رینجرز کی آخر 'رینج' کیا ہے؟
آج مجھے تقریباً دو سال پرانا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جب پاکستان میں اٹھارہ فروری سنہ دو ہزار آٹھ کو انتخابات ہوئے اور پولنگ شروع ہوئی تو قومی اسمبلی کی نشست کے ایک امیدوار حکیم بلوچ نے فون کیا کہ ایک مخصوص جماعت کے کارکن پولنگ سٹیشنز پر قبضہ کرکے بیلٹ پیپر پر ٹھپے مارکر ڈبے بھر رہے ہیں۔
میں نے ان صاحب سے کہا کہ میں تو اسلام آباد میں ہوں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس بے بس ہے رینجرز والے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور ان سے جب مداخلت کا کہا تو ان کے بقول رینجرز والے کہنے لگے کہ دھاندلی روکنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، ان کا کام امن و امان قائم رکھنا ہے۔
دس محرم کو کراچی میں یوم عاشور کے جلوس پر جب بم حملہ ہوا تو چند منٹ میں دستانے پہنے بظاہر تربیت یافتہ لوگوں نے مختلف عمارتوں کو آگ لگا دی۔ فائر برگیڈ آگ بجھانے آئی تو اس کو کافی دیر تک مسلح افراد نے روکے رکھا۔ رینجرز موجود رہے لیکن انہوں نے مسلح افراد کو روکا اور نہ ہی آگ لگانے والوں کو پکڑا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق رینجرز والے کہتے رہے کہ آگ لگانے والوں کو پکڑنا پولیس کا کام ہے اور ان کے اختیارات محدود ہیں۔ رینجرز ایک نیم فوجی فورس ہے اور ان کا بنیادی کام تو سرحدوں کی چوکسی کرنا ہے۔
لیکن کراچی سمیت اندرون سندھ مختلف شہروں میں رینجرز تعینات ہیں۔ ریجنرز کے مختلف دستوں کے نام سندھ کے صوفی شعراء سے منسوب ہیں۔ کوئی شہباز رینجرز ہے تو کوئی بھٹائی رینجرز۔ سندھ کی تاریخی عمارتیں چاہے وہ پرانے قلعے ہوں، کھیل کے میدان یا تعلیمی اداروں یا ان کے ہوسٹلز وہاں رینجرز کا بسیرا ہے۔
رینجرز کو سندھ حکومت سالانہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے کروڑوں روپے ادا کرتی ہے۔ اگر اسلحہ کے زور پر الیکشن کمیشن کے عملے کو بند کرکے ٹھپے مارکر ڈبے بھرنے والوں کو روکنا یا پھر آگ لگانے اور بلوے کرنے والوں کو روکنا رینجرز کے دائرہ کار میں نہیں ہیں تو پھر آخر ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ وہ کس خدمت کے عوض سندھ حکومت سے سالانہ کروڑوں روپے لے رہے ہیں۔
کیا رینجرز کے حکام یہ بتا سکتے ہیں کہ کراچی میں بڑے بڑے ہوٹلز کو پانی کی فراہمی کا ٹھیکہ انہوں نے کس کی اجازت سے حاصل کیا ہے اور اس کام کے لیے انہوں نے بڑے بڑے واٹر ٹینکرز کس کھاتے میں خریدے ہیں؟۔ جنوبی سندھ کی بعض جھیلوں پر بھی کچھ عرصہ پہلے تک رینجرز قابض رہے اور اس کے ٹھیکے وہ کس کے اختیار کے تحت نیلام کرتے رہے؟۔ سندھ کے مختلف شہروں میں رینجرز نے شاپنگ سینٹرز اور پیٹرول پمپ کس کی منظوری سے کھول رکھے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
يہا ں سب چلتا ہے صا ب جي، جب چور خو د ہی چور چور کر ے تو پھر يہ بپتا کو ن سنے، جۓ بھٹو، ايم کيو ايم بھی انکو ا ئر ی کہے، پی پی بھی سب کچھ جاننا چاہتی ہے تو پھر رکا و ٹ کیا ہے۔ کراچی کا شايد نصيب ايسا ہے کہ سب حق پرست ہيں۔
رینجر کا مدد نہ کرنا ہی اصل ڈینجر نہیں بلکہ پولیس بھی وہاں موجود تھی۔ اور پولیس کا بھی کیا قصور اصل میں تو قبضہ مافیہ کی بولٹن مارکیٹ اور اسکے گردو نواح پر دیر سے نظر تھی لیکن بس نہیں چل رہا تھا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
شاعر نے ایسی صورتحال پر کیا خوب کہا ہے۔۔۔
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا، یہ بازیگر کھلا
رینجرز کی آخر ’رینج‘ کیا ہے؟ پہلے اس سوال کا جواب تو حاصل کر ليں جو پاکستان کے ايک معصوم شہری نے پاکستان کی فوج کے جرنيل سے کيا ’ کيا وجہ ہے کہ آپ ہی کے دست و بازو آپ ہی کا گلا گھونٹنے لگے؟‘۔ کيانی صاحب سوچ کر جواب ديں۔ بات ہے گہرائی کی۔
جمہوری حکومت ہے اس لیے رينجرز بھی جمہوريت پسند ہوگئے ہيں۔ رينجرز کا ادارہ بنا ہی بےروزگار افراد کے لیے ہے، کچھ کام بھی نہ کرنا پڑے اور رعب بھی برقرار رہے۔ ايسے تو پوليس بھی ہے پر کسی کام کی نہيں
اسلام علیکم! یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایم کیو ایم کراچی میں ‘طالبانائزیشن‘ کا ڈھول دو سال سے متواتر پیٹتی چلی آ رہی ہے لیکن اس ڈھول کے باوجود ملک کے دیگر شہروں کی برعکس کراچی ‘خودکش دھماکوں‘ سے حیران کن حد تک محفوظ رہا۔ حالانکہ جس تواتر و شدت و خشوع و خضوع سے ‘طالبانائزیشن‘ ڈھول پیٹا گیا، اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں امن و امان کی صورتحال کہیں زیادہ ڈانواں ڈول ہونی چاہیے تھی جو کہ نہیں ہے۔ اور یہ بات کم از کم کراچی سطح پر ‘طالبانائزیشن‘ کو ‘معصوم‘ دکھاتی ہے جبکہ دوسری طرف کراچی پر بزورِ دہشت و تشدد و ٹارچر سیل و بوری بند لاشوں کی سیاست و بھتہ خوری کی دلدادہ اور پٹھان ہوٹلوں کے درپے ہونے والا قابض مافیا کا ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ جاتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق کراچی میں عاشورہ جلوس میں دھماکہ خودکش ثابت نہیں ہوا، لہذا کم از کم کراچی میں ‘طالبانائزیشن‘ ڈھول پھٹ گیا ہے۔ شنید ہے کہ بلدیاتی الیکشن کی بابت پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں اختلافات موجود ہیں، لہذا عین ممکن ہے کہ ‘کراچی اسٹیبلیشمنٹ‘ نے محرم کے جلوس میں دہشتگردی کا بازار گرم کر کے حکومت کو کوئی ‘سندیسہ‘ دیا ہو۔ دھماکہ ایک انتہائی حساس موقع اور وقت پر ہوا۔ اس ‘حساسیت‘ کی وجہ سے رینجرز کا ‘خاموش‘ رہنا بھی قطعآ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بصورت دیگر اگر رینجرز لوٹ مار کرنے والوں، فائر بریگیڈ عملہ کو کام کرنے سے روکنے والے مسلح افراد، دکانوں کے تالے توڑنے والوں اور آگ لگانے والے دہشتگردوں کے خلاف موقع پر کارروائی کرتی تو عین ممکن تھا کہ یہ دھماکہ ‘فرقہ وارانہ تشدد‘ کی شکل میں رنگ بدل لیتا اور جلوس کے شرکا کو بھڑکانے کا موجب بنتا اور غالبآ دہشتگردوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ چونکہ خاکسار ڈنڈی مارنے کا قائل نہیں بلکہ تصویر کے دونوں رخ کو سامنے رکھ کر حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی کرنے والے ‘عقلیت پسند‘ فلسفہ کا قائل و مائل و پُجاری ہے، اس لیے رینجرز کے موقع پر کوئی ایکشن نہ لینے کی دوسری وجہ غالبآ اپنے ہاتھوں کو ‘رنگنے‘ سے بچانا تھا کہ ملک کے سیکورٹی ادارے بالخصوص فوج اس بابت پہلے ہی بہت بدنام ہے اگرچہ اس میں میڈیا کی نمک مرچ کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ باالفاظ دیگر، رینجرز نے موقع پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سیکورٹی اداروں کی ‘عزت‘ رکھ لی۔
يہ جو کہانی آپ نے بيان کی رينجرز کے رويے کے بارے ميں اس سے تو يہ رينجرز کم اور مسلح ٹھيکيدار زيادہ لگتے ہيں۔ پاکستان ميں آوے کا آوا ہی بگڑہ ہوا ہے کس کس کا رونا روئيں اور کس کس ظالم کے ظلم کا ذکرکريں۔ ہر کوئی بس عوام کو ہی مار رہا ہے چاہے وہ حکومت ہو يا پھر قبائلی قاتلان سب ہی اس بے کس و بے آسرا عوام کے درپے ہيں۔ پتہ نہيں يہ کہانی کب اور کيسے ختم ہوگي۔
پاكستان كا تو اب اللہ ہی حافظ ہے۔
جناب کی صاف گوئی نے بے حد متاثر کيا ۔ اعجاز بھائی رينجرز کی رينج کی بات ہورہی ہے تو ميں بھی يہاں اپنا آنکھوں ديکھا حال بيان کرنا چاہوں گا۔ ان کا کراچی ميں سب سے اہم کام اپنے افسران اوران کے اہل خانہ کو پروٹوکول کے ساتھ شاپنگ ،سير و تفريح اور سکول چھوڑ کر آنا ہوتا ہے۔ جيسا کہ آپ نے فرمايا کہ سکول، کالج اور پلے گراؤنڈ ان کی رہائش گاہيں ہيں۔ آپ کی معلومات ميں مزيد اضافہ کرتا چلوں کہ بڑے تعليمی اداروں کےسپوررٹس جمنازيئم ميں بھي يہی لوگ والی بال اور باسکٹ بال کھيلتے نظر آئينگے۔ اکثر گراؤنڈز کی بھی يہی صورت حال ہے۔ آپ نے کہا کہ کروڑوں روپے صوبائی حکومت سے لے رہے ہيں۔ محترم ناچيز نے اس معاملے کا بھی باريکی سے جائزہ ليا! انکشاف ہوا کہ يہ رقم اصل تنخواہ کے علاوہ ہے يعنی اس ’ظفر موج‘ کی عليحدہ سے تنخواہ لی جا رہی ہے، جو اصل سے بھی زيادہ ہے۔ باقی پانی کے ٹينڈرز کی رقم کہاں جاتی ہے اس کا علم تو شايد حکومت کو بھی نہيں ہوگا۔ ذکر ہو کراچی رينجرز کا اور ڈبل سواری والوں کو مرغا بنانےکی بات نہ ہو۔ يہ سراسر زيادتی ہوگی کيونکہ يہی ايک کام بڑے انہماک سے کيا جاتا ہے۔ آپ کو اکثر گلی کوچوں اور شاہراؤں پر يہ نظارا ديکھنے کو مل جائے گا۔ جبکہ ان ہی گليوں سے ’ٹارگٹ کلر‘ آرام سے فرار ہوجاتے ہيں، شايد وہ ان کي ’رينج‘ ميں نہيں۔ ان کا عام طور پہ شکار طالب علم يا وہ غريب ہوتے ہيں جو دس روپے کرايہ بچانا چاہتے ہيں کوئی مجھے عقل کا دشمن بتائے کہ يہ ’رينج‘ انہيں کس نے دی ہے۔