پلاسٹک کا مسواک ہولڈر
گذشتہ چار سال سے کراچی میں ایک عالمی کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایک تجارتی میلہ ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کے ناشرین اپنے سٹال لگاتے ہیں اور کتابیں بیچتے ہیں۔
راقم کو گذشتہ سال پہلی دفعہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور کیا روح پرور نظارہ تھا۔ سیکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے اس سال غیر ملکی پبلشر خال خال ہی نظر آئے لیکن اپنے ساتھ وہ جو مال لے کر آئے وہ قابل دید تھا۔ ایران کے پبلشر ہمیں فارسی اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے۔ سعودی عرب کے پبلشر عربی اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے اور ہمارے اپنے پیارے پاکستان کے پبلشر اردو اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے۔ ہندوستان سے آنے والے کچھ ناشرین میڈیکل کالجوں کے کورس کی کتابیں بیچ رہے تھے (آپ ہندو بنیئے سے اور توقع بھی کیا کرسکتے ہیں؟)
صرف چھوٹے بچوں کے لیے ہزاروں کتابیں ایسی تھیں جن میں انہیں اچھا مسلمان بچہ بننے کے آسان نسخے سمجھائے گئے تھے۔ درجنوں کمپیوٹر پروگرام برائے فروخت تھے جنہیں استعمال کر کے آج کے چھوٹے بچے کل کے مجاہد اور مومن بن سکتے ہیں۔ اگر تاریخ میں دلچسپی ہے تو اسلامی فتوحات کی رنگ برنگی اٹلس خرید لیں۔ اگر عورت ہیں اور صحت ٹھیک نہیں رہتی تو بیماری کے دوران اسلام کے احکامات کے بارے میں کئی جلدیں ہیں۔ اور ڈیجیٹل تسبیحاں اور الیکٹرانک قرآن تو اتنے تھے کہ کراچی کا ایکسپو سینٹر بقعہ نور لگتا تھا۔
بیچ بیچ میں کچھ نادان پبلشر شاعری اور ناول جیسی لغویات بھی بیچنے کی کوشش کر رہے تھے وہاں بھی مرحوم اشفاق احمد کے نورانی ادب کی بکری زیادہ تھی۔ لیکن سب سے زیادہ رش لینے والا آئٹم نہ کوئی کتاب تھی نہ کوئی اسلامی کمپیوٹر گیم۔ امت مسلمہ کے لیے منفرد ایجاد کے نام سے متعارف کی جانے والی یہ معرکۃ الارا ایجاد پلاسٹک کا مسواک ہولڈر تھا۔ جی ہاں۔ صدیوں سے بھٹکتی ہوئی یہ امت اس مخمصے میں تھی کہ اپنی مسواک کہاں رکھی جائے۔ اب یہ مسئلہ حل کر دیا گیا اور پلاسٹک کا کور ڈھکنے کے ساتھ ایجاد کر لیا گیا ہے۔ اس منفرد ایجاد کے لیے لگائے گئے اشتہاروں میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی تھی وہ عام طور پر اپنے ایٹم بم اور جوہری میزائلوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں چشم تصور میں وہ دن دیکھ رہا تھا جب نوجوانان اسلام ایک ہاتھ میں جوہری میزائل اور دوسرے ہاتھ میں پلاسٹک ہولڈر لیے کافروں کے چھکے چھڑادیں گے۔ اتنی دیر میں ایک بزرگ نوجوان دکان دار کو مشورہ دیتے سنائی دیے۔ میاں اگر یہ پلاسٹک کور سبز رنگ میں بنوا لو تو سیل اور بھی بڑھ جائے گی۔ نوجوان نے مودب طریقے سے جواب دیا کہ جب اللہ کا دھندہ کرتے ہیں تو منافع کا نہیں سوچتے ۔ منافع کا اللہ خود سوچتا ہے سبحان اللہ۔
تو ظاہر ہے کہ اللہ کا دھندہ کرنے والا کوئی دوسرا اگر آپ کو جان سے مار دے تو کم ازکم یہ موت اس سے تو بہتر ہے جو کسی ایسے کے ہاتھوں آئے جو اللہ کا دھندہ نہ کر رہا ہو؟
تبصرےتبصرہ کریں
’کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتش
شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے
بت خانہ کھود ڈالئے مسجد کو ڈھایئے
دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے‘
