زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔
ہیٹی میں زلزلے نے یہ یاد دلا دیا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔
ہم جو اتنی لمبی چوڑی پلاننگ کرتے ہیں کہ 'اگلے سال یہ کریں گے، اور پانچ سال بعد وہ کریں گے۔۔۔' یہ کافی فضول ہی ہوتی ہے۔
جب زندگی کا کچھ پتہ ہی نہیں تو اس قسم کی پلاننگ کا ہمیں غلام نہیں بن جانا چاہیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی پلک جھپک میں بدل جاتی ہے۔ چاہے زلزلے کی تباہی سے، یا دہشت گرد حملے سے، یا پھر کسی حادثے یا بیماری سے۔۔۔ اور بہتر یہ ہی ہے کہ ہم اس کے لیے ہمیشہ ذہنی طور پر تیار رہیں۔
ہمیں یہ نہیں پتہ ہے ہمارے بچے کتنے دن تک اس دنیا میں ہیں۔ یہ نہیں پتہ کہ سکول سے وہ بخیریت لوٹیں گے یا نہیں، یہ نہیں پتہ کہ وہ کب کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہو جائیں گے۔
بچوں کی زندگی اور تعلیم کی پلاننگ کرتے ہوئے ہم اکثر بچوں کو ہی نظر انداز کر جاتے ہیں۔ ان کی روز مرہ کی باتوں اور مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک نہیں ہوتے۔
ہم ایک دوسرے کو بھی نظر انداز کرتے رہتے ہیں، بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ پھر جب کوئی اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو افسوس بھی کرتے ہیں اور ہمیں غم بھی ہوتا ہے کہ اس شخص سے ہم نہ بہت سی باتیں نہ کہہ سکے، بہت کچھ سیکھ نہ سکے۔
زندگی ایک تحفہ ہے۔ جو دن بھی اچھا گزر جائے اس کا شکر کرنا چاہیے۔ کل کا کچھ پتہ نہیں۔بنیادی پلاننگ ہماری یہ ہونی چاہیے کہ صورتحال جو بھی ہو ہم اس سے نمٹ لیں گے اور جتنا بھی وقت ہو ہمارے پاس ہم اس کو خوشی سے، بغیر دوسروں کو تکلیف پہنچائے ہوئے گزار لیں گے۔ کیونکہ پلک جھپک میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خیری صاحبہ، ہیٹی کے زلزلے سے جو قیامت دل پر گزری، آپ کا یہ بلاگ پڑھ کو بہت ڈھارس بندھی- آپ کی یہ تحریر یقینی طور پر زخموں پر مرہم رکھنے والی اور ڈوبنے والوں کو سہارا دینے والی ہے۔ آج تک خاکسار کی نظروں میں جتنے بھی بلاگ آئے، ان میں سے آپ کا یہ وہ واحد بلاگ ہے جس میں عدم اتفاق کا ایک لفظ تک بھی چراغ لے کر بھی ڈھونڈھنے سے نہیں ملتا۔ اس خوبصورت، بر وقت،حوصلہ افزا اور حقیقت پسندانہ بلاگ لکھنے پر بہت مبارکباد اور آپ کا بہت شکریہ۔
‘مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم‘
بالکل عنبر خیری صاحبہ، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
وقت قریب آ رہا ہے
‘اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی‘
گزرے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت سکوں ہوا . سولہ آنے سچ کہا آپ نے -
محترمہ ! پلاننگ کے بارے آپ کے نقطہ نظر سے تھوڑا سا اختلاف کرتے ہوئے عرض ہے کہ اچھی پلاننگ کے سنگين اثرات کوکم کرنے ميں مددگار ثابت ہوسکتي ہے- کسي بھي رسک کو مکمل طور پر زيرو کرنا قريب قريب ناممکن ہوتا ہے تا ہم مستقبل کے واقعات کی پيشگوئي و پلاننگ کسی حد تک مددگار ہوسکتي ہے- اگرچہ ہمارے پلان ناکام بھی ہو جائيں- ہيٹی ہی کی مثال لے ليجيے کہ اگر کنسٹرکشن پلاننگ يا بعد از آفات کا پلان ہوت تو اتنی تباہی سے کافی بچا جا سکتا تھا جيسا کہ جاپان اور دوسرے زلزلہ کا شکار ممالک نے انتظامات کيے ہيں- جس طرح پنشن پلاننگ سے ليکر گاڑی کی انشورنس لينے تک مستقبل کے سرپرائزز کے برے معاشی اثرات کم کرنے ہی کی ايک اچھی کوشش ہوتی ہے اسی طرح جانی نقصانات سے بچنے يا کم کرنے کے کئی کامياب طريقے ترقی يافتہ ممالک کی پبلک پلاننگ کالازمی حصہ ہيں جو آپ ہم سے بہتر جانتي ہيں- باقی رہنا صرف قادر مطلق کی ذات نے ہے باقی ہر شے فنا ہونے والی ہے ليکن اس کا يہ ہرگز مطلب نہيں کہ فنا تو ہونا ہی ہے پھر پلاننگ کا کيا فائدہ- نبی کريم عليہ السلام نے بھی ”اونٹنی کا گوڈا” باندھنے کے بعد ہی توکل کا حکم ديا تھا- بات کو قول علی کرم اللہ وجہہ پر ختم کرتا ہوں- فرمايا ” جس قوم ميں تنظيم نہيں وہ قوم لائق تعظيم نہيں” اور ہم جانتے ہيں کہ پلاننگ کرنا تنظيم کا بنيادی جزو ہے-
محترمہ آپ نے زندگی کی حقيقت بيان کردی ليکن يہ باتيں تو سب کو معلوم ہيں ليکن زندگی کے سفر ميں سبھی بھول جاتے ہيں کہ آخری سانس کونسا ہے۔ اصل لڑائی تو اس بات پہ ہوتی ہے کہ کونسی کلاس ميں سفر کيا جائے جيسا کہ ٹرين يا جہاز ميں ہوتا ہے کہ کوئی فرسٹ کلاس کے لئے تگ و دو کرتا ہے تو کوئی بزنس کلاس اور کسی بيچارے کے حص ميں اکانومی يا سيکنڈ کلاس آتی ہے۔ ليکن جب موت آتی ہے يا حادثہ ہوتا ہے وہاں قدرت کسی کلاس کی پرواہ نہيں کرتي۔بس اگر ہمارے بڑے سياستدان اور فوجی اپنے دلوں ميں محترم عبدالستار ايدھی جيسا درد پيدہ کرليں تو پاکستانی عوام بھی زندگی کو ايک تحفہ ہي سمجھيں گے۔
اس زندگی ميں رہتے ہوے کبھی پھی آنے والی زندگی کو نہيں پھو لنا چاہے اور ہر کام آخرت کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہے کيو نکہ ہميشہ کی زندگی وہی ہے-
د ائم رھے گی دنيا„„„„„ھم نہيں ھوں گے ھم جيسا کوئ اور ھو گا
ھمارے پاس زندگی امانت ہے، لہذا ہر لحمہ سوچ سمھج کر گزارنا چاہيے- منصوبہ بندی ہماری امانت کا حصہ ہے اور خيانت جرم ہے- جب بھی اور جس طرح بھی موت آۓ گی تبھی ہم اس امانت سے فارغ ہونگے- ھم موت سے نہيں ڈرتے مگر جو بھی زندگی ملی ہے اسے اپنے ليے، اپنے خاندان کے ليے، اور اپنی قوم کے ليے بہترين استمعال ميں لانے کے لئے منصوبہ بندی سے ہی گزارنا ہے- يہی اپني، اپنے خاندان کي، اور قوم کی بہترين خدمت ہے-
خيري بہن سلام مسنون
آپکا کالم انتہائی عارفانہ و آگاہانہ ہے-
کسی ولی خدا نے کيا خوب کہا آخرت کی زندگی کي پلاننگ کر جو بس ابھی آيا ہی چاہتی ہے کيونکہ اسی سے دنياوی زندگی ميں بھی سکون قلب اور حسن انتظام آئے گا
بقول درد
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
میر صاحب کہہ گئے تھے
جس سر کو غرور آج ہے یا تاج وری کا
کل اس پہ یہی شور ہے پھر نوحہ گری گا
اور صابر ظفر نے جنون کی زبانی کیا خوب نکتہ بیان کیا ہے
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
‘جینے والوں کو جیتے جی مرنے کا غم کیوں ہو؟
شوخ لبوں پر آہیں کیوں ہوں، آنکھوں میں نم کیوں ہو؟
آج اگر گلشن میں کلی کھلتی ہے تو کل مرجھاتی ہے
پھر بھی کُھل کر ہنستی ہے اور ہنس کے چمن مہکاتی ہے
کل کا دن کس نے دیکھا ہے آج کا دن ہم کھوئیں کیوں
جن گھڑیوں میں ہنس سکتے ہیں ان گھڑیوں میں روئیں کیوں
گائے جا مستی کے ترانے، ٹھنڈی آہیں بھرنا کیا؟
موت آئی تو مر بھی لیں گے، موت سے پہلے مرنا کیا‘
(ساحر لدھیانوی)