| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پاکستانی ریاست اور مقامی زبانیں

اصناف: ,

اسد علی | 2010-01-16 ،23:07

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی طرف سے لاہور میں پنجابی میں تقریر کے بعد اعلان کیا گیا کہ وہ اب بلوچستان میں بھی اس کی مقامی زبان میں خطاب کریں گے۔

یہ ایک اچھی کاوش ہو سکتی ہے اگر بات صرف خطاب سے آگے بڑھ جائے اور مقامی زبانوں کو انگریزی اور اردو کے ساتھ برابر کا مقام دیا جائے۔

فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ کم سے کم پنجاب میں تو لوگ اپنے بچوں کا پنجابی بولنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس رجحان کو شروع ہوئے کئی برس ہو چکے ہیں۔ اس کی مثال اب دیہات میں بھی گھر گھر میں موجود ہے۔

یہیں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آصف زرداری اپنے بچوں سے کس زبان میں بات کرتے ہوں گے۔ جن لوگوں کو آئندہ حکمرانی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ان کی زبان عوام سے مختلف کیوں ہے۔


آخری بار پاکستان گیا تو سرگودھا میں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو ایم اے اکنامکس کر رہا تھا اور جس کی تمام تر گفتگو انگلش کے گرد گھومتی تھی۔ اس نے کئی بار ایک دوست کا ذکر کیا جس کی انگلش بہت 'ہائی' تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ اکنامکس تو ہو جائے گی اصل مسئلہ انگلش کا ہے۔ ایک پرانے وکیل کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی تو انہوں کہا کہ 'ماشااللہ اب تو میں انگریزی میں بھی دلائل دے سکتا ہوں۔'

بہت سال ہوئے ایک صحافی دوست سے گپ لگ رہی تھی جن کی انگلش بہت اچھی ہے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میں ہائی کورٹ میں ایک کیس کی رپورٹنگ کر رہا ہوں جس میں اعتزاز احسن اور دیگر بڑے بڑے وکیل پیش ہو رہے ہیں تو انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ اعتزاز کا انگلش کا لب و لہجہ کیسا ہے۔ میرے دوست کے لیے دلائل ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

پاکستان کے نوجوانوں کو اچھی طرح احساس ہے کہ محنت کے بغیر تو شاید کام چل جائے لیکن بہتر انگلش کے بغیر ترقی کا دروازہ ان پر بند ہی رہے گا۔ ہر پاکستانی کتنے ہی ایسے لوگوں کو جانتا ہوگا جنہوں نے انگلش کی وجہ سے پرائمری، مڈل، میٹرک، یا بی اے میں انگلش میں بار بار فیل ہونے کے بعد تعلیم کا سلسلہ ادھورا چھوڑ دیا۔

عالمی سطح پر کئی بار بنیادی تعلیم مادری زبان میں دینے کی اہمیت پر بات ہو چکی ہے لیکن پاکستان میں ابھی مقامی کلچر کو کمتر سمجھنے کا رواج جاری ہے۔

جس نے بھی کبھی سول یا فوجی افسر شاہی کا یا عدالتی نظام کا حصہ بننے کا خواب دیکھا ہے اسے معلوم ہے کہ اس میں انگلش میں بول چال کی صلاحیت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں انگلش سیکھنے کے یکساں مواقع نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک محدود اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف انگلش کے بل پر ہی ملک میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔یکساں تعلیمی مواقع نہ ملنے کا نقصان یہ ہے کہ ایک بڑی اکثریت ریاست سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے انگلش کی تعلیم کو عام کیا جائے اور ملک کے مختلف حصوں کی ثقافتوں کو تسلیم کیا جائے اور تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر نوکری کے لیے امتحان میں انگریزی اور اردو کا پرچہ ضرور رکھیں کیونکہ یہ بحرحال اندرونی اور بیرونی سطح پر رابطے کی زبانیں ہیں لیکن اختیاری مضامین کسی بھی زبان میں پڑھنے کا حق ہونا چاہیے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 5:04 2010-01-18 ,محمد بلال :