جناب حنیف صاحب، ڈھٹائی اور تعصب کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے مگر آپ جس طریقے سے ساری حدود پار کرتے جا رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔ کیا بی بی سی نے پوری امت مسلمہ کو اسلام سکھانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ آپ اسلام کے ہر حکم کو دہشتگردی کے کھاتے میں ڈال کر کیا ثابنت کرنا چاہتے ہیں؟ مسواک جیسی بے ضرر چیز کو بھی دہشتگردی اور سازش کے کھاتے میں ڈل کر آپ صرف ’سیکولر انتہاپسندی ‘ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس قدر فضول اور واہیات بلاگ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پڑھا مگر ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ بی بی سی کی اسلام دشممنی اور مغرب نوازی کھل کر سامنے آ گئی۔۔۔ اگر آپ کو اسلام سے اتنہی ہی تکلیف ہے تو آئندہ ایسے میلوں میں نہ جایا کریں بلکہ بہتر ہے کہ کسی اور ملک کا رخ کر لیں، آپ کیلئے بہتر ہو گا۔۔۔اچھا مشورہ ہے سوچ لیں۔
‘اندر کے میلے پن کا ملے کس طرح سراغ
اندازہ لوگ کرتے ہیں اُجلے لباس کا‘
حنیف جی، معزرت کے ساتھ: مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ روشن خیال لوگ اِسلام کے حوالے سے عجیب اِحساس کمتری میں مبتلا ہیں، ٹھیک ہے کہ کچھ مسلمان دہشت گردوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن اِسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اِسلامی کتابیں تنگ نظر معاشرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ کراچی کے جس میلے کا زکر آپ فرما رہے ہیں اُس میں سب کچھ ہی تھا پھر اِسلامی کتابوں اور مسواک ہولڈر پر تنقید کیوں؟ یقین کریں اسلام پڑھنے والے دہشت گرد نہیں ہوتے بلکہ اسلام اِستعمال کرنے والے اور بدنام کرنے والے ہی دہشتگرد ہیں۔
لوگ تو اللہ کا دھندہ کر رہے ہیں آپ کس کا ’’دھندہ‘‘ کر رہے ہیں؟ امریکہ اور اس کے حواریوں کا؟
توبہ ہے، بھائی میرے تم بھی سہی ڈھکے چھپے انداز میں ہماری قومی سوچ بتا دیتے ہو۔
واقعی ہی یہ کچھ ہو رہا ہے اور یہی کچھ ترقی کا معیار ہے ہمارے مسلمان ملک کے مسلمان معاشرے کے لیے۔
حنيف صاحب چودہ سو سال سے امت مسلمہ بس اسی خوش فہمی ميں مبتلا ہے کہ وہ اللہ کا دھندا کر رہے ہيں جب کہ رسول رحمت کی انسانيت بخش تعليمات تو رسول کے دفن کے ساتھ ہی دفن کر دی گئيں يقين نہ آئے تو پاکستاني، افغاني، سعودی طالبان سے لے کر جمل و صفين اور کشتياں جلا کر خودکش بمبار بنانے والے مجاہدين قسطنطنيہ کے قبضوں جنہيں عرف عام ميں اسلامی فتوحات کا نام ديا جاتا ہے کي کہانياں پڑھ ليں-
حنيف صاحب! جولوگ مخالفت ميں رائے کا اظہار کررہے ہيں انکو آپ يہ سمجھائيے کہ دنيا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک مسواک کے چکروں ميں پڑے ہوئے ہيں۔ يہ بات بھی مد نظر رہے کہ قدرتی مسواک کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی بات سمجھانے والی يہ ہے کہ بچوں کے کچے ذہنوں کو کس طرف لگايا جارہا ہے۔
حنیف صاحب آپ سے یہی امید تھی۔
جس شخص کو ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم سگریٹ نظر آئے کچھ بعید نہیں کہ اس کو مسواک ایٹم بم نظر آئے۔ میرا آپ کیلیے مشورہ ہے کہ آپ پہلے کسی اچھے ماہرِ چشم سے اپنی آنکھوں کا معائنہ کروائیں پھر بلاگ لکھا کریں۔
يہ تو بتائيں کہ عالمی کتاب میلہ ميں بیچ بیچ میں جو کچھ نادان پبلشر شاعری اور ناول جیسی لغویات بیچنے کی کوشش کررہے تھے ان کا کيا ہوا؟
یار تعصب کی بھی انتھا ہوتی ہے، میں آپ کے اس سلسلے کو شروع سے برداشت کرتا آرہا ہوں، حد ہوتی ہے کسی بات کی بھی، میں بھی اس نمائش میں تھا، میں نے وہاں سے آڈیو وژول کتابوں کا بچوں کو انگلش سکھانے والا سیٹ خریدا۔ وہاں سب سے بڑا اسٹال لبرٹی بکس کا تھا اور سب سے زیادہ رش بھی وہیں تھا، اور وہاں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب امریکی صدر اوباما کی تھی۔ خدا کے لیے اپنی آخرت تو خراب نہ کریں۔ آپ تو صرف اسلام دشمنی میں اندھے ہی ہوئے جا رہے ہیں۔ اللہ ہی آپ کو ہدایت دے۔
