| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پنجاب پنجابی پر شرمندہ!

اسد علی | 2010-01-27 ،12:37

کچھ عرصہ پہلے لندن یونیورسٹی میں ایک پاکستانی طالبہ بتا رہی تھیں کہ کیسے بچپن میں جب وہ پہلی بار لندن آئیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ یہاں پاکستانی بچے صرف پنجابی اور انگریزی بولتے تھے۔ انہیں اردو نہیں آتی تھی۔

میں نے حیرت کی وجہ جاننی چاہی تو جواب ملا کہ پاکستان میں تو انہیں یہی معلوم تھا کہ 'پنجابی نوکروں سے، ان پڑھ لوگوں سے یا گلی محلے کے بچوں سے بولتے ہیں۔ بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پنجابی اس وقت بھی سننے کو ملتی تھی جب امی ابو میں لڑائی ہوتی تھی۔'

ان کا پنجاب میں گزرے بچپن کا یہی تاثر تھا کہ پنجابی صرف وہ بولتا ہے جسے انگریزی یا اردو نہیں آتی۔

اس کے اگلے روز ہی لندن کی الفورڈ لین میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں موضوع گفتگو 'پنجابی طالبان' ہو گیا۔ اسی دوران پھر انہوں نے جاننا چاہا کیا واقعی پنجاب میں لوگ بچوں کو پنجابی میں بات چیت سے روکتے ہیں۔

پنجاب کے موجودہ ماحول سے واقف لوگ اتفاق کریں گے کہ اس کا جواب یقیناً ہاں میں ہی ہو سکتا تھا۔ پنجاب میں ایک طبقہ ہے جو مادری زبان کی اہمیت پر زور دیتا ہے، پنجابی کے ادبی ورثے پر فخر کرتا ہے لیکن اپنے بچوں سے انگریزی یا اردو میں بات کرتا ہے۔

ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے بچوں کے نام مقامی ورثے سے لیے گئے ہیں لیکن وہ بچے اس ورثے سے ناواقف ہیں اور مادری زبان نہیں بول سکتے۔

اس کے برعکس ایک دوسرا طبقہ ہے جو بچوں کو پنجابی زبان بولنے سے روکتا ہے، بلکہ کئی لوگ اس معاملے میں سختی بھی کرتے ہیں۔ ان سے بات کرنے پر جواب ملتا ہے کہ سارے دانشور خود تو بچوں کو انگریزی یا اردو سکھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے زندگی میں پیچھے رہ جائیں۔


پاکستانی اشرافیہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے خیال میں پنجابی صرف 'بات چیت کی زبان ہے اس کا پڑھائی لکھائی سے کیا تعلق'۔

