موت میں بھی خدمت خلق جاری
بھارت کے مرحوم کمیونسٹ رہنما جیوتی باسو موت کے بعد بھی انسانیت کے لیے کام آتے رہے۔ ان کی وصیت کے مطابق موت کے بعد کیا گیا۔
یعنی انہوں نے خوذ غرضی سے اپنی آخرت کا نہیں سوچا بلکہ انسانیت کے کام آنے کو انہوں نے ترجیح دی۔ میرا خیال ہے کہ یہ قابل تعریف فیصلہ تھا۔
میری پیاری دوست اور معروق صحافی سنعیہ حسین کا چند سال پہلے دمہ کے دورے سے کومے میں چلے جانے کے بعد انتقال ہوا تھا۔ وہ بھی موت میں دوسروں کے کام آگئی، خود زندگی نہ رہی لیکن اس نے دوسروں کو زندگی کا تحفہ دے دیا۔ تین مریضوں کو گردے اور جگر دے کر اس نے تین زندگیاں بدل دیں، تین لوگوں کے خاندان والوں کی دعایں قبول کرا لیں۔۔۔
میں نے بھی برطانیہ کے پر اپنا نام لکھوایا ہوا ہے۔ میری اللہ سے یہ ہی دعا ہے کہ میں زندگی میں دوسروں کی جتنی مدد نہیں کر سکی، کم سے کم موت میں تو کر سکوں۔۔۔
جیوتی باسو کا فیصلہ بھی مثالی ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے سائنس ترقی کرتی ہے اور اسی طرح لوگوں کو تکلیف اور بیماری کے باوجود امید کی کرن مل جاتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خيری آپ کے يا سنعيہ اور جيوتی باسو کے مقام کو پہنچنا ہر ايک کے بس کی بات نہيں بس خدا ہميں ہمت دے کہ ہم بھی کسی کے کام آسکيں۔ دوسروں کے ليِے اپنے دل ميں ہمدردی رکھنا باکمال اور جراءت مند لوگوں کا کام ہے۔ ميں نے بھی کئی دفعہ خون کا عطيہ ديا ہے اور ماشااللہ ابھی تک صحت مند ہوں۔ يہ ايک جھجک ہوتی ہے کہ لوگ اچھا قدم اٹھانے سے ڈرتے ہيں اور اگر ہمت کرليں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔
اچھی بات ہے کم ازکم مرکے تو کام آئيں ہم دوسروں کے،ادھر ہميں ڈونر رجسٹر کی ضرورت نہيں يہ عظيم کرنے کيلۓ ايدھي،گورگن ،بنگالي بابازاور چرسی حضرات راتوں رات محنت کرتے ہيں کہ کسی کا بھلا ہو اور ساتھ ان لوگوں کا بھی جگر،گردہ،پھيپھڑے،ناخن حتی کے بال تک خدمت خلق کی جاتی ہے ٹرانسپلانٹ سے ليکر گھريلوناچاقي، ساس بہو قابو کرنا بھی انگنت فوائد ميں شامل ہے۔۔۔
‘جس نے انسان کا روپ دھارا
بن کے انسان سب کو سنوارا
آؤ اس کے کریں درشن‘
محترمہ عنبر خیری صاحبہ، آداب عرض! آپ کے عظیم اور گراں قدر خیالات جان کر جہاں دنیا میں انسانیت کی موجودگی کا ایک دھیما سا احساس پیدا ہوا وہیں پر خاکسار کو ایک پرانا قصہ یاد آیا جس میں ابو بن ادھم نے اپنے کمرے میں ایک فرشتہ دیکھا جو ایک سنہری کتاب پر کچھ لکھ رہا تھا، ابو بن ادھم نے فرشتے سے استفسار کیا تو فرشتے نے کہا کہ یہ ان ان انسانوں کی فہرست ہے جو خدا سے محبت کرتے ہیں۔ ابو بن ادھم کا نام اس فہرست میں نہیں تھا۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ اس کا نام اس فہرست میں لکھ لیا جائے جو خدا کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرے دن فرشتے نے بتایا کہ اس کا نام اللہ کے ساتھ محبت کرنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ انسانیت کا حقیقتی منشور اور انسان کے دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد بھی تنگ حال، مسکین، محتاج، ضرورت مند، غریب، بیمار، پڑوسی کی رنگ و نسل و زبان و طبقہ کے امتیاز کے بغیر خبر لینا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے انسان میں خودغرضی، انا پرستی اور مفاد پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، آج کا انسان بھول گیا ہے کہ اس نے سدا یہاں نہیں رہنا اور یہ بات انسان کی اللہ تعالٰی سے دوری کو واضح کرتی ہے۔ جہاں تک خاکسار کی معلومات ہیں، اس ‘انسانی منشور‘ میں غیرمسلم یا یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ‘لا دین‘ پیش پیش جبکہ مسلمان خال خال ہی ملتے ہیں۔ یہاں لاہور میں سر گنگا رام اور گُلاب دیوی کے بنائے گئے ہسپتال آج بھی خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔ ان ہسپتالوں کو سرکاری امداد سے زیادہ ہندؤؤں اور سکھوں کے فنڈز چلا رہے ہیں۔ مدر ٹریسا نے جو خلق کی خدمت کی وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گی- جب تک دل میں خوفِ خدا نہیں ہو گا اس وقت تک غیروں کا احساس دل میں جاگزیں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا اور جب تک یہ احساس نہیں ہو گا اس وقت تک خدمتِ خلق کا جذبہ نہیں ابھرے گا۔ یہ احساس حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ‘سرمایہ داری‘ اور ‘ملائیت‘ سے جہاں تک ممکن ہوسکے دور رہا جائے اور صوفیوں، درویشوں کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ جذب کیا جائے۔
شا يد انہی جيسے لو گو ں کے با ر ے شاعر نے کہا تھا„„„
نہيں مر تے جن کی جيتی ھيں نيکيا ں
بہت اچھا کام کیا آپ نے، میں نے بھی یہ فارم پر کیا ہے-برطانیہ میں اشیائی کمیونٹی میں عطیات دینے کا رواج نہیں ہے، جسکی وجہ سے اس کمیونٹی میں تیس فیصد اموات زیادہ ہوتی ہیں، جو روکی جا سکتی ہیں- مجھے عطیات نہ دینے کی کوئی مذہبی وجہ سمجھ نہیں آتی- کیوں کہ مرنے کے بعد اس سے اچھی چیز کیا ہوگی کہ کوئی میری آنکھوں کی وجہ سے دیکھ سکے، کسی کی جان مرے کسی ایسے عضو کی وجہ سے بچ جاے جو مٹی میں مٹی ہو جانا ہے- وہ شخص اپنے ہر ہر لمحے میں مجھے بس دعائیں ہی دے گا- نہ جانے پھر کیوں ملا حضرات اسکی مخالفت کرتے ہیں، شاید وہ چاہتے ہیں کہ دعاؤں کے لئے بس انسے ہی رجو کیا جاے- شاید انکے پاس اسکا 'ٹھیکہ' ہے-
مرحوم نے اچھاکام کیا۔
اچھا لکھا ہے
انسانی جسم موت کے بعد اللہ کی امانت ہے۔ اور اسے موت کے بعد دفن کر دینا چاہیے۔ اگر آپ انسانیت کی مدد کرنا چاہتی تو زندگی میں اعضا کا عطیہ دے کر کریں لیکن موت کے بعد میں نہیں۔
یہ دنیا اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔ اور اس کی مثال جوتی باسو ہیں۔ وہ کافر تھے لیکن پھر بھی اچھا کام کیا۔ ۔ اللہ سے دعا ہے ان کو جنت ملےآ انسانیت ہمیشہ قائم رہے گی۔
ڈیئر خیری صاحبہ جی، آپ اپنے جسم کے بارے میں بھی سوچیں کہ آپ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ گھر سے پہلے ہونی چاہیے سو بسم اللہ کریں
جنت ميں جانے کيلۓ مسلمان ہونا ضروری ہے