یہ بی بی سی والوں کو آپ کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔ کہاں تو بلاگز میں پابندیاں ہیں کہ کسی کی ذات، مذہب پر کوئی نازیبا جملہ نہیں کہا جائےگا، ہم اس سنسر شپ میں شروع سے متاثر رہے ہیں، لیکن آپ کے لیے سارے قانون کیوں توڑے جا رہے ہیں؟ کیا ہم بی بی سی کی ہائر مینجمنٹ سے شکایت کریں۔ آپ سے یہ درخواست ہے کہ دوسروں کے جذبات سے نہ کھیلیں اور نہ ہی اپنے بلاگز میں رنگ بھرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیں۔
حنیف صاحب، مانا کہ اسلام سے آپ ذرا ’الرجک‘ ہیں لیکن مرے خیال میں تو کتاب جیسی بھی ہو اس سے رشتہ مضبوط ہونا چاہیے. کتاب بینی اور کتاب دوستی آجکل ضروری ہے اور کتاب خریدنے کے ساتھ اگر مسواک ہولڈر آجائے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہے.. آپ کبھی روشن خیالی اور لبرل فاشزم کی عینک اتار کر بھی چیزوں کو دیکھ لیا کریں تو بہت کچھ آپ کو مثبت ملے گا۔۔۔ ویسے ایک بلاگ میں اس موضوع پر بھی مشق آزمائی کریں کہ مسلمانوں کا اسلام سے رشتہ جتنا کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بڑھ کیوں جاتا ہے؟ اپ کی ایڈیل مغربی سوسایٹی میں رہتے ہووے اسلام سے رشتہ جتنا کمزور ہوتا ہے تو اپ جیسے لوگوں کے بلاگ پڑھ کر اسلام پر یقین اور ایمان اور بڑھ جاتا ہے. شکریہ
حنيف صاحب، تين بلاگ لکھے ہيں، تينوں لاجواب۔ آیئنہ ديکھانے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھنے والے ميں برداشت کا مادہ ہو۔ جاری رکھيے۔۔۔
صا حب جی آپکا بلاگ پڑھا، يہ آپکے خيالات عا ليہ ہيں، طنز کے ان تيروں ميں جو کچھ پنہاں ہے وہ واقعی بہت افسوسنا ک ہے۔ جناب والا، يہ با ت قابل قدر ہے کہ مسلمان اپنی حقيقی راہ کو بھو ل بيٹھے ملاؤں کا شکا ر ہوئے اور حقيقی ورثہ کو گم کر بيٹھے۔ دين اور دنيا کو جدا کر بيٹھے۔ دين کو اپنے لیے اور دنيا کی بساط کسی اور کے لیے لٹا بيٹھ۔ الرازی اور ابن الہثيہم، الخوارزمی اور نہ جانے کتنے بلند پايہ لوگوں کی وارث پتہ نہيں کہاں گم ہوگئی۔ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگئی، جنہوں نے سائنس کو بام عروج ديا وہ آج ان کمالات سے کوسوں نہيں سلوں پستيوں کی لہروں کا شکار ھوگئے اور جب کوئی قوم پستيوں کو چھوتی ہے تو پھر وہی اسکا انجام ہوتانھے جو آپنے ملاحظہ کيا۔
حنيف صاحب، پتہ نہيں کيوں اس بلاگ پہ تبصرہ کرنے کو جی نہيں چاہتا مگر اس کے اندر کی بات جاننے کی ميں نے بہت کوشش کی ہے اور يہ بھی کوشش کی ہے کہ پيغام در پيغام کو پڑھ سکوں، چونکہ ميں پاکستان کے اندر کے حالات کو ٹھيک سے اور قريب سے نہيں جانتا اس لیے يہ اندازہ لگانے سے قاصر ہوں کہ مسواک ہولڈر بيچنے کے لیے آخر کس طرح کے دھماکہ خيز اشتہار لگائے گئے ہيں۔ ہاں ليکن آپ کی ايک بات سے ضرور اتفاق کرونگا کہ مسلمان يا تو حد سے زيادہ بے دين ہيں يا پھر تعصب کی حد تک ديندار اور اس چکر نے انہيں کہيں کا نہيں رکھا ہے۔ آج وہ معياری تعليم ترقی سائنس اور نت نئی ايجاد کے کانٹری بيوشن ميں شايد ايک فيصد بھی حصہ ادا نہ کرسکينگے۔ انڈيا ميں اگر مسلمان آئی۔اے۔ايس، آئی۔پی۔ايس،ايم۔بی۔بی۔ايس اور انجنيرنگ و آئی ٹی کے مقابلوں ميں شامل ہونے کی اہليت نہيں رکھتے يا مقابلے ميں فيل ہوجاتے ہيں تو يہ کہہ کر اپنے دل کو مطمئين کرليتے ہيں کہ ان کے ساتھ تعصب برتا گيا ہے ليکن حقيقت حال يہ ہے کہ پوری دنيا ميں علم کے حوالے سے آج کے دور ميں مسلمان بہت پيچھے ہے۔ وہ يا تو مقابلہ ہی نہيں کرنا چاہتا يا پھر يہ چاہتا ہے کہ بنا محنت و مشقت کے گھر بيٹھے ہی اسے آرام سے سب کچھ ملتا رہے اگر يہ نہيں ہوپاتا ہے تو پھر وہ جھنجلا جاتا ہے۔ نتيجہ؟ بہت ساری خرابيوں کی شکل ميں سامنے آتا ہے!