بات پھر 'پنجابی طالبان' کی طرف پلٹ گئی۔ نتیجہ یہی نکلا کہ کسی بھی معاشرے کی اقدار اس کی شاعری اور ادب، المختصر اس کی زبان میں محفوظ ہوتی ہیں اور جب لوگ زبان چھوڑ دیتے ہیں تو ان اقدار اور روایات سے بھی دور ہو جاتے ہیں جو ایک تاریخی عمل سے وجود پاتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں انتشار اور شکست و ریخت کی بھی شاید یہی وجہ ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:03 2010-01-27 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    چوہدری جی، بحثیتِ مجموعی آپ کی بات سولہ آنے صحیح ہے کہ پنجاب کے لوگ اب ماں بولی کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو ان کو دینی چاہیے تھی۔ دراصل ایسا کرنے کی ایک وجہ خود کو ‘روشن خیال‘ شو کروانا بھی ہے۔ لیکن خاکسار کے علم و مشاہدہ کے مطابق ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو نہ صرف پنجابی زبان کو اپنی اولادوں میں فخر سے پھیلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ پنجابی زبان کو سرکاری سطح پر لاگو کروانے میں بھی کوشاں ہیں اور اس قسم کے لوگوں کی انتہائی تعداد کا تعلق زیادہ تر بائیں بازو سے ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مقامی زبانوں کی حفاظت و ترقی کے لیے گھر کے بعد میڈیا اور سکول ہی بنیادی رول ادا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سکولوں میں اساتذہ کی بھرتی کا طریقہ کار ایک مخصوص اور ایسا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے پس پردہ ملک میں مقامی کلچر و زبان روایات و لباس و کھیل و سوچوں کے محور کو پیچھے دھکیل کر ‘یوپیائی‘ کلچر و تہذیب کو مسلط کرنا ہے۔ پنجاب کے لوگوں کے سادگی، بھولپن، سادہ لوحی اور روایت پرستی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتآ ملائیت و آمریت کی پیداواروں یعنی ن لیگ، جماعتِ اسلامی اور لشکر طیبہ نے اپنی ‘تعلیمات‘ کو بھرپور طریقے سے پھیلا چکی ہیں بلکہ انکی یہ ‘تعلیمات‘، نصاب تعلیم، امتحانی پرچوں، سکولوں اور اساتذہ کے بھرتی عمل میں بھی جادو سر چڑھ کر بول رہی ہیں جسکا بنیادی مقصد ‘عربی کلچر‘ کو مقامی کلچر پر ٹھونس کر ‘حلوہ مانڈا‘ کا لامتناہی سٹاک اکٹھا کرنا ہے۔ اگر کسی سکول میں چند اساتذہ پنجابی ادبی بورڈ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے اساتذہ کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے یا ان کی ‘اے سی آر‘ خراب کر دی جاتی ہے۔ آج ہمیں اپنی مقامی زبان و کلچر کو اہیمت دینی ہو گی بصورت دیگر ہمارا کلچر، ثقافت، زبان سب بتدریج تِتر بِتر ہو جائے گا، نتیجتآ جب صوفیوں کی دھرتی میں ‘ملائیت‘ کا کلچر فروغ جڑیں پکڑ لے تو پاکستان کا ‘طالبان‘ ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔

  • 2. 14:24 2010-01-27 ,بلال احمد :

    بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی

  • 3. 15:21 2010-01-27 ,سجاد الحسنين حيدرآباد دکن :

    اسد علی چودھری صاحب سلام مسنون
    يقينا آپ کی بات سولہ آنے سچ ہے - بے شک زبان روايات اقدار شناخت اور زمانوں کی پاسداری کی امين ہوتی ہے- زبان سے تہذيب کا بھی پتہ چلتا ہے -اگر جاپانی اور چينی يہ سمجھتے کہ انگريزی سے ہی ترقی ممکن ہے تو شاءيد اتنی ترقی نہ کرپاتے پاکستان کے معاشرے کا تو مجھے نہيں پتہ مگر ہندوستان خاص کر جنوبی ہند ميں تعصب کی حد تک اپنی زبان کی پاسداری کی جاتی ہے -چاہے وہ تلگو ہو ٹمل ہو کنڑ ہو يا پھر مليالم بے شک رابھے کی زبان کی حيثيت سے انگريزی سيکھی ضرور جاتی ہے مگر سارے کام چاہے وہ سرکاری ہوں يا غير سرکاری لوگ اپنی زبان ہی ميں کرنا زيادہ پسند کرتے ہيں اور اسی کا نتيجہ ہے کہ يہاں کے علاقے باقی ہندوستان سے کہيں زيادہ خوش حال ہيں اور ترقی يافتہ بھی -آپ نے گذشتہ برس ساوتھ کا دورہ بھی تو کيا تھا - شاءيد يہ بات آپ نے ضرور محسوس کی ہوگی -

  • 4. 16:37 2010-01-27 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب!آپ نے کڑوا سچ بيان کياہے۔ اس ميں کسی حد تک قصور پنجابی اديبوں ودانشوروں ک معلوم ہوتا ہے۔ان کوسندھي و بلوچ قوم پرستوں اورپشتو بولنے والوں سے سبق سيکھنا چاہئيے مگر يہ اردو بولنے ميں اور وفاق پرست بننے ميں فخرمحوس کرتے ہيں

  • 5. 17:23 2010-01-27 ,Kamran :

    پنجاب میں پنجابی اس لیے نھیں پڑھائی گئی کیونکہ یہ پنجاب کی واحد مقامی زبان نھی ھے اور باقی زبانوں جیسے کہ سرائکی کو بھی سرکاری طور پر پڑھانا پڑتا جو پنجابی سامراج کو گوارا نہ تھا- دوسروں کا نقصان کرتے کرتے کچھ اپنا بھی ھو گیا-

  • 6. 17:25 2010-01-27 ,احسن رضا :

    جناب یہ ظلم صرف پنجابی کے ساتھ ہی نہیں پاکستان کی ہرعلاقائی زبان کے ساتھ کیا گیا ہے- پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے پاکستانیوں کو 'قومی مسلمان' بنانے کے لئے یہاں پر رہنے والی قوموں کی زبان، تہذیب، حتہ کہ تاریخ کو بھی مسخ کیا ہے-

  • 7. 18:30 2010-01-27 ,dawood Ismail :

    خاکسار نے تو آج تک ايسا پنجابی نہيں ديکہا جو پنجابی نہ بولتا ہو

  • 8. 19:40 2010-01-27 ,Atif Sandhu :

    جناب گل کج اينج اے کہ اے اوہ ظلم اے جيہڑا کہ شايد ای کسی قوم نے اپنے نال کيتا ہوءے جيہڑا کہ پاکستان وچ رہن والے پنجابياں نے اپنے تے اپنياں آن والياں نسلاں نال کيتا اے تے مسلسل کری جا رے نے
    اور ايدی بنياد ايہو ذہنيت اے کہ پنجابی کمی کمين نال بولی جاندی اےِ

  • 9. 20:28 2010-01-27 ,امجد چوہدری :

    آپ نے اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔نہ جانے کیوں اہل پنجاب اپنی مادری زبان کے بجائے اردو پر فخر کرتے ہیں حالانکہ سندھ ،بلوچستان،سرحد میں مادری زبانیں فخر سے بولی جاتی ہیں۔میرا خیال ہے جن لوگوں کو اردو بولنے کا دورہ پڑھتا ہے انہیں یورپ،امریکہ میں بسنے والے پنجابیوں سے سبق سیکھنا چاہئے ۔وہ ان سے زیادہ روشن خیال ہیں لیکن زبان تو اپنی بولتے ہیں۔پنجاب حکومت اور ادبی و سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ بھی پنجابی زبان کا دن منائیں اور لوگوں میں مادری زبان بولنے کا شعور اجاگر کریں

  • 10. 21:42 2010-01-27 ,Nadeem Ahmed :

    مغربی پنجاب کی اشرافيہ اور مڈل کلاس کی پنجابی زبان سے بے مروتی کے باوجود سکھوں نے اس زبان کو چار چاند لگا ديئے ہيں- انکي وجہ سے پنجابی زبان کی وسعت اور ادبی ذخيرہ دوسری زبانوں سے کسی صورت کم نہيں- چونکہ پنجابی گورمکھی رسم الخط ميں لکھی جاتی ہے، اس ليۓ مغربی پنجاب کے باسی پنجابی زبان کی ترقی بارے کچھ نہيں جانتے-

  • 11. 21:56 2010-01-27 ,طاہر علی خان :

    میں خود ایک پٹھان ہوں اور پنجابی سے تقریباً نابلد مگر یہ بات بھی صحیح ہے کہ اردو کی حیثیت آج پاکستان میں ایک بائنڈنگ قوت کی سی ہے۔ رابطے کی واحد زبان- اگر کوئی گھر کے اندر پنجابی ، سندھی ، بلوچی یا پھر پشتو بولتا ہے اور کسی دوسری زبان والے سے اردو میں بات کرتا ہے تو اس میں برا ہی کیا ہے۔ یہ اردو ہی تو ہے جو پاکستان کو متحد کئے ہوئے ہے- میں نے تو آج تک جتنے بھی قومیتوں کے لوگوں کو دیکھا ہے وہ گھر یا اپنی برادری میں مادری زبان ہی بولتے ہیں۔ پھر اس میں کیا حرج ہے کہ کوئی اپنے بچوں کو اردو بھی سکھائے۔ جہاں تک ادب کی بات ہے تو کوئی بھی زبان یکساں طرح سے نہیں بولی جاتی بلکہ ہر زبان کی کئی مختلف ڈائیلیکٹس ہوتی ہیں اور ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنی ڈائیلیکٹ میں ہی اپنی مادری زبان کا ادب تخلیق کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کئی مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔
    تو کیوں نہ اردو کو ایک متحد کرنے والی زبان کے طور پر ترویج دی جائے۔ باقی جو اصل ادب تخلیق کرنے والے ہیں وہ تو اب بھی اپنی مادری زبانوں میں بہترین ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
    باقی اردو اب اتنی حد تک پہنچ گئی ہے کہ کچھ ماہرین لسانیات کے مطابق اردواور ہندی 2050 تک دنیا کی دوسری بڑی زبان بن گئی ہوگی۔

  • 12. 22:09 2010-01-27 ,Ch Allah Daad :

    پنجابی زبان کی سب سے بڑی خوش قسمتی يہ ہے کہ يہ سرداروں کی مزہبی زبان ہے، اس ليۓ ہم جتنی مرضی کوشش کريں، پنجابی کو ديس نکالا نيں دے سکتے- يہ زبان بھی اللہ کی مہربانی سے عربي، عبراني، لاطينی اور سنسکرت کی طرح ہميشہ زندہ رہے گي- ہميں پنجابی کی بجائے اردو، ہندی کی فکر کرنی چاہيۓ، کيونکہ نئی نسل آجکل جو زبان بول رہی ہے، اس ميں وہی الفاظ انگريزی کے نہيں ہوتے، جنکی ابھی انگريزی نہيں بني-

  • 13. 7:12 2010-01-28 ,علی گل ، سڈنی :

    پنجابی مجھے بھی پسند نہ تھی ليکن جب بلھے شاہ اور چند ديگر صوفيا کرام کا کلام پڑھا اور عابدہ پروين کو گاتے سنا تو بہت ميٹھی زبان لگي۔ساری انسانی لہجے کی بات ہوتی ہے اگر کوئی ميٹھی آواز اور شائستگی سے بولے تو اس کی زبان چاہے کوئی بھی ہو اچھی لگتی ہے جبکہ غير شائستہ لہجہ ميں اگر کوئی عربی زبان بھی بولے تو کوفت ہونا شروع ہوجاتی ہےـ

  • 14. 8:32 2010-01-28 ,Jumo Sindhi, Karachi :

    جاگ پنجابی جاگ، جب پنجاب پنجابی بنے گا تو پاکستان ٹھیک ہو گا۔ دوسری قومیں احساس محرومی کا شکار ہیں اور پنجابی احساس کمتری کا۔ جیے پنجابی، جیے سندھی

  • 15. 8:55 2010-01-28 ,aamir malik :

    پنجاب کے ليے مصيبت يہ تھی کہ پاکستان کا سارا بوجھ اسے اٹھانا پڑا-
    اردو کو قومی زبان کا مقام پنجاب نے پنجابی زبان کی قربانی اور پيپلز پارٹی نے بنگلہ ديش بنا کر دلوايا ورنہ 5،10% اردو بولنے اسکو کبھی قومی زبان نہ بنا پاتے-

  • 16. 10:21 2010-01-28 ,مصد ق خا ن نيا ز ی ميا نو ا لی :

    آ پ کی با ت کسی قد ر ٹھيک ھے„„„

  • 17. 11:26 2010-01-28 ,سعید زبیر بلوچ :

