ہابیل اور قابیل
پاکستان کے آج کل کے حالات دیکھ کر نہ جانے کیوں بچپن میں دیکھا ایک پروگرام بار بار یاد آ رہا ہے۔ یہ کوئی سائنس کا پروگرام تھا اور اس کے پرانے ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کی جو تصویر میرے دماغ کے کسی خلیے میں پھنسی ہوئی ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
پاکستان کے آج کل کے حالات دیکھ کر نہ جانے کیوں بچپن میں دیکھا ایک پروگرام بار بار یاد آ رہا ہے۔ یہ کوئی سائنس کا پروگرام تھا اور اس کے پرانے ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کی جو تصویر میرے دماغ کے کسی خلیے میں پھنسی ہوئی ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
کافی پرانی ہے شاید ستر کی دہائی کے اواخر کی۔ اس انگریزی کے پروگرام میں حسب معمول بےچارے چوہوں پر ایک تجربہ پیش کیا جاتا ہے۔ قریباً دو سو چوہوں کو ایک بند کمرے میں رکھا جاتا ہے اور معمول کے مطابق انہیں ایک خاص مقدار میں خوراک روزانہ مہیا کی جاتی ہے۔
سائنسدانوں نے ابتداء سے آخر تک اس کمرے کا ماحول یکسر ایک جیسا رکھا۔ ابتداء میں چوہے کم اور غذاء زیادہ ہوتی رہتی ہے سو چوہے ہنستے کھلتے ہیں خوش باش رہتے ہیں اور آبادی بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی آبادی دن دُگنی اور کچھ ہی عرصے میں تین گنا ہو جاتی ہے۔
لیکن پھر یہاں سے مسائل سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ سوائین فلو جیسی وباء تو شاید نہیں پھیلتی یا خودکش حملے تو نہیں ہوتے لیکن بیماریاں اور آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے چوہے مرنے مرانے لگتے ہیں۔ اسی مارا ماری کی وجہ سے باآخر ان کی تعداد واپس تقریباً اسی سطح تک پہنچ جاتی ہے جو ابتداء میں تھی۔
سائنسدانوں نے اس تجربے سے یہ نتیجہ حاصل کیا کہ ایک قدرتی عمل تھا آبادی کو قابو میں رکھنے کا۔ شاید یہی وجہ ہے آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں جاری جنگوں کی۔
نظریات اور مذہب اپنی جگہ لیکن یہ ایک فطری عمل ہے جو ہابیل اور قابیل سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم ہارون رشید صاحب، آداب! بمطابق خاکسار، سرمایہ داروں کا اپنی بقاء و سلامتی اور اپنی دولت کو مزدروں کی جیب میں جانے سے بچانے کے لیے رچایا گیا ڈرامہ ہے اور سراسر پراپیگنڈہ ہے کہ دنیا بالخصوص مسلم دنیا کی آبادی حد سے تجاوز کر رہی ہے اور یہی سب فساد کی جڑ ہے۔ کیونکہ یہ بھی قانون دنیا ہے کہ جہاں دو بھانڈے (برتن) اکٹھے ہوں ان کا بجنا معمول کی بات ہوتی ہے۔ لہذا آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے آپس کی لڑائیوں اور بیماریوں کی وجہ سے آبادی کم ہو جانے کا ‘طنز‘ بےجان، بے وزنی، باسی اور کسی شمار میں نہیں آتا۔ آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا نظریہ یعنی ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ اصل میں امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز ہے اور اسکے پیچھے گُڑ دے کر مارنا کی سازش کارفرما ہے۔ قحط، سونامی، سیلاب، حادثات، زلزلے، وبائی امراض اور دیگر آفات سماوی جن میں بیک جنبش ہزاروں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں، آبادی اور وسائل میں تناسب برقرار رکھنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے جب ہر انسان کے زرق کا وعدہ کیا ہوا ہے، ‘