ایکسپو سینٹر میں عرب بھائیوں کے برابر میں ہی ایک ٹیلی کام کمپنی کی دوپٹے سے بے نیاز لڑکیاں چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر مہندیاں اور اسٹیکرز لگاتی ہوئی آپ کو کیوں نطر نہیں آئی؟ سچائی ناپنا ہے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ تینوں ہالوں میں سیلز گرلز کی تعداد زیادہ تھی یا لڑکوں کی؟ میں نے پہلے کہا تھا کہ لبرٹی بکس نے سب سے زیادہ بزنس کیا، اور اس کے پاس ۸۰ فیصد کتابیں ویسٹرن پبلشرز کی تھیں۔ میں خود ایک پبلکشنز کے ساتھ اپنے اسٹال میں تھا، تو اپنے competitor کے بارے میں معلومات رکھنے کے لیے اوپر کے فلور سے میں نے تصاویر بھی کھینچی تھی۔ کاش وہ میرے پاس ہوتی تو میں آپ کو دکھاتا کہ ہمارے پاکستان کو مذہبی انتہاپسند کہنے والے غلط کہتے ہیں، وہاں اسلامی کتابوں سے زیادہ دوسری کتابوں کی سیل ہوئی اور اس کا ثبوت خود ہماری سیل ہے۔
پرائے کرم آپ اپنی نفرت کو اپنے پاس ہی رکھیں یا پھر کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں آپ کے نام کی وجہ سے فل باڈی اسکیننگ ہو، اور آپ پھر بھی وہاں خوش رہیں۔
بی بی سی سے درخواست ہیکہ میرے دونوں تبصرے لازمی شائع کریں، جیسے ان حنیف صاحب کے بلاگز آپ بلا جھجکے شائع کرتے ہیں۔ امید ہے کہ کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کی جائے گی۔
ہمارے بچے مجاہد بنانے ہيں اور خود کے بچے انسان،يہ ساری منافقتيں مسواک سے ليکر ڈيجيٹل ٹوپی و تسبيح يہيں پر بک سکتی ہے اگر ايک اسٹال نيک مومن ازواج کيلۓ ہو جسميں سيکسی نائٹ ويئر ہو وہ بھی بہت خوب چلتا بلکہ مسواک کا کمپٹيشن سخت ہو جاتا، بھايئوں تنقيد نہ کرو ٹھندے دل و دماغ اگر ہے تو اس سے سوچو اور پڑھو اسلام محفوظ ہے اسے خطرہ صرف آپ جيسے منافقين سے ہے اسلۓ زيادہ ٹيںٹيں نہ کريں مزيد ساتھ بلاگز ابھی آنے ہيں،حوصلہ !
آپ جیسوں کے بچے مجاہد کہاں بننے ہیں، یہ انسان بن جائیں بڑی بات ہے۔ انھیں ننگے گھومنے کا حق چاہئے لیکن کوئی اپنے آپ کو ڈھاپنے کا حق چاہے تو پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے۔ صرف سات بلاگ، کیا اس کے بعد حنیف صاحب کے قلم میں ڈالر کی روشنا ئی نہیں رہے گی؟ جو لوگ خدا کا دھندا کررہے ہیں وہ تو کرتے رہے گے، حنیف صاحب کا دھندا لگتا ہے مندا ہے جبھی بولی لگارہے ہیں۔
یہ بلاگ پڑھ کر مