| بلاگز | اگلا بلاگ >>

رکی ہوئی زندگی کے خیالات

جاوید سومرو | 2010-02-06 ،22:03

برفانی طوفان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جمعہ کی دوپہر سے شروع ہوا ہے اور سنیچر کی شام ہوگئی ہے لیکن کپاس کی مانند نرم وگداز برف ہے کہ برسے ہی جا رہی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں برف پڑنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس اختتام ہفتہ کی برفباری نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
wasington_storm.jpg

گزشتہ برس دسمبر میں کرسمس سے بس ایک ہفتہ قبل بھی زوردار برفباری ہوئی تو امریکی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ یہ برفباری گزشتہ پچاس برس میں ہونے والی برفباری میں سب سے شدید ہے۔ لیکن اس تازہ ترین طوفان نے اب تک گزشتہ نوے برس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور معلوم نہیں جب تک یہ تھمے گا، اس وقت تک کب تک کا ریکارڈ توڑ چکا ہوگا۔

زندگی رک سی گئی ہے۔ ہر طرف ہر چیز پر برف کی سفید دبیز چادر چڑھی ہوئی ہے اور گھر سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔گاڑی پوری طرح برف میں دب گئی ہے، درخت، برف کے بوجھ تلے میرے محلے کے بوڑھے ریٹائرڈ فوجی جوناتھن کی طرح سفید کمبل اوڑھے، کمر کے بل جھکے ہیں، سفید سڑکیں آمدورفت کے قابل نہیں رہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا نام ونشان نہیں اور میں چونکے کمرے کی کھڑکی سے برستی برف کو گھنٹوں تک دیکھتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہا اس لیے طرح طرح کے خیالات ذہن میں ابھر رہے ہیں۔

ذہن بھٹکتا ہوا کراچی میں دہشتگردی کی واردات میں ہلاکتوں کی جانب جانکلا۔ بے کفن لاشیں اور اس ادھیڑ عمر عزادار کی تصویر ابھری جو ایک ٹی وی چینل کو بتا رہا تھا کہ اس کے دو جوان سال بیٹے بس پر ہونے والے پہلے حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تھا اور اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں مجھے کوئی احساس نظر نہیں آیا۔ تب میں سمجھا کہ جب درد اتنا شدید ہو کہ احساس تک کو بھسم کردے تو پھر آنکھوں سے احساس بھی نہیں جھلکتا۔

پھر جماعت اسلامی کراچی کے رہنما کے اس انٹرویو کا خیال آیا جس میں وہ مخلوط حکومت کی 'ناکامی' کو لتاڑ رہے تھے لیکن جنونی قاتلوں کی 'کامیابی' کے خلاف ان کے منہ مبارک سے ایک لفظ نہ نکلا تھا۔

سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا بھی خیال آیا۔ مجھے پتا نہیں کیوں وہ فلموں کے ایسے مہمان اداکار کی طرح لگتے ہیں جو اچانک پردہ سیمیں پر نمودار ہوتے ہیں اور چوتھے سین کے بعد کسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر' کسی ضروری کام سے' ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ فلم کے ختم ہونے کے بعد ٹائٹلز میں جلی حروف میں ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ لیکن فی الحال ان کا خیال اس بات پر آیا کہ کیا ان کو مصالحت سے پاک وہ تین ماہ ملیں گے جن میں مرزا صاحب تمام ظالموں، قاتلوں اور دہشت گردوں کو پھانسی دے دیں گے؟

اب سے کچھ دیر پہلے ہماری پرانی ساتھی بینا سرور کا اخبار دی نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر گل حمید بھٹی کے انتقال پر لکھا ہوا نوٹ پڑھا۔ ذہن میں درجنوں عکس عیاں ہوئے۔ ایک عکس جو بیک وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتا اور آنکھوں کو نم کرتا ہے: بھٹی صاحب دی نیوز کی چوتھی منزل پر اپنے ڈیسک پر شغل لگائے بیٹھے ہیں، ان کے اطراف میں اخبار کے نوجوان مرد و خواتین صحافیوں کا جھمگھٹ ہے، تمام چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں، قتل، کرپشن اور کرکٹ سمیت تمام موضوعات پر بحث جاری ہے اور زلیخا علی سب کو کافی بنا بنا کر دے رہیں ہیں۔