اگر ملک میں جاری لڑائی جھگڑے، فرقہ واریت، خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں، ‘نوگو ایریا‘، معاشی و مذہبی و ثقافتی و لسانی جبر وتشدد و استحصال وغیرہ ‘فطری عوامل‘ ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اتحادیوں کو کیا ضرورت تھی افغانستان میں ‘قبضہ‘ کرنے کی، پاکستان میں ‘ڈرون حملے‘ کرنے کی، یمن میں ایک اور محاذ کھڑا کرنے کی؟ ان کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ان کا اسلحہ خرچ ہونے سے بچ جاتا نتیجتآ عین ممکن تھا کہ اتحادی ممالک ‘معاشی بحران‘ سے محفوظ رہتے اور انکے فوجیوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگی کیونکہ انکے ‘دشمن‘ سے نبٹنے کے لیے تو ‘فطرت‘ ہی کافی ہے! اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہابیل اور قابیل سے شروع ہونے والا فطری عمل صرف مسلم ممالک ہی میں کیوں جاری ہے؟ اس کا دائرہ کار مغربی دنیا تک وسیع کیوں نہیں ہوتا؟ یہی وہ سوالات ہیں جن سے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا بالخصوص مسلم دنیا میں جو قتل وغارت ہو رہی ہے اور جو امن وامان کا مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، اسکا ‘آبادی‘ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ ‘فطری عمل‘ ہے بلکہ یہ ‘عالمی سامراج‘ کا ‘نیو ورلڈ آرڈر‘ سائیکل کو مکمل کرنے میں ‘مہذب مدد‘ حاصل کرنے کے لیے اپنا ایجاد کردہ ‘شیطانی عمل‘ ہے۔
موجودہ حالات پر اس سے بہتر تبصرہ نہيں ہوسکتا- بدقسمتی سے دانشور حضرات کی اکثريت اس پہلو پر سوچنا بھی گوارہ نہيں کرتي- انھيں تو سوائے سازشوں کے اور کچھ نہيں سوجتا- اب تو عرصہ ہوا کہ کبھي پاکستانی ٹرين ميں سفر کيا ہو، البتہ کالج کے زمانے ميں کبھی کبھار فرسٹ کلاس، ليکن زيادہ تر تھرڈ کلاس ميں سفر کيا تھا- ان دونوں طرح کے سفر کی ياد ابھی تک ذہن سے محو نہيں ہوئي- فرسٹ کلس ميں سب مسافر خوش و خرم سفر انجوائے کر رہے ہوتے تھے، جبکہ تھرڈ کلاس ميں لڑائی جھگڑے معمول کی بات تھي- حقيقت ميں ہمارا ملک تھرڈ کلاس کے ڈبے کی مثال بنا ہوا ہے، سيٹيں کم ہيں اور مسافر زيادہ-
‘ہمیں کنارے کی ترغیب سے تباہ نہ کر
کہ ہم تلاطم و طوفاں پسند کرتے ہیں‘
آپ کے تھرڈ کلاس اور فرسٹ کلاس تجربے کی خبر نجیب نے اپنے تبصرے میں خوب لی ہے۔ ٹرین میں تھرڈ کلاس ڈبہ کا زمہ دار فرسٹ کلاس ڈبہ ہے۔ مجھے تو فرسٹ کلاس میں سفر کرنے سے اب شرم آنے لگی ہے۔
بدقسمتی سے دانشور حضرات کی اکثريت اس پہلو پر سوچنا بھی گوارہ نہيں کرتي- انھيں تو سوائے سازشوں کے اور کچھ نہيں سوجتا- اب تو عرصہ ہوا کہ کبھي پاکستانی ٹرين ميں سفر کيا ہو، البتہ کالج کے زمانے ميں کبھی کبھار فرسٹ کلاس، ليکن زيادہ تر تھرڈ کلاس ميں سفر کيا تھا- ان دونوں طرح کے سفر کی ياد ابھی تک ذہن سے محو نہيں ہوئي- فرسٹ کلس ميں سب مسافر خوش و خرم سفر انجوائے کر رہے ہوتے تھے، جبکہ تھرڈ کلاس ميں لڑائی جھگڑے معمول کی بات تھي- حقيقت ميں ہمارا ملک تھرڈ کلاس کے ڈبے کی مثال بنا ہوا ہے، سيٹيں کم ہيں اور مسافر زيادہ-
بات پلے نہ پڑنےوالی ہے۔ہابيل اور قابيل کا معاملہ تو سمجھ ميں ںآتا ہے کہ ابتدائی دور کی بات ہے جب انبياء اکرام نے درس انسانيت نہ ديا تھا۔ اب جو بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے تو وجہ کيا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ مفاد پرستی اور دين سے دوري۔ خدا ہميں سيدھی راہ دکھائے۔آمين!
صا ب جی شا يد آ پ ٹھيک کہتے ھيں„ليکن پا کستانيو ں پر تجربے کون کر رھا ھے آپ اس بات کا ذکر کرنا شا يد بھو ل گۓ