منتخب حکومت کا چیلنج
پاکستان میں آجکل منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا ذکر کچھ زیادہ ہی تواتر سے ہونے لگا ہے۔ لیکن اگر تاریخ سے سبق سیکھا جائے تو سازشوں کے ذکر میں اور نہ ہی سازشوں کے وجود پر کسی کو حیرت ہونی چاہیے۔
موجودہ منتخب حکومت کو دو سال پورے ہونے کو ہیں۔ماضی کی منتخب حکومتوں کے دور اقتدار پر نظر ڈالیں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایسی حکومتوں کے چل چلاؤ کی کوشش شروع ہو چکی ہوتی ہے جو 'انتظامیہ' کے کنٹرول سے آزاد ہو کر کام کرنا چاہتی ہیں۔
محمد خان جونیجو کی غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب حکومت تئیس مارچ انیس پچاسی کو قائم ہوئی اور تقریباً اڑتیس ماہ بعد انتیس مئی انیس سو اٹھاسی کو ختم ہو گئی۔
بینظیر بھٹو پہلی بار دو دسمبر انیس سو اٹھاسی کو وزیر اعظم بنیں اور تقریباً بیس ماہ بعد چھ اگست انیس سو نوے کو انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
نواز شریف چھ نومبر انیس سو نوے کو پہلی بار وزیر اعظم بنے اور اٹھارہ اپریل انیس سو ترانوے تک تقریباً انتیس ماہ کے لیے اس عہدے پر فائز رہے۔
بینظیر بھٹو انیس اکتوبر ترانوے میں دوبارہ وزیر اعظم بنیں اور پانچ نومبر چھیانوے تک تقریباً ساڑھے چھتیس ماہ وزیر اعظم رہیں۔ پھر نواز شریف دوبارہ سترہ فروری انیس سو ستانوے کو وزیر اعظم بنے اور بارہ اکتوبر ننانوے تک تقریباً بتیس ماہ کے لیے اس عہدے پر قائم رہے۔
اب موجودہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پچیس مارچ دو ہزار آٹھ کو وزیر اعظم بنے تھے۔ اس طرح وہ اس عہدے پر اکیس ماہ سے زیادہ عرصہ گزار چکے ہیں جو بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے زیادہ ہے۔
کچھ مبصر اور ہارے ہوئے سیاستدان تو انہیں اتنا وقت بھی نہیں دے رہے تھے اور اس لحاظ سے یہ ایک کامیابی بھی ہے۔ تاہم اس حکومت کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ یہ اپنی مدت پورے کرے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘لائے ہیں نقطہ دان یہ کوڑی بڑی دور سے‘
اور:
‘کُچھ اور بھی دے گیا لطف انداز تمہاری گفتگو کا‘
ميں حيران ہوتا ہوں کہ بعص لوگ اس کھيل تماشے کو نہيں سمھج سکتے۔ يہ سب فوجی حکومت کے ساتھ نہيں ہوتا جو پانچ کے بجائے 10 سال تک حکومت کرتی ہے- اس کا مطلب يہ ہے کہ يہ نام نہاد مبصر اور ہارے ہوئے سياست دان سول و ملٹری اسٹيبليشمنٹ سے ملے ہوتے ہيں اور ان سے فائدے حاصل کرتے ہيں- ايسے سياست دان اور ان کی پارٹياں کيونکہ اليکشن ہار جاتی ہيں اس ليے اليکشن اور پارليمنٹ کو پسند نہيں کرتے- جبکہ نام نہاد مبصر ان غيرعوامی سياست دانوں کو دانشور کے طور پر پيش کرتے ہيں-
اسد صاحب! کيايہ حقيقت نہيں کہ جمہوری حکومتيں اپنی کارکردگی کی وجہ سے جلد غير مقبول ہوجاتی ہيںـ موجودہ حکومت بھی اسي زمرے ميں آتی ہے
چوہدری صاحب، آداب! ملک میں چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت ہے اور یہ واحد سیاسی عوامی پارٹی ہے جو کہ ملک و عوام کے مفاد کے سامنے اپنے پارٹی مفاد کو ہمشیہ صفر سمجھتی ہے، لہذا اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج نہ حکومت کی برقراری ہے اور نہ ہی ووٹ بینک میں بڑھوتری، جیسا کہ ‘اے این پی‘ کو نکال کر سب جماعتوں کا فلسفہ رہتا رہا ہے اور آج تک ہے۔ ‘
میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کے جمہوری حکومتيں اپنی کارکردگی کی وجہ سے جلد غير مقبول ہوجاتی ہيں مگر اس قدر غیر مقبولیت؟ کچھ تو ہے
سياستدان اپنی حکومت کا پہلا نصف خزانہ ہڑپ کرنے ميں لگاتے ہيں، پھر الٹی سيدھی حرکتيں شروع کر ديتے ہيں، تاکہ کوئی انھيں برطرف کرے اور وہ ہمدردی کے ووٹ ليکر دوبارہ مسلط ہو سکيں- گزشتہ سياسی حکومتوں کا آزمودہ ڈرامہ ايک بار پھر شروع ہے، اسی ليۓ صدر صاحب پينترے بدل بدل کر حملے کر رہے ہيں اور برطرف ہونے کے ليۓ ايڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہيں- طاقتور حلقے اس کشمکش ميں ہيں کہ اس حکومت کو برطرف کريں، تو پھر وہی پرانی کہاني- نہ کريں تو ملک کے وجود کو شديد خطرہ، کريں تو کيا کريں-
جب تک پاکستان میں ایک بھی بیسویں صدی کا سیاستدان زندہ ہے
پاکستان کا اللہ حافظ ۔مجھے جمہوریت نہں ۔سستا آٹا اور چینی چاہیے