تین تکبیروں کی گونج
اگر آپ یہ انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہیں تو آپ کو یقیناً پتہ ہوگا کہ کیچ اپ کیا ہوتی ہے۔ بلکہ ہوسکتا ہے جس وقت آپ یہ پڑھ رہے ہوں تو ساتھ ساتھ آلو کے چپس کیچ اپ میں ڈبو ڈبو کر کھا رہے ہوں۔
بچوں کو تو کیچ اپ بہت ہی پسند ہے۔ لیکن جب آپ چھوٹے تھے تو کیا آپ اس فکر میں رہتے تھے کہ آپ کی کیچ اپ حرام ہے یا حلال؟ راقم کا ہمیشہ سے یہ خیال تھا چونکہ کیچ اپ ٹماٹروں سے بنتی ہے اس لیے اس میں حلال اور حرام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اب اپنے کچن میں پڑی بوتل اٹھائیں، ہوائی جہاز میں ملنے والے سینڈوچ کے ساتھ پلاسٹک کی چھوٹی تھیلی اٹھائیں سب حلال ہے۔ ایسی اشیا کی فہرست جو گذشتہ صدی میں اپنے حلال ہونے کی دہائی نہیں دیتی تھیں لیکن اب چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ میں حلال ہوں، بہت طویل ہے۔
آپ صبح ناشتے میں حلال دلیہ کھا سکتے ہیں، پھر ایسی گاڑی میں بیٹھ کر دفتر جاسکتے ہیں جو حلال قسطوں پر لی گئی ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں حلال بانڈز کا دھندہ کر سکتے ہیں گھر واپس آتے ہوئے اپنی بیوی کے لیے حلال میک اپ خرید سکتے ہیں اور اگر خود شوقین مزاج ہیں تو الکحل فری حلال پرفیوم اپنے لیے بھی خرید سکتے ہیں۔
اس سازش کا آغاز فاسٹ فوڈ بنانے والے عالمی اداروں نے کیا تھا۔ جب پاکستان میں میکڈونلڈ اور کے ایف سی جیسی برکات کا نزول ہوا تو ان کے مالکان ویگنوں میں مولانا حضرات کو بھر کے لائے ہیپی میل اور زنگر برگر سے انکی تواضع کی اور ان سے سرٹیفیکیٹ حاصل کر کے اپنی دکانوں میں آویزاں کرلیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اور اب عالم یہ ہے کہ محلے میں مرغی بیچنے والے نے بھی حلال کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ حالانکہ راقم نے اپنی پوری زندگی میں، پورے پاکستان میں کوئی غیر مسلم قصائی نہیں دیکھا پھر نجانے کیوں ہر جانب تین تکبیروں کی گونج ہے۔
کچھ چیزیں بہرحال اب بھی ایسی ہیں جن کے لیے حلال سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بندہ مزدور کی کم ازکم مزدوری کیا ہونی چاہیے اس پر کوئی فتویٰ موجود نہیں ہے۔ ایک ہزار گز کی کوٹھی کی ہفتے میں سات دن صفائی کے لیے کسی کم عمر بچی کو چار پانچ ہزار دینا عین حلال ہے۔ اب چونکہ ہمارے پاس حلال اور حرام کا ایک عمرانی نظریہ تو موجود ہے تو ظاہر ہے اس نظریے میں سے ایک سائنس بھی وجود میں آئے گی اور نت نئی ایجادات بھی ہوں گی۔
اگلے سازش بلاگ میں ہم آپ کو امت مسلمہ کی اس دہائی کی سب سے بڑی سائنسی ایجاد کے بارے میں بتائیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
زور نويسی کی مبارکباد ديتا ہوں حنيف صاحب يا پھر يہ کہ آپ نے انڈين ٹيلی ويژن والوں کے سسٹم کی طرح تمام کی تمام قسطيں پہلے ہی تو تيار نہيں کر رکھی تھيں؟ بہر حال کيچ اپ والا معاملہ يقيناً قابل غور ہے۔ ويسے آپ کو بتا ديں کہ يہاں انڈيا ميں بھی تکبيروں والا معاملہ پوری شدت سے موضوع بنتا جا رہا ہے۔ پہلے يہ ہوتا تھا کہ ہر ہندو قصائی چاہے وہ بيف کا ہو مٹن کا ہو يا پھر چکن کا اپنے يہاں حلال کی تاويل کے ساتھ ثبوت کے طور پر جانور ذبح کرتی تصوير لگانا نہیں بھولتا کہ سند رہے۔ اب تو ايسا لگنے لگا ہے کہ مچھلی کی دکانوں پر بھی حلال کے بورڈ ديکھنے کو مليں گے۔ پتہ نہيں يہ بوکھلاہٹ ہے يا پھر امريکہ کی سازش ؟ ہمارے ہاں تو يہوديوں سے کہيں زيادہ امريکہ کو اسلام دشمن مانا جاتا ہے۔