    اللہ پاک آپ کو ہمت دے، ایک صحیح مسئلے پر لکھا ہے آپ نے۔ جاپان میں جب شکست کی دستاویز بادشاہ کے سامنے رکھی گئی تو بادشاہ نے کہا کہ ہمیں آپ کی سب شرائط منظور ہیں لیکن ہماری ایک شرط ہوگی کہ ہمارے اسکولوں میں تعلیم جاپانی زبان میں ہی ہوگی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

    میری بھی سب کالم نگاروں سے یہی درخواست ہے کہ وہ قوم کی ان باتوں پر دھیان دیں جس سے ہم آگے بڑھ سکیں، نہ کہ گھسے پٹے موضوعات پر {مذہب،دہشت گردی، وغیرہ}طبع آزمائی چھوڑدیں۔ یہ سب تعلیم کے نہ ہونے، سماجی ناانصافی اور طبقاتی فرق کی بناء پر وجود میں آئیں ہیں۔ لہذا برائی کی جڑ کو پکڑیں نہ کہ اپنا زور خطابت فضول چیزوں میں لگائیں۔

    اسد بھائی، آپ کو مبارک ہو آپ نے بھی صحیح راستے پر قدم رکھ دیا ہے، بالکل اسی طرح وسعت بھائی کو مبارک ہو کہ وہ بھی برائی کی جڑ کو پکڑ لیتے ہیں۔

    اللہ پاک آپ لوگوں کو ہمت اور استقامت عطا فرمائے {آمین}

  • 2. 5:06 2010-01-18 ,محبوب بگٹی :

    آپ نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں کئی حقیقتیں ہیں اور ان سے کوئی انکار نہیں۔۔۔۔۔مگر جہاں تک کسی زبان کی اہمیت کا تعلق ہے تو اول ہم خود اس زبان سے تعلق پیدا کریں۔۔۔۔۔اور دوسری حکومتی پالیسیاں اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالہ ہے کہ حکومتی سرد مہری تو شدت سے موجود ہے اور اوپر سے عوامی سطح پر اپنی ماں بولیوں سے دوری بھی عروج پر ہے۔۔۔۔۔۔اسد صاحب آپ نے بہت خوب لکھا اور موقع کی مناسبت سے لکھا۔

  • 3. 6:45 2010-01-18 ,Husnain Hayder :

    جناب یہاں تک تو باتے ٹھیک ہے کہ ہمیں انگلش سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر اس میں قباحت تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ ایک دوسرے کی زبانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ پنجابی اپنے بچوں کا پنجابی بولنا پسند نہیں کرتے مگر دوسرے صوبوں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر پنجاب کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے اور اسی طرح پاکستان میں زیادہ تر لوگ مقامی زبانوں کا اتنا احترام کرتے ہیں جتنا کہ وہ اپنے والدین کا بھی شاید نہیں کرتے اور ان انسان کی بنائی ہوئی زبانوں کو لے کر ایک دوسرے کو مارنے کاٹنے کو دوڑتے ہیں جو کسی طور بھی لائق تحسین نہیں ہے۔ زبان کسی بھی طبقے کا ایک قیمتی اثاثہ تو ہو سکتی ہے مگر اس کے فروغ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے پائے اور لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے قومی یکجہتی کو پہلے نمبر پر اور باقی باتوں کو دوسرے نمبر پر رکھنا چاہیئے شکریہ۔۔۔

  • 4. 6:56 2010-01-18 ,علی گل ، سڈنی :