    جناب اسد علی صاحب، پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہاں کی زبانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کچھ لکھا۔ قارئین کی معلومات کے لئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں تقریباً 70 سے زائد زبانیں وجود رکھتی ہیں اور اکثر زبانوں انتہائی خطرہ لائق ہے۔ میں خود ایک لِسانیاتی ادارے سے منسلک ہوں اور ہم یہاں کی زبانوں کو بچانے اور انہیں مضبوط کرنے میں کچھ کام کر رہے ہیں لیکن اگر یہاں کی زبانوں کے بارے میں مجموعی طور پر ہمارے اور ہماری حکومتوں کے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی تو یہاں کی بیشر زبانیں آنے والے چند دہاہیوں میں اپنے آپ کو بچا نہیں پائیں گی۔ اگر کوئی زبان مر جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ اُس زبان کے بولنے والوں کا ثقافتی ورثہ ختم ہوجاتا ہے۔ آپ نے باالکل بجا فرمایا کہ زبان سے دوری درحقیقت اپنے اقدار اور روایات سے دوری ہے۔

  • 18. 12:03 2010-01-28 ,مريم فائزہ :

    آپ کا مشاھدہ درست ہے۔ يہ اک تلخ حقيقت ہے۔ حالانکہ پنجابی زبان ديگر زبانوں کي طرح اک ميٹھی زبان ہے۔ اور اس کی بقا کے لۓ ہميں فکر کرنا ہوگا۔

  • 19. 12:18 2010-01-28 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو پاکستان کا قیام کسی ‘دو قومی نظریے‘، یا مذہبی بنیادوں پر عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ اسکے قیام کا مقصد اپنی منفرد تہذیبی و ثقافتی خصوصیات کو قائم دائم رکھنا، ترقی دینا اور ‘یو پیائی کلچر‘ کی چھاپ سے بچانا تھا۔ پاکستان بننے ہی جناح کے وفات پا جانے کے فوری بعد پاکستان میں اقلیتی صوبوں کا مہاجر طبقہ نے اسٹیبلیشمنٹ، تعلیم اور پالیسی ساز اداروں پر قبضہ کر لیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے ملک کی چاروں قومیتوں کی ثقافت و زبان و لباس کو ‘سلو پائزن‘ کے تحت ختم کرنے لگا۔ محکمہ آثار قدیمہ، ثقافت، آرٹ وغیرہ کے شعبے محض ایک ‘لولی پاپ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کو اپنی ثقافت و زبان پر ‘حملہ‘ کے تاثرات پیدا ہونے کو روکنا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کا جو طبقہ پاکستان دھرتی کے باشندوں کو ‘روشن خیال‘ بنانے کے لیے اندھا دھند مغربی و غیرملکی کلچر کی بلواسطہ ترغیب دیتا ہے، تو اس پر ایک پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان اپنا ردِعمل ان جذبات میں دیتا ہے کہ بقول استاد دامن:
    ‘مَینوں کئیاں نیں آکھیا، کئی واری
    تُوں لَینا پنجابی دا ناں چَھڈ دے
    گود جِدھی چے پَل کے جوان ہویوں
    اوہ ماں چَھڈ دے، تے گِراں چَھڈ دے
    مَینوں اِنج لگدا، لوکی آکھدے نیں
    او پُترا ! ‘اپنی تُوں ماں چَھڈ دے‘ ‘

  • 20. 12:34 2010-01-28 ,محمد علی ھنزہ :

    ٰپاکستان زبان کے لحاظ سے ایک تکثیری ملک ہے لیکن یہاں نہ حکومت نے ان زبانوں کی ترقی کیلے کچھ کام کیا نہ عوام کو کوئی فکر ہے۔ یہ حال صرف پنجابی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بہت ساری چھوٹی زبانیں انتہائی خطرے کی حالت میں ہیں۔ یہ صورت حال ہماری ذہنی پسماندگی اور احساس کمتری کی غمازی کرتی ہے۔

  • 21. 15:49 2010-01-28 ,Sindhi Topi :

    بات دراصل یہ ہے کہ پنجاب کی اشرافیہ در اصل بدمعاشیہ نے مہاجر موقع پرستوں کے ساتھ مل کر اپنا، پنجاب اور باقی قوموں کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ نفرت اردو سے نہیں بلکہ اردو کو دوسری زبانوں پر مسلط کرنے سے ہے، لہذا تمام قوموں کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دو۔ خدارا پنجاب کو عقل دے کیونکہ مہاجرین سے خیر کی توقع نہیں ہے۔