جب تک حلال مل رہا ہے اس کی پرواہ بھی کی جائے گي۔ اگر حلال ملنا بند ہو جائے تو کوئی اس کی پرواہ بھی نہيں کرتا۔ آخر جينا تو سب نے ہے ہی۔ ميں نے ادھر بہت سے پاکستانی حلال خوروں کو ديکھا ہے جو کہ اپنے ہی ہم وطنوں کو کم تنخواہ دے کر زيادہ کام ليتے ہيں اور ويجی برگر (سبزی والا) يا ويجی پيزا لے کر کھاتے ہيں اور ساتھ ساتھ دينی تعليم کا بھی پرچار کرتے ہيں۔ بہت سے دوست آئيس کريم تک حلال ڈھونڈ کر لاتے ہيں ليکن مساج کرانے کے ليے کسی چينی يا گوری کے پاس جاتے ہيں اور پاکستانی پھيرے باز تو حج کی بجائے بنکاک (تھائی لينڈ) جانےکو مقدس سمجھتے ہيں۔
بات تو ٹھیک ہے پر بات ہے رسوائی کی۔ ابھی آپ کے مودودی کے کھڑاک کا دکھڑا ختم نہیں ہو پایا تھا کہ ایک اور حلال حرام لسٹ آویزاں کر دی گئی۔ بہت شکریہ جناب اچھا لگا پڑھ کر۔
تو جناب حنیف صاحب آپ کا دوسرا بلاگ بھی آ گیا۔ کچھ ایسی ہی سازش یہاں بھارت میں بھی چل رہی ہے۔ ممکن ہے بھارت کا تناظر کچھ الگ ہو۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ہے۔ اپنی مارکیٹنگ کے لیے کمپنیوں کو زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑےگی۔ انہیں بڑی آسانی سے ایک بنا بنایا بازار دستیاب ہو جاتا ہے۔ اگر غور کریں تو آپ بھی اسی سازش کے تحت اپنے بلاگ کو زیادہ سے زیادہ قاری تک مارکیٹنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا بلاگ بھی انہیں سازشوں کا حصہ ہے؟
کاروبار ہے اور کچھ نہيں۔
صا ب جی بہت ا چھا بلا گ لکھا۔ ذرا طنز کی ٹيو ن آھستہ رکھيں کھيں آپ بھی کسی کے ليۓ حلا ل نہ ھو جائيں
ميں ايسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو دن کا آغاز نماز اور دوسری عبادت سے کرتے ہيں اور اپنے لييے ناشتہ احتياط سے منتخيب کی گئی حلال خوراک سے کرتے ہيں ليکن گھر سے نکل کر جب مال کمانے کا وقت آتا ہےحلال کوتو بھول جاتے ہی ہيں بلکہ وہ اس حد تک چلے جاتے ہيں مال بنانے کے چکر ميں چاہے جتنے بڑے گناہ سرزد ہو جائيں ليکن مال آنا چاہيے انسانی حقوق کی جتنی بڑی خلاف ورزياں ہوں چاہے کسی غريب کے منہ سے اس کا اخری نولا چھينا جائے يا کسی کا خون ہی کيوں نہ ہو جائے چائے اس کے لئے اپبا ضمير بيچنا پڑ جائے ملک سے غداری کرنا پڑ جائے ليکن مال آنا چايے ميں ايسے افسروں کو جانتا ہوں جو رشوت کھانے سے پہلے داتا در بار جاتے ہيں کہ تو داتا ہے دے چائے جيسے ديتا ہے بس دے ان کی عابدت ميں بھی لالچ ہوتی ہے ميں پنجاب کے ايسے سياستدانوں کو اچھی طرح جانتا ہوں جن کی ہلال کی کمائی ہوئی ساری دولت ملک سے باہر ہےاور وہ ملک کے اندر ہيں ميری سمجھ سے اج تک بات بال تر ہے کہ ان کی فاؤنڈری نے ہی سب سے زيادہ مال کيوں بنايا ميرے خيال ميں يہ لوگ سمجتے ہيں کہ حرام کمائی سے حلال خوراک خريدنا جائز ہے
‘مجھ کو حلال کر کے وہ کہتے ہیں ناز سے
قسمت میں اس کی زندگی جاوداں ہے اب‘
آپ کا بلاگ پڑھ کرميں بھی سوچ ميں پڑ گئ ہوں کہ بلاگ ميں يوں تبصرہ بھيجنا حلال ہے کہ حرام؟
جہا ں تک تعلق ہے کيچپ اور پاکستان کا تو وہ آپ صحيح کہتے ھو پر یياں برطا نيہ ميں اکثر لوگ بڑے اطمينان سے ميک اور کے ايف سی کے چکن بر گر کھا رہے ہو تے ھيں اور پوچھنے پر جواب ملتا ھے کے جکن تو حلال ھے