    پنجابی ميں تقرير کرکے آصف زرداری نے شايد ان چند لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جو آج کے ترقی يافتہ دور ميں چھوٹے چھوٹے ايشوز اٹھا کر سياست کرتے ہيں يعنی پہلے زرداری کے سندھی ٹوپی پہننے پہ شور مچا پھر قائداعظم اور بے نظير کی فوٹو پريزيڈنٹ ہاؤس ميں آويزاں کرنے کو ايشو بنايا گيا وغيرہ۔يہا تک پنجابی زبان کا تعلق ہے اس مييں ابھی تک الفاظ کی کمی ہے يعنی بہت سے معنوں کے ليۓ ايک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ مسٹنڈوں کو غير اخلاقی جگتيں لگانے کا موقع مل جاتا ہے تو ايسے ميں اگر اردو کا استعمال کيا جائے تو اس ميں بھی انگلش زبان کی آميزش کرنی پڑتی ہے تو لے دے کر بات انگلش پہ ہی آتی ہے کيونکہ يہ اب بينالااقوامی زبان بھی ہے۔

  • 5. 9:08 2010-01-18 ,عظمت سباوون مروت :

    اپنے بچے کو سکول ميں داخل کرنے کے لۓ پشاور کے مختلف سکولوں کا دورہ کيا- کسی ميں بھی پشتو زبان کا کورس نہيں پايا- کچھ سکولوں کے ايڈمنسٹريشن نے تو فخريہ بتايا کہ ہمارے سکولوں ميں تو پشتو بولنے بر بالکل پابندی ہے- سن کر بڑا افسوس ہوا کہ ہم پشتون اپنے بچوں کو ان سکولوں ميں تعليم حاصل کرنے کے لۓ داخل کرتے ہے يا بيرونی ثقافتوں کے يلغار کے حوالے کرتے ہيں - کیاان حالات ميں آۓ دن سکولوں کو بموں سے اڑانا بے معنی ہے؟

  • 6. 10:03 2010-01-18 ,اے رضا :

    چودھری صاحب ، جيسا کہ بلال صاحب نے فرمايا آپ نے واقعی ايک بہت اہم مسئلے کی نشاندہی فرمائی ہے - يہ صرف مقتدر طبقات کی بدنيتی ہے جوعام آدمي کو محتاج رکھنا چاہتے ہيں ورنہ انگريزي زبان کوئي راکٹ سائنس نہيں - مناسب نصابي کتب اور تربيت يافتہ اساتذہ سے ہر کوئي اس پر دسترس حاصل کر سکتا ہے- يہاں ايک بات عرض کروں کہ دل ميں تڑپ ہو تو انسان ديواروں ميں سے بھي رستے نکال ليتا ہے - ميں ايسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے عام اسکولوں سے پڑھ کر بھی فقط اپنی ذاتی لگن اور کثرت مطالعہ سے اس زبان پر ايسا عبور حاصل کيا کہ اعلٰی ترين اداروں سے فارغ التحصيل افراد سے بھی اچھا لکھتے اور بولتے ہيں - اور يہ اللہ کي کرم نوازي اور ان کی اپنی محنت کا نتيجہ ہے -