اس تصور سے ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے لیکن اس تصویر کے دو خوبصورت کردار (زلیخا علی اور گل حمید بھٹی) اب ہم میں نہیں۔ یہ خیال آنکھوں کو نم کرتا ہے۔

زندگی رکی ہوئی ہے۔ برف گرنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ حد نظر صرف سفید ہی سفید ہے۔ بس صرف خیالات میں ابھی رنگ باقی ہے۔ زندگی کا ٹھہر جانا کبھی کبھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ بعض خیالات رواں دواں زندگی میں نہیں آتے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 2:54 2010-02-07 ,Nadeem Ahmed :

    سومرو صاحب، جس طرح امريکہ ميں برف کا طوفان آيا ہوا ہے، اسی طرح ہمارے وطن ميں دہشت گردی کا طوفان تھمنے کا نام نہيں لے رہا ہے۔ آپ اور باقی امريکيوں نے تو برفاني طوفان کا مقابلہ کرنے کی خوب تياری کی ہوگي، اور جب تک خطرہ ٹلے گا نہيں، زيادہ تر امريکی گھر بيٹھے نظارے ليتے رہيں گے۔ يہی عرض ہم اپنے شيعہ بھائيوں سے بھي کرتے ہيں، کہ خدا کے ليے کچھ عرصہ کے ليے اپنے جلسے جلوسوں کو ملتوی کر دو۔ کيوں اپنی اور اپنے بچوں کی جان اتنے سستے ميں دہشت گردوں کے حوالے کر رہے ہو۔

  • 2. 7:20 2010-02-07 ,sana khan :

    بلاگ لکھنا ضروری تھا ؟

  • 3. 9:34 2010-02-07 ,Dr Alfred Charles :

    سومرو صاحب!آپ نے اپنی تحرير ميں گرم وسرد کيا حسين امتزاج پيش کيا ہے جسے باريک بينی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہاں دنيا بدل رہی ہے ساتھ ہی اقدار بھي۔ يہ موسمياتی تغيرات تو اپنی جگہ يہ ہم انسانوں ميں کيسا بے رحم تغير برپا ہے کہ ہم مصلحت پسندی بلکہ خود غرضی کے شاہکار بنے ہوئے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ قتل وغارت کا بازار گرم ہے اور ہم سب خاموش تماشائی بنے بيٹھے ہيں۔ ميں ہوں نا وزير داخلہ سندھ کے لئيے تو آپ نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی مہمان اداکار کا صيغہ استعمال کيا ہوگا! کوئی اب ان سے پوچھے کب تک مزيد مفاہمت نما مصلحت کرتے رہوگے؟جن تين ماہ کی مہلت مانگ رہے ہو يہ اس طرف اشارہ تو نہيں کہ مارچ ميں ڈبل مارچ ہونے والا ہے۔کب تک يہ چوہے بلی کا کھيل جاری رہے گا معلوم نہيں۔دہشت گردوں کا تو کوئی دين و مذہب نہيں ہوتا لہذا کسی سے کيا گلا و شکوہ؟بحرحال غريب غرباء ہر طرف سے ہر طرح سے مررہے ہيں۔اب تو عوام کو صدر زرداری ،وزيراعظم گيلاني،وزيرداخلہ رحمن ملک اور ذوالفقار مرزا وغيرہ سے کسی خير اور اچھے اقدامات کی ہرگز توقع نہيں رہي۔سب اللہ توکل زندگی کے ايام اپنے دکھ سکھ کے ساتھ مگر خوف و حراس ميں بسر کررہے ہيں اور اس کے عادی ہوتے جا رہے ہيں۔ لوگ پوچھتے ہيں کہ اب اس سے بھی بڑھ کر کوئی بے حسی کوئی ہوگي؟

  • 4. 9:34 2010-02-07 ,غلام محمد :

    نديم صاحب آپکے مشورہ کا بہت شکريہ مگر سمجھ نہيں آتی جن کے بچے مر رہے ہيں وہ تو کسی گھبراہٹ کا شکار نہيں آپ کيوں گھر بيٹھے پريشان ہو رہے ہيں- سب سے پہلی بات تو يہ ہے جناب جو رات قبر ميں ہے وہ باہر ہو نہيں سکتی اور بقول حضرت علي جب تک موت نہيں آنی تب تک وہ زندگی کی خود ہی محافظ ہے- چليں اگر آپ کی بات مان ليں کہ دھشت گردوں پر گرفت کی بجائے متاثرين پر دباؤ بڑھا ديا جائے-تو جناب کے مطابق جلوس پر بم دھماکہ کا حل يہ کہ تمام جلوس بند کر دئے جائيں - خوب- تودھشت گرد امام بارگاہ پر دھماکہ کرے گا چلو وہ بھی بند - وہ مسجد ميں گولي چلائے گا وہ بھي بند -وہ چرچ پر حملہ کرتا ہے وہ بھی بند- وہ سکول کالج يونيورسٹی بم سے اڑاتا ہے آپکي حکمت عملي کے تحت تمام سکول کالج يونيورسٹيز بند- وہ قصہ خوانی بازارميں آ دھماکہ کرتا ہے چلو آسان حل سب بازار بند- وہ مردے قبر سے نکال کرکھمبے پر لٹکاتا ہے چلو کل سے دفن بھی بند- وہ تھانوں پر حملے کرتا ہے سيدھا حل سب تھانے بند- وہ فوج ، رينجرز ،ايف سی پر حملے کرتا ہے- چلو کيوں اپنے جوان قتل کروائيں سب ادارے کل سے بند- وہ بسوں ہسپتالوں پر حملے کرتا ہے چلو کل سے سب بسيں بند ہسپتال بند ڈاکٹر فارغ- وہ جہازوں کو اڑانے کی کوشش کرتا ہے چلو کل سے سب جہاز بند- کيا يہ دھشتگرد کی کاميابی ہے يا ناکامي يہی تو وہ چاہتے ہيں کہ پاکستان کو افغانستان کی طرح قانون سے عاری سٹيٹ اور کھنڈرات ميں تبديل کر ديں- ياد رکھيں دہشت گردوں کے سامنے ايک فيصد بھی پسپائی ان درندوں کے حوصلے بڑھا دے گے- جس سے وہ ہميں ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائيوں ميں دھکيل ديں گے-

  • 5. 9:42 2010-02-07 ,مصد ق خا ن نيا ز ی ميا نو ا لی :

    صا ب جی آدا ب بر ف کا طو فا ن ھو يا کو ئ اور مو ضو ع تا ک تا ک کر نشا نے يو ں لگا نا منا سب نھيں„„بھلا امر يکہ ميں طو فا ن منو رحسن يا عمر ا ن خا ن نے نھيں بھيجا جو آپ کے خيا لات عا ليہ ان تک جا پھنچے„„„بھلا ھو اپکا اپ ان پر تنقيد کا مو قع ضا ئع نھيں کر تے

  • 6. 16:24 2010-02-07 ,محمد بلال :

    جانب غلام محمد صاحب، جذباتی پن نے سوائے تباہی کے کچھ نہیں دیا، میں تو کہتا ہوں کہ ربیع الاول کے جلوس بھی کچھ دنوں کیلیے بند ہونے چاہییں۔ آپ کی سب باتیں صرف جذباتی ہیں۔ آخر جب باہر شدید بارش ہو رہی ہو تو اپنی اولاد کو گھر سے باہر بھیجنے والے کو کوئی عقلمند نہیں کہے گا۔آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ناگہانی موت سے پناہ مانگی ہے، جہاں پر طاعون پھیلا ہو وہاں جانے سے منع فرمایا ہے۔ تو یہ بات ان درندوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے فرمائی ہے۔ لہذا اصل بات کو سمجھیں کہ ہم اپنے گھر کی حفاظت گھر میں رہ کر زیادہ اچھی کرسکتے ہیں نہ کہ گھر کے باہر درندوں کو آسان نشانہ دینے سے حفاطت ہوگی۔ اور یہ بات تو واضح ہوچکی کہ اس پورے کام میں کوئی اور ہاتھ ملوث ہیں، جیسے کہ ٹائم بم کا استعمال، کیونکہ طالبان کی طاقت کراچی تک نہیں پہنچ سکی ہے، کچھ اور لوگ طالبان کا شور مچا کر اپنی سیاست کر رہے ہیں تو دوسروں کی سیاست میں اپنی جان گنوانا بہت خسارے کا سودا ہے۔

  • 7. 17:49 2010-02-07 ,اعجازالحق، برمنگھم :

    جماعت اسلامی کے منور حسن جس طرح آپ کے ہوش وحواس پر سوار ہيں اس کی وجہ محض ذاتی اور نظرياتی دشمنی ہے يا پھر جماعت اسلامی کی امريکہ مخلاف مہم کو اپنے اقا (امريکی انتظاميہ) کی شان ميں گستاخی سمجھتے ہوئے، شاہ سے بڑھ کرشاہ کي وفاداری کرتے ہوئے، ان کے خلاف لکھنے پر مجبور ہيں؟ پاکستان ميں ’بليک واٹر‘ کی موجودگی اور کارروائيوں کے خلاف لکھے گئے آپ کے بلاگ کا انتظار رہے گا۔

  • 8. 18:13 2010-02-07 ,Nadeem Ahmed :

    غلام محمد صاحب- خاکسار سے غلطی ہو گئی کہ اپنے شيعہ بھائيوں کی زندگيوں کو قيمتی جان کر مشورہ دے بيٹھا۔ مجھے کيا علم تھا کہ جس ملک ميں انسانی زندگی سے سستی کوئی چيز نہ ہو، وہاں زندگی کی حفاظت کرنے کا مشورہ دينا ايک احمقانہ سوچ نہيں تو اور کيا ہو گي؟ دہشت گردوں کو اتنے سافٹ ٹارگٹ فراہم کرنے کے پيچھے بھی شايد يہی فلاسفی کار فرما ہے۔ جب مرنے والے اپنی تقدير سے خوش ہيں، اور مارنے والوں کو آسان ترين ٹارگٹ فراہم کرنے ميں کوئی عار محسوس نہيں کرتے، تو دوسروں کو کيا پڑی ہے، کہ مفت مشورے ديتے پھريں۔ ويسے بھی جو مسئلہ پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کے خون کا خراج وصول کر رہا ہے، مظلوم، ظلم برداشت کرنے کو اور ظالم، ظلم کرنے کو ثواب، اعزاز اور ذريعۂ نجات سمجھتے ہوں، وہ صرف جلسے جلوسوں کو محدود کرنے سے حل نہ ہوگا۔ ليکن يہ خاکسار بھی کيا کرے، بے گناہوں کو مرتے ديکھ کر پہلے قدم کے طور پر ايسا مشورہ دے بيٹھتا ہے، تاکہ دہشت گردوں کو اپنے ٹارگٹ ڈھونڈنے ميں کچھ تو تکليف اٹھانی پڑے۔ سکيورٹی کا بھی پہلا اصول يہی ہے کہ رش والی جگہوں سے دور رہا جائے۔ باقی آپکی مرضي۔

  • 9. 9:25 2010-02-08 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    ’سب کمالات ہیں تخیل کے
    ورنہ کچھ بھی نہیں حقیقت میں‘

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