اگر يھودی اپنی کھانے کی چيزوں بر کوشر لکھوا سکتے ھيں تو حلال لکھنے ميں کوی نقصان نھيں۔ کسی باھر کے ملک ميں حلال فوڈ کی اہميت بتہ چلتی ھے
حنيف صاحب کمال کر ديا ہے آپ نے يہ حساس مگر دلچسپ موضوعات کی سيريز شروع کرکے۔ ميرے خيال ميں امريکہ و يورپ ميں يہ معامہ در پيش ہے۔ہمارے ہاں يہ معاملہ کبھی کھبار ہی معاملہ سرگرمی بلکہ سردردی سے سامنا آتا۔معاملہ کھبار کاروباری و ذاتی رقابت بھی کام آتی ہے۔اب تو يہ چکر ٹريڈ مارک ميں شامل ہوگيا ہے
ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اسلام کو پک اينڈ چوز بنا ليا ہے۔ جو برائياں ہم ميں ہوتی ہيں انہيں صحيح ثابت کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے بہت سی جھوٹی دليليں گھڑ ليتے ہيں اور دوسروں کی برائيوں کو اچھالنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں۔ اصل ميں جو کرنے کی ضرورت ہے اس سے نظريں چراتے ہيں۔ حقوق العباد کا خيال رکھنا قدرے مشکل ہے بہر حال زيادہ ضروری ہے۔
عر صہ درا ز سے میں بی بی سی ار دو کا قا ری ہوں- اسکے بہت سار ے بلا گ میں نے پڑ ھے- مجھے افسوس کے سا تھ کہنا پڑ تا ہے کہ زیا دہ تر بلا گ وقت کا ضیا ع ہیں- بلا گ لکھنے و ا لا کو ئی با ت کہیں سے ا ٹھا لیتا ہے کو ئی کہیں سے۔ بے ربط اور بے تر تیب با توں کو لکھ کر و قت ضا ئع کر تا رہتا ہے۔ زیا دہ تر بلاگ یا تو بے تکی رو شن خیا لی کا مظھر ہو تے ہیں یا پاکستان کو بد نا م کر نے کی کو شش۔
ند یم احمد
ر یسر چ سکا لر- پو لیٹکنیک آف ٹیور ن- اٹلی
جناب کينيڈا ميں آ کے معلوم ہوا پاکستان ميں بہت سی غيرملکی اشيا حرام ہيں اور لوگ بلا سوچے سمجھے استعمال کر رہے ہيں - مجھے ڈر ہے کہيں 5 سال بعد ايسا بلاگ شراب کے بارے ميں نا لکھ رہے ہوں۔
ساری باتيں ايک طرف ميری دلچسپی کا محور صرف ’حلال ميک اپ ہے‘ ۔آجکل منرل ميک اپ کا دور دورہ ہے پر کسی بھی ميک اپ پر حلال نہيں لکھا ہوتا ہے، حرام حلال کی ہی وجہ سے بيچارے ليز چپس والوں کو سابقہ سنگر اور کرنٹ مولانا جنيد جمشيد کی خدمت لينی پڑی ، حليہ بدل لينا بہت فائدےمند ہے۔ اسکارف باندھ کر ہر عورت نيک ہوجاتی ہے
حنیف صاحب ذرا بتائیے کہ آپ کو حرام کمائی کھا کر حلال کا ڈھونگ رچانے والوں پر اعتراض ہے یا آپ حلال چیزیں کھانے والوں کو حرام کھلا کر اپنا مطلب پورا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے اس بلاگ سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگ حرام مال بھی کھائیں اور چیزیں بھی۔ کیا آپ اس بات کی وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ آپ کو اسلامی احکامات پر اس قدر اعتراض کیوں ہے؟ اگر پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ’’حلال‘‘ چیزیں کھانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو آپ کے سینے پر سانپ کیوں لوٹ رہے ہیں؟ اور یہ آپ سے کس نے کہا ہے کہ مرغیوں اور قصائیوں کی دکانوں پر ’’حلال گوشت‘‘ لکھا نظر آتا ہے میں نے تو آج تک کوئی ایسا بورڈ نہیں دیکھا جھوٹ بولنے کی کوئی حد ہوتی ہے یہ ٹھیک ہے کہ حلال حرام کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے اور مغربی پراڈکٹس کی بھرمار کے نتیجے میں اس امر کا پیدا ہونا یقینی امر تھا۔ امریکہ اور یورپ میں بھی یہی صورتحال ہے بلکہ یورپ میں تو ’’حلال فوڈ‘‘ کی مارکیٹ کھربوں ڈالر پر مشتمل ہے اور امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے تو پاکستان میں اس پر اعتراض کیوں؟ آپ کو حلال حرام کے مسئلوں سےنکل کر ملکی مسائل پر توجہ دینی چاہیئے۔ شکریہ
زبردست
’مولانا مودودی کی مقبوليت کا راز کيچپ کی بوتل سے ہو کر گزرتا ہے؟‘ميرے خيال ميں جب کسی انسان کی دوسرے شخص يا نظريہ سے نفرت ايک حد سے بڑھ جائے تو وہ اپنے انتہا پسندانہ جزبات کی تسکين کی خاطر معاشرے ميں پائی جانے والی ہر برائی کا ذمہ دار لوگوں کے انفرادی يا اجتماعی رويوں کی بجائے اس خاص شخص يا نظريہ کو سمجھتا ہے۔
اسی رويہ کو اپناتے ہوئے پہلے ’پريڈ لين کے نمازی کی دعا‘ والا کالم لکھا گيا جس ميں اقبال کی شاعری کو خودکش حملہ آور کے فعل سے منسلک کرتے ہوئے گمراہ کن قرار دلوانے کی کوشش کی گئی۔ اب باری مولانا مودودی کی ہے۔ اگر ان دونوں حضرات کے خلاف لکھنا ہی ہے تو کھل کر اور صاف صاف لکھنے کي ہمت پيدا کروـ اب جب کہ بی بی سی کی غير جانب داری کی ’بلي‘ تھيلے سے باہر آ ہی گئی ہے تو شايد اشاروں و کنايوں ميں لکھی گئی بات سے دل کی بھڑاس نہ نکل سکے۔
اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے کے سوا آپ کر کیا رہے ہیں ؟ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کیجیے۔
شکر ہے کہ بی بی سی پر کبھی کبھار اچھے بلاگ بھی مل جاتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے جانور کے حلال یا حرام کی تو بہت عرصے سے میں نے پاکستان میں یہی دیکھا ہے کہ قصائیوں کی اکثریت ’تکنیکی‘ طور پر جھٹکا کرتی ہے۔ دوسرا اب ہر شے پر حلال اور حرام لکھ دینے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ مرغی کی فیڈ تک برآمد ہوتی ہے جو سور کے اجزاء سے تیار کی جاتی ہے۔ مزے کی بات جب یہ پکڑی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایم ایم اے کے رکن اسمبلی کی ’پولٹری فیڈ‘ بھی ان میں شامل تھی۔ مذہب کو تجارت بنانے سے بہت سارے مالی فوائد ملتے ہیں، ’حلال‘ کمائی کے لیبل کے ساتھ۔
واہ جی کیا بات ہے، محترم علامہ حنیف صاحب کو کیچپ کی بوتل پہ حلال لکھے ہونے پر بھی تکلیف ہے۔ قصائیوں کی دکانوں پر حلال کے ہورڈنگز پر بھی تشویش جو ہم نے آج تک نہیں دیکھے۔ حنیف صاحب کا اگلا سازش بلاگ شاید کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی انتہا پسندی پر ہوگا۔
سازش بلاگ واقعی ہی سازش بلاگ ہوتے ہیں اور ان کا مخصوص وقت میں یعنی اتحادی فوج کا ہلمند میں گرینڈ آپریشن کے ساتھ وارد ہونا بھی سازش بلاگ کو سازش دکھاتے ہیں۔ اور سازش بلاگوں پر دھڑا دھڑ تبصروں کا شائع کرنا بھی سازش بلاگ کو سازش دکھانے میں آسانی پیدا کرتا ہے اور سازش کے خلاف سازش کرنے والے تبصروں کو نام نہاد موڈریٹر کا کھا جانا بھی سازش بلاگ کا ایک حصہ ہے۔
ملت اسلامیہ کی درخشاں اقدار و روایات اور عقائد کو طنز و مزاح کا ہدف بنانا اب تو مغرب کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کی چکا چوند در اصل جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کے سوا کچھ نہیں۔اہل مغرب سے مخاطب ہو کر علامہ اقبال نے کہا تھا:
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پا ئیدار ہوگا