برطانوی سیاست میں 'سندھ کارڈ'
چند سال پہلے کی بات ہے جب میں اپنے علاقے میں لیبر پارٹی میں کافی فعال تھا۔ اپنے وارڈ میں لیبر پارٹی کی تنظیم نو میں مدد کرنے پر حلقے میں لیبر پارٹی کے سیکریٹری میرے کافی بے تکلف دوست بن گئے تھے۔ ایک دن ہم لیبر پارٹی کی قیادت میں تبدیلی کے معاملے پر بات چیت کر رہے تھے تو میرے دوست مارٹن چُیو نے مجھے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گورڈن براؤن بہت اچھے لیڈر ہیں لیکن پارلیمان میں لیبر پارٹی کے اکثریتی انگلش ارکان کو ایک سکاٹش وزیر اعظم ہضم نہیں ہو سکے گا۔
میرے دوست مارٹن چُیو کی بات اس حد تک تو غلط نکلی کہ انہیں لیبر پارٹی قیادت کوئی نہیں سنبھالنے ہی نہیں دے گا۔ جب ٹونی بلیئر نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو گورڈن براؤن بلا مقابلہ پارلیمانی لیبر پارٹی کے لیڈر اور برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن لیبر پارٹی کے جیالوں نے انہیں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ وہ سرکشی کی ایک کوشش کو ناکام بنا کر فارغ نہیں ہو رہتے کہ ایک اور سازش سراٹھائے ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی ٹونی بلیئر کی حکومت کے وزیر دفاع جیف ہون اور وزیر صحت پیٹریشیا ہیوٹ نے درفنتنی چھوڑی کہ لیبر پارٹی کو مئی میں ہونے والے عام انتخاب سے پہلے خفیہ ووٹنگ کے ذریعے نئے لیڈر کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لیکن توقع کے برعکس ان کی اپیل پر کسی نہ کان نہ دھرا اور نہ تو کسی وزیر نے استفیٰ دیا اور نہ ہی اس مطالبے کی حمایت میں کوئی بیان آیا۔
ابھی جیف ہون اور پیٹریشیا ہیوٹ کے خط کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ گزشتہ اختتام ہفتہ لیبر پارٹی کے سابق مرکزی سیکریٹری پیٹر واٹ کا یہ بیان سامنے آیا کہ گورڈن براؤن کی قیادت میں لیبر پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے نظر نہیں آتی۔
اگر پاکستان ہوتا تو گورڈن براؤن کب کے اپنا 'سندھ کارڈ' نکال کر پارٹی میں موجود سازشی عناصر کے خلاف میدان میں اتر چکے ہوتے۔ لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ برطانوی سیاسی منظر نامے میں سندھ کارڈ کا مماثل سکاٹش کارڈ ان کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ اس پر سکاٹ لینڈ کی قوم پرست جماعت سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی یا ایس این پی کے لیڈر ایلیکس سالمنڈ کا قبضہ ہے۔
گورڈن براؤن کے پاس ان کا واحد ہتھیار ان کی قیادت میں برطانوی عوام کے لیے لیبر پارٹی کی خدمات ہیں اور گھر کے بڑے کا وہ کردار ہے جو انہوں نے پہلے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعظم کے طور پر عالمی کساد بازاری سمیت انتہائی مشکل حالات میں ملک کی ناؤ کو کنارے لگانے میں ادا کیا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
چلو اس سے يےپتہ تو لگا کے آپ کے ليبرپارٹی کی قيادت سے اچھے تعلقات تھے اور کيا پتہ کبھي آپ کی باری آجاۓ تو پھر ديکھيں گے آپ کون سا کارڈ استعمال کرتے ہيں؟ پاکستاني، ايشين ،مذھب يا رنگت
واہ کیا کہنے بی بی سی کے کبھی تو ’’سندھ کارڈ‘‘ کی حمایت میں لکھتے لکھتے آپ کے قلم نہیں تھکتے اور کبھی پینترا بدل کر حکومت مخالف بن جاتے ہیں آپ کے کیا کہنا؟ ویسے براہ کرم یہ بتا دیں کہ بی بی سی کا اصل ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا ہی ہے؟
آخرکار بي بی سی نے بہی سندہ کارڈ کی بات کرہی لي ۔سندہ کارڈکس نے اور کب استعمال کيا اس بحث ميں پڑنے سے پہلی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ آج کل سندہ کارڈ کے نام پر سندہ اور سندہيوں کی سياسی سوچ اور بصيرت پر طعنے مارنے کا ايک رواج ہی پڑ گيا ہےـميں کسی حکمران کی حمايت نہيں کرتا ليکن سندہ کارڈ تو پاکستان بننے سے پہلے بہی استعمال ہوا تہا اور وہ اس طرح ہوا کہ جب سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق ميں قرارداد منظور کی تہيـ کيا وہ فيصلہ غلط تہا؟ سندہ کارڈکا استعمال سندہ سے تعلق رکہنے والےحکمران کم باہر والے اور اسٹبلشمنٹ کےحواری زيادہ کرتے ہيں۔ ـسندہ کارڈ پر تبصرہ کرنے والے اس نعرے کے لئے کيا کہتے ہيں جو پنجاب سے شروع ہوا تھا تيری پگ نوں لگ گيا داغ جاگ پنجابی جاگ۔تب تو کسی نے اسے پنجاب کارڈ کا نام نہی ديا۔
