاتی ہيں گو کہ اس کی ضرورت نہيں ہوتی مگر انتظام کا حصہ ہے چاہے کتنا کچھ خرچ ہوجائے ايسے ميں پڑوسی ملک ميں اس طرح کے واقعات کيا اثر ڈالتے ہونگے کبھی کسی نے سوچا ہے ؟کاش اتنا ہی سوچا ہوتا۔ --
کس کس بات کارونا روئيں؟ کس کس واقعہ کا نوحہ لکھيں؟کس کس قتل عام کا مرثيہ پڑھيں؟ اس لحاظ سے يہ خاصا سنگدل و بے رحم شہر بن چکا ہےـ ايک دن ميں کئی لاشيں گرتی ہيں تو يہاں کے باسی سب کچھ فراموش کرکے اپنی سرگر ميوں ميں جت جاتے ہيں۔ہوں بھی کيوں نا؟ اسی شہر ميں سانحہ نشتر پارک ہوااور کوئی جامع تحقيقات نہ ہوئيں نہ ہی ذمہداران کو قرار واقعی سزا ملي،اسی شہر ميں بارہ مئی کا قتل عام ہوا اور قاتل آج بھی دندناتے پھررہے ہيں۔اسی شہر ميں سانحہ کارساز ہوا تحقيقات تو درکنار جان نثاران کی يادگار تک نہ بن سکي ۔ اسی شہر ميں انيس اپريل ہوا نتيجہ يہ کہ آج تک کسی کو نہيں معلوم کہ سفاک قاتل کون تھے شرپسند کون تھے کہاں سے آئے تھے انہيں کس نے بامقصد طور پر مسلح کيا اور کس نے انکو کيمياوئی مواد ديا کہ پل بھر ميں زندہ انسانوں و املاک کو جلا کر خاکستر کردينے والے آج بھی باآسانی اپنی کاروائياں کرکے پرسکون انداز سے ادھر ادھر ہوجاتے ہيں اور اس جديد دور ميں بھی نظروں سے اوجھل ہوکر پھر سے ايسی کاروائيوں کے لئيے تياررہتے ہيں۔چند دنوں کے بعد کراچی پھر مصروف ہوجائےگااورذمہدارروايتی بيان داغيں گےاور قاتلوں کو اپنی صفوں ميں پناہ ديکرمزيدپنپنے کاموقعہ فراہم کريںگے
واہ واہ ۔۔۔۔۔ کیا کہنے اس صحافی کے جو بی بی سی جیسے غیرملکی نشریاتی ادارے کا نمک کھاتا ہو لیکن اسے اپنی جنم بھومی کا کھیوڑہ کا نمک کھٹکتا ہو۔ کیا کہنے اس صحافی کے جو پاکستان میں ملک توڑنے کی بات کرنے والے کو کوس کر اپنی ‘حب الوطنی‘ جتاتا ہو۔ لیکن دوسری طرف جس بی بی سی کا نمک کھا رہا ہو، اسکا ملک، بذریعہ ‘جناح پور‘ پاکستان کو توڑنے کی سازش میں ملوث شخص کو پناہ دیتا ہو۔ لیکن یہ نام نہاد دو نمبر صحافی اسکا ذکر تک نہ کرتا ہو۔ تو ایسے صحافی کی بات میں کیا خاک وزن رہے گا؟ ہوسکتا ہے ‘جناح پور‘ سازش کو چھپانے کا مقصد نمک حلالی ہو؟ جنم بھومی کا حق پہلے آتا ہے یا جسکا نمک کھایا جائے اسکا حق پہلے دیکھنا چاہیے؟ ماں بولی کا حق پہلے آتا ہے یا اردو جیسی غیرملکی زبان کا حق پہلے آتا ہے؟ِ کیا معلوم نہیں کہ فطرانہ کا حق سب سے پہلے عزیزوں، رشتہ داروں کا بنتا ہے اس کے بعد دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ غور کیجئے گا اس بات پر کیونکہ کیا پتہ ضمیر ابھی مکمل نہ مردہ ہوا ہو۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہےليکن سندھی ڈھونڈنے سے نہيں ملتے تھے 90 کے فسادات کے بعد،ايسا قتل عام ہوا کہ کراچی سندھيوں سے خالی کرايا گيا،ہمارا کراچی والوں کو افغان بہاری،برمي،پٹھان،پنجابی تو قبول تھا ليکن سندھی نہیں؛کراچی آجکل بہت بدلا ھے وہاں پٹھان مہاجر سے زيادہ طاقتور نہن تو کمزور بھی نہیں اور ي ہی اصل وجہ ہے،کراچی ميں گذشتہ برسوں میں مذہبی جماعتوں سے لے کر سندھی قومپرستون پر حملے ہوئے،پی پی پی ،اے اين پی سب کے لوگون کو مارا گيا ،ايم کيو ايم کےجو لوگ ہلاک ہوئےآدھےسے زيادہ کا الزام خود ايم کيو ايم والوں پہ لگا۔ کچھ دنون سے پی پی ايم کيو ايم والوں کے مطالبات نہیں مان رہی تھی کہ ايم کيو ايم کے ناظموں کو رہنے ديا جائے کراچی اور حيدراباد ميں اور ايم کيو ايم کی مانگوں کو تسليم کيا گيا ہےبغير اس تباھی کے يے ممکن نہیں تھا ،جب تک 12 مئي،4 اپريل کے انکوائريان نہين ھوتیں اور دھشتگردوں اور ان کے حمایتیوں کو سزا نہيں ملتی تب تک کراچی ميں ايسی اور اس سے بڑی دھشتگردی بھی ھوسکتی ہے۔
عزاداران جلوس ميں بڑے ہتھوڑے پيٹرول اور کيميکل نھيں ليکر جاتے۔
کيمرہ فوٹيج آگئي ہيں- پورا شہر جانتا ہے گلے ميں رومال لپيٹے وہ کون لوگ تھے-
رات بھر کراچی کی آگ ٹی وی پہ ديکھنے کہ بعد منہ اندھيرے ہی متاثرہ مقامات کی جانب نکل پڑا- ہر طرف پوليس اور رينجرز کے سپاہی کھڑے گويا منہ چڑا رہے تھے- اپنے گھر سے بولٹن مارکيٹ تک شايد ہی کوئی ايسا کھمبا يا ديوار ہوگی کہ جس پر رات کے واقعہ کے ردعمل کے نتيجے ميں طالبان مخالف بينرز يا پوسٹرز نہ لگے ہوں ميرے لۓ يہ بات بے حد حيران کن ہے کہ صرف چار گھنٹوں ميں اتنی منظم کاروائی کردی گئی کاش يہ پھرتی جلاؤ گھيراؤ سے قبل دکھادی جاتي-
-محترم حسن صاحب آپ نے دراصل اصل مسئلہ ايک سطر ميں ہی بيان کرديا ہے کہ” ایسے مواقعوں پر کالے کپڑوں والوں کو ہر سفید کپڑے والا 'یزید' دکھائي دیتا ہے ” -
عاشورے کا دن بولٹن مارکيٹ کے ہزاروں متاثرين پر کربلا بن کر گزرا
ہاہا افسوس کہ تعصب کی آنکھ سے ديکھنے و الو تم 27 دسمپر فر اموش کر گۓ ملک بچا نا ہےتو تعصب ہٹانا ہے۔
یہ سب اس شہری لسانی تنظیم کا کیا دھراہے جو کہ شروع سے ہی دہشتگردی پہ یقین رکھتی ہے، ایک جگہ دھماکہ ہوا اور وہ پانچ منٹ میں ہی پورے شہر میں آگ لگا دی گئي، اتنی طاقت تو وہ ہی شہری تنظیم دکھاسکتی ہے ۔ جبتک اسکے پاس حکومت ہے تو یہ سب ہوتا رہے گا۔
اگر اب بھی ہمارے ادارے اس لسانی جماعت کی پشت پناہی کرتے رہے تو ہم نائجیریا بن بن جائیں گے . ١٢ مئی کو بھی اسی جماعت نے سب کچھ کیا پھر ٩ اپریل کو وکلا کو زندہ جلا دیا ، نشتر پارک میں سنی تحریک کی ساری قیادت ختم کر دی جب بی بی واپس آئی تو اسی جماعت کی لوکل حکومت نے سٹریٹ لائٹس بند رکھیں اور دھماکہ ہوا، جب بی بی کا قتل ہوا اسی جماعت کے منظم غنڈوں نے سارا کراچی لوٹ لیا اور اب پھر سے اس ملک کو کھوکھلا کرنے کے لئے ایک اور وار کیا ہے. میرے ملک کے ادارو! آنکھیں کھولو کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آنکھ کھلے تو نظارہ برداشت نہ کر سکو.
پاکستان زندہ آباد۔