  • 7. 13:13 2010-01-18 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    چوہدری جی، بات یہ ہے کہ پاکستانی ‘اسٹیبلیشمنٹ‘ ملک میں ‘قومی یکجہتی‘ کا ڈھول تو یہ صبح شام، دن رات پیٹتی رہتی ہے اور جس کا مطلب ہی پاکستان کی حقیقی اور خالصتآ چاروں قومیتوں یعنی پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختون کے وجود کا اقرار ہوتا ہے مگر اسکے باوجود یہ پاکستانی قومیتوں کے وجود کی انکاری ہے۔ چونکہ پاکستان یک قومی کی بجائے کثیر القومی ملک ہے لہذا اس میں ایک سیاسی وحدت کے اندر قومیتوں اور مختلف اقسام کے سماجی گروہوں کے وجود کی نفی ‘قومی یکجہتی‘ کی نفی ہوگی۔ جس طرح مختلف افراد کی ایک جیسی، ملتی جلتی معاشرتی خصوصیات ایک سماجی گروہ یا قومیت کی تشکیل کرتے ہیں اسی طرح مختلف قومیتوں کی مشترک معاشرتی خصوصیات ہی کسی ‘قوم‘ کی تعمیر کا حقیقی سبب بنتی ہیں۔
    بدقسمتی سے پاکستان پر شروع ہی سے ایک ہی سماجی و لسانی و غیر قومی اقلیتی گروہ جو سراسر حادثے کے سبب حکومت، سیاست، میڈیا، معیشت، اور تعلیم و ذرائع ابلاغ پر مکمل غلبہ حاصل کر لے اور دیگر تمام قومیتوں کے مفادات و تحفظات کو خیرباد کہہ کر پورے وفاقی ڈھانچہ پر اپنی گرفت مضبوط کر لے تو نہ حقیقی قوم تشکیل پا سکتی ہے اور نہ ہی مقامی قومیتوں میں اس کے شدید ردِعمل کو روکا جا سکتا ہے۔ ۔ یہ بھی محض پراپیگنڈہ یا ‘ڈِس انفارمیشن‘ ہے کہ پنجابیوں نے اردو کو قومی زبان سمجھ کر اپنی ماں بولی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اس پراپیگنڈہ کے پیچھے بھی وہی غیرقومی گروہ ہے جسکی جڑیں اسٹیبلشیمنٹ میں انتہائی گہری ہیں، کیونکہ ایسا کرکے وہ اپنی ‘قوم‘ کو آگے لانا چاہتا ہے اور اپنی ثقافت و زبان کو پورے پاکستان میں ترقی دینا چاہتا ہے۔ باالفاظ دیگر، یہ ٹولہ اپنی قومیت کا طوطی بلوانا چاہتا ہےاور دوسری قومیتوں کے وجود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ واضح ہو، اردو زبان کا پاکستان سے کوئی جغرافیائی و معاشرتی و ثقافتی تعلق ہی نہیں ہے، یہ غیرملکی زبان ہے۔ حاصل بحث یہ کہ پاکستان میں چار قومیں ہیں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان۔ ان چاروں قومیتوں کو ایک ‘غیرملکی قوم‘ اپنی ‘قوم‘ کی کرسی کی طوالت کے لیے لڑوا رہی ہے۔ کاش کہ ہمارے اکابرین جناح کے پاکستان کو اپنا خودساختہ پاکستان نہ بناتے۔ لیکن اب بھی وقت ہے نئے معاہدے کا، نئے سوشل کنٹریکٹ کا، نئی دوستیوں کا، نئے بھائی چارے کا، نئے ایثار کا۔ !!

  • 8. 14:07 2010-01-18 ,سیورا :

    اور پتا نہیں ملتان میں سرائیکی زبان میں صدر اور وزیر اعظم دونوں کب خطاب کریں گے؟

  • 9. 16:27 2010-01-18 ,مصد ق خا ن نيا ز ی ميا نو ا لی :

    صا حب جی واقعی يہ بہت اھم مسئلہ ھے„„مگر بلی کے گلے ميں گھنٹی با ندھے کو ن ؟

  • 10. 17:45 2010-01-18 ,Dr Alfred Charles :

    آآپ نے یہ بات بڑے ہی موثر و درست انداز سے بيان کی ہے۔ جس سرزمين پر آئينی پامالی کوئی اچھنبے کی بات نہ ہو بلکہ معمولی بات ہو تو وہاں کيا تذکرہ کہ آئينی لحاظ سے اردو قومی و لازمی سرکاری زبان ہےـ آئين ميں اس کے نفاذ کی مدت بھی رکھی گئی مگر توجہ نہ پا سکی کيونکہ اس کا واسطہ ايسے لوگوں سے پڑا جو کہتے ہيں ’يو نو آئی ايم ہيڈ آف دی اردو ڈيپارٹمنٹ!‘ دفاتر ميں سارا کام يعنی لکھت پڑھت انگريزی ميں ہوتی تھی تو ہم نے بھی رعب دبدبے سے کام نکلوانے کے ليے ششتہ انگريزی بولنے سے کام ليا اور اسے کامياب حکمت عملی پايا۔ رہی بات صدر زرداری کا پنجابی ميں خطاب تو وہ جانے کس کو متاثرکرنا چاہ رے ہيں اور اس سے کيا مقاصد حاصل کرنا مقصود ہے۔ کبھی سندھی ٹوپی پہن کر خطاب کرتے ہيں تو کبھی عنديہ ديتے ہيں کہ ديگر علاقائی زبانوں ميں بھی خطاب کريں گے مگر اس سے کيا وہ قومی يکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہيں؟ مگر وہ فراموش کرديتے ہيں کہ وہ وفاق کی علامت ہيں

  • 11. 22:52 2010-01-18 ,Nadeem Ahmed :

    کوئی اللہ کا بندہ يا تنظيم ہمت کرے، تو پہلا کام يہ کرے کہ قومي و علاقائی زبانوں کے ملغوبے سے ايک پاکستاني زبان تيار کرے، جسکے حروف انگريزی سے مشابہ ہوں اور بائيں سے دائيں لکھی جائے- اسکے علاوہ تمام سائينسی اصطلاحات کو اسی زبان ميں رہنے ديا جائے جو پوری دنيا ميں پہلے سے رائج ہيں- اگر ہميں اپنی قومي اور علاقائي زبانوں کو بچانا ہے تو يہ کام ہنگامی بنيادوں پر کرنا ہوگا، ورنہ دنيا ميں انٹرنيٹ اور ديگر ايجادات کي بدولت جو نئي عالمي زبان تيزي سے نشونما پا رہي ہے، وہ غير ترقی يافتہ اقوام کی زبانوں کو ہميشہ کے ليۓ ختم کر دے گي- نئی نسل تو وہی زبان سيکھے گي، جو اسکے کيرئير ميں مددگار ہوگي-

  • 12. 11:23 2010-01-19 ,اے رضا :

    نديم احمد صاحب کے تبصرے کے تناظر ميں عرض کروں کہ اردو ان کے تجويز کردہ حل کي ہي ايک مثال ہے جو ترکي عربي فارسي اور سنسکرت کے ملاپ پر مشتمل نسلوں کے ارتقائي دور کےبعد اپنی موجودہ شکل ميں حاضر ہے - قدرت اللہ شہاب کے مطابق ساٹھ کی دہائی ميں ايوب خان نے اردو زبان کے لۓ رومن رسم الخط اختيار کرنے کا ارادہ کيا تھا ليکن ان کے مشيروں نے باز رکھا کہ ممکن نہ ہو گا - ترکيہ ميں يہ تجربہ رونما ہو چکا تھا ليکن بظاہر وہاں خ ، ع ، غ ، ق جيسے حروف کا تلفظ نہ سمجھايا جا سکا - نتيجتا” وہاں قديم عمارات پر خط نستعليق ميں خان اور غالب جيسے الفاظ تو نظر آتے ہيں ليکن اہل زبان انہيں حان اور گالب لکھتے اور پڑھتے ہيں - اردو زبان کا ايک مسئلہ محدود ذخيرہ الفاظ بھی ہے- نصابی کتب ميں تکنيکي اصطلاحات عربي ميں اور شاعري فارسي زبان سے مرصع ہے - انگريزي الفاظ کے روز افزوں اضافے کے باوجود اردو فقط ادب اور شاعری تک محدود رہ جانے کا انديشہ ہے -

  • 13. 7:41 2010-01-23 ,Nauman :

    محترم اسد صاحب آپ کا شکریہ۔ مجھے نہیں معلوم آپ پنجابی ہیں، سندھی ہیں، بلوچی ہیں یا پٹھان، کیا آپ کے بچے بھی گپر میں مادری زبان بولتے ہیں۔ اور بچوں کو مادری زبان آتی بھی یا نہیں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