  • 22. 16:37 2010-01-28 ,Javaid Anwar :

    میں طاہر علی خان سے متفق ہوں

  • 23. 20:20 2010-01-28 ,احمد نديم خواجہ :

    اس طرح کے تبصروں سے بہت سے لوگوں کو اپنی بھڑاس نکالنے کاموقع مل گياجو اردو کو مہاجروں کی زبان سمجھتے ہيں۔حالانکہ يہ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان تھي۔ ميری سمجھ ميں نہيں آتا کہ اردو بولنے سے آپ لوگ اپنی ثقافت سے دور کيسے ہو جاتے ہيں؟پاکستان بننے سے پہلے بھی پنجاب ميں مسلمان اردو پڑھتے تھےـ اردو ہی پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہےـ اس طرح کے بلاگ لکھنے سے دبی ہوئی نفرتوں کو ہوا دينا کہاں کی دانشمندی ہے؟

  • 24. 4:33 2010-01-29 ,Husnain Hayder :

    ان سب تبصروں کو پڑھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ بدقسمتی سے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اردو غیر ملکی زبان ہے اور ہمیں صرف علاقائی زبانوں کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ سارے تبصرہ نگار مجھے ذرا یہ سمجھا دیں کہ دنیا کہ ہر ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو پھر وہاں کی قومی زبان ایک یا دو ہی کیوں ہوتی ہیں؟ چین میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر چینی ہی وہاں کی قومی زبان ہے اسی طرح دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال ہے۔ جو بات ہمارے تبصرہ نگاروں کو سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ مختلف صوبائی زبانوں کو فروغ دینا تو اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے مگر ان میں سے کسی کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے سے دوسرے صوبے بھڑک جائیں گے اور پھر الزام لگے گا کہ پھنجاب یا فلاں صوبہ ہم پر اپنی زبان مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو بظاہر ’’غیر جانبدار‘‘ زبان ہے اور کوئی بھی صوبہ اسے دوسروں کی زبان قرار نہیں دے سکتا اور یوں اردو ہی تمام صوبوں کی زنجیر بن سکتی ہے یہ بات ہمارے بنگالی بھائیوں کو سمجھ نہیں آئی تھی اور اب موجودہ لوگ بھی اسے سمجھنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ بنگالی اکثریتی زبان تھی اس لئے اسے قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے تھا مگرایسی باتیں کہنے والے آج یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آج پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اس لئے اسے قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے؟ اگر ان کا جواب نہ ہے تو پھر یاد رکھیں کہ اردو کا نعم البدل اور کوئی نہیں۔ اس کے علاوہ مختلف صوبوں کے لوگوں کا ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کیلئے بھی ایک مشترکہ زبان رکھنا ضروری ہے۔ افسوس آج لوگ انگلش سے نفرت نہیں کرتے مگر اردو سے جسے اب وہ اچھی طرح جانتے ہیں اس سے نفرت کرنے لگے ہیں چہ خوب۔۔۔ اگر اردو غیر ملکی زبان ہے تو لوگ آج بھی غالب کو پسند کیوں کرتے ہیں؟ منٹو اور کرشن چندر کے افسسانے کیوں پڑھتے ہیں؟ کیا قیام پاکستان سے پہلے اردو نہیں پڑھائی جاتی تھی؟ اس زبان کا الزام مہاجروں کے سر تھوپنا بھی شدید جاہلیت کا ثبوت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک زمانے میں ہندو اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتے تھے تو اس کا جواب خود ہندو افسانہ نگار کرشن چندر نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ ’’اردو پورے ملک (متحدہ ہندوستان) کی زبان ہے‘‘۔ نجیب الرحمان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ دو قومی نظریے اور مذہب کی ٕخالفت چھوڑ دیں اور مغرب کے لائے ہوئے ’’وطنیت‘‘ کے نظام کو اپنانے کی بجائے برصغیر جہاں وہ پیدا ہوئے کہ کلچر پر توجہ دیں جس میں مذہبی رنگ نمایاں ہے اور ماضی میں بھی یہاں مذہب کے نام پر کئی ریاستیں بنتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی سیاست پر مذہب کا گہرا رنگ موجود رہے گا۔ صوفیا نے بھی لوگوں کو اسلام سکھایا تھا سیکولرازم نہیں

    یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
    دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

  • 25. 4:42 2010-01-29 ,محمد ہارون :

    محبت کی کوئی زبان نہيں ہوتی - زبان کو ايشو بنا کر پاکستان کو تباہ کيا گيا- پنجابی حقيقت ميں بہت محبت کرنے والے لوگ ہيں -

  • 26. 5:33 2010-01-29 ,sana khan :

    پنجابی گانے واہ، ميرا نہيں خيال کوئی بندہ بغير ڈانس کيۓ سن سکتا ہے انگلش تو بيماری کی طرح ہمارے معاشرے کو لگ چکا ہے بےوقوف ہيں وہ لوگ جو مادری زبان پر انگلش کو ترجيح ديتے ہيں وہ بھی صرف ”کول” لگنے کيلۓ ميں تو خصوصی طور پر پشتو بولتی ہوں جہاں کوئی دوسرا سمجھنے والا نہ ہو

  • 27. 5:42 2010-01-29 ,Akbar Ansari, KARACHI, PAKISTAN :

    میں احمد نديم خواجہ سے متفق ہوں

  • 28. 5:46 2010-01-29 ,Dr Sajid Hansi :

    پنجابی چھوڑنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ سرائیکی جتنی میٹھی نہیں

  • 29. 10:00 2010-01-29 ,Sheeraz :

    مہاجروں کی مخالفت تو شیوہ ہے بی بی سی کا

  • 30. 15:54 2010-01-29 ,ahed naeem :

    اسدعلی صاحب نے جو باتیں کی ہیں نا! قابل تشویش ہیں۔ لیکن یہ صرف پنجابی زبان کی بات نہیں۔ آج جو ترقی یافتہ دور کہا جا سکتا ہے اس میں بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کے ختم ہونے کا ڈر ہے۔ ان میں پنجابی، بلوچی براہوئی، بشتوں، سندھی، اور دیگر زبانیں ہیں۔ انکے ختم ہونے کی وجہ ایک تو میرے خیال میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج ہم اکثر انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ ہمارے یونیورسٹیوں میں جو ہمارے پروفیسر صاحبان ہیں وہ تو پڑھاتے تو کچھ الفاظ اردو کے ہوتے ہیں باقی سب انگلش کے الفاظ استعمال کرتے ہے تو اگر ہمارے پڑھانے والے بھی چاہے جو بھی زبان کے ہوں اس طرح کرے تو پھر شکوہ کس سے کیا جائے

  • 31. 17:00 2010-01-31 ,imran hussain :

    پنجاب پنجابی سے شرمندہ نہیں، تم صرف لکھتے ہو بکواس۔ ہمیشہ پاکستان کے بارے میں تمہارا تعصب سامنے آتا ہے۔ اچھا ہوا بی بی سی سے منسلک ہو۔ کم عقل برائے نام کالمنسٹ۔

  • 32. 16:11 2010-02-01 ,Atta Ansari :

    میرا تعلق ایک اردو بولنے والے گھرانے سے ہے مگر مجھے پنجابی زبان سے بے حد پیار ہے۔ بیشک ہر زبان کی اپنی ایک قدر اور اپنا ایک لطف اور مزہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں پنجابی خادانوں میں اردو بولنے کا رواج اور پنجابی سے انکار کا رواج فوجی اور سرکاری نوکری کرنے والی اس کالے انگریزوں والی کلاس سے بھی آیا ہے۔ جس نے پاکستانی ایک قوم کا نعرہ صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے لگایا ہے۔ دوسری طرف رابطے کے لیے ایسی زبان کی ضرورت بھی ہے جو سب بول اور لکھ سکیں۔ الزام تراشی سے کچھ نہ ملے گا سوائے عداوتوں کے۔ کڑوے بول نہ غالب نے سکھائے نہ بلھے نے۔
    عطا انصاری آسلو

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