ھر کسی کا اپنا طر يقۂ واردا ت ھو تا ھے„„سند ھ کا ر ڈ جيسی اصطلا ح شا يد ڈو مو ر والو ں نے سکھا ئ ہو„„کيا پتہ بر طا نو ی معا شر ہ بھی نسل پر ست ھو تا جا رھا ھے ا و ر شد ت اس ميں کا فی آ رھی ھے„„مثا ل در ج با لا حا ضر ھے„„
لیبر پارٹی میں ‘جیالے‘ بھی ہیں، سازشی عناصر بھی ہیں، کسی رائے پر کان نہ دھرنے والے بھی ملتے ہیں اور سب سے بڑھ کر برطانیہ کی لیبر پارٹی کے وزراء استعفٰی دینا بھی پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ گویا لیبر پارٹی اصل میں برطانیہ کی ‘پی پی‘ ہوئی! فرق صرف یہ کہ گورڈن براؤن کے پاس ‘سندھ کارڈ‘ کی طرح ‘سکاٹش کارڈ‘ نہیں ہے اور بس یہی ایک بات آپ کو لیبر پارٹی کی شکست دکھا رہی ہے۔ ازرائے مہربانی ڈونٹ وری، بس تھوڑی سی آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ قومی سیاست میں ‘کارڈ‘ کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ‘کارڈ‘ داصل سیاسی مخالفین کی ایجاد کردہ ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی پارٹی کو ‘جنم بھومی‘ (سندھ) سے آگے ڈیرے جمانے سے روکنا اور اگر ڈیرہ جما لیا گیا ہو تو وہاں سے پاؤں اکھاڑنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ ‘سندھ کارڈ‘ اگر حقیقت ہوتا تو پاکستان پیپلز پارٹی صرف سندھ تک ہی محدود رہتی، یہ چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت کا درجہ حاصل کرنے والی واحد پارٹی نہ ہوتی۔ علاوہ ازیں، سیاست میں ‘کارڈ‘ ایشو سرایت کرنے والے دراصل ملک کی قومی یکجہتی کی فضاء کے خواستگار نہیں ہوتے، وہ اس ‘کارڈ‘ کے بدلے صوبوں میں باہمی چپقلش کو بھڑکانے اور نفرت کی دیواریں چُننے کا موجب بنتے ہیں۔ گویا، ‘کارڈ‘ اصطلاح دارصل ملٹری و سول بیوروکریسی اور اسکی پیداواروں مثلآ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پنجاب تک محدود، سرمایہ داورں کے ٹولے، تاجروں کے جمگھٹے اور آڑھتیوں کے چھتے پر مشتمل ن لیگ کی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے گورڈن براؤن کو ‘سکاٹش کارڈ‘ سے متفکر نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کی سیاست برطانوی عوام کے لیے ہے کسی ‘کارڈ‘ کے لیے نہیں اور یہی بات لیبر پارٹی کی سیاست کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کی طرح ‘علاقائی‘ کی بجائے قومی دھارے کی سیاست میں لا کھڑا کرتی ہے اور یہ بات لیبر پارٹی کے ‘نظریاتی‘ ہونے کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔
پہلی بات تو يہ ہے کہ برطانيہ کی سياست کا موازنہ پاکستانی سياست سے کرنا نہيں بنتا۔ کہاں ترقی يافتہ اور سر پلس بجٹ والا ملک اور کہاں پاکستان بيچارہ آمريت کے زخموں سے چور اور بيرونی قرضوں پہ چلنے والا ملک۔يہاں تک تعصب کی بات ہے وہ تو دنيا ميں ہر جگہ موجود ہے ليکن اس کو ماننے والا صرف ايک مخصوص طبقہ ہوتا ہے جس کا مقابلہ صرف سياسی تجربہ کار ہی کرسکتا ہے جيسا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظير نے کيا جنہوں نے عوامی کارڈ استعمال کرکے سب کے منہ بند کيۓ۔کسی بھی تعصبی کارڈ کو استعمال کرنے کے ليۓ عوام کی اکثريت کا غريب اور کم پڑھا لکھا ہونا ضروری ہوتا ہے اس ليۓ پاکستان کی نسبت برطانيہ ميں ايسا کارڈ استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے اس ليۓ گورڈن براؤن کو شائد اتنا مسۂلہ نہ بنے۔ايک بات جو ميری سمجھ ميں نہ آئی آپ نے صرف سندھ کارڈ کا لفظ کيوں استعمال کيا؟ شريفوں نے بھی تو پنجاب کی پگ کا لفظ کئی اليکشنوں ميں استعمال کيا۔ جبکہ سرحد اور بلوچستان ميں يہ کارڈ تو عام طور پر کھيلنا فن سمجھا جاتا ہے۔ اور تو اور آپ کا سٹی فيلو الطاف حسين کونسا کارڈ کھيلتا ہے؟
سندہ کارڈ کی نام کی غلط تعبیر پر افسوس ہے
دلچسپ تپصرہ ساجد صاحپ-
محترم اگر گورڈن براؤن بغير کسی جرم کے دس سال قيد کاٹتے، ان کی بيوی کو س عام قتل کيا جاچکا ہوتا ، ان کی پارٹی کے پہلے سربراہ کا عدالتی قتل کيا گيا ہوتا اور برطانيہ بھی پاکستان جيسا ملک ہوتا تو ميں آپ سے پوچھتا کہ گورڈن براؤن کا اصل ہتھيار کيا ہے؟
پتہ نہیں آپ نے کیسے برطانیہ کا موازنہ پاکستان سے کیا ہے، آپ کے بلاگ میں منافقات کی بوآرہی ہے یہ یقینا یہ بی بی سی کا موقف نہیں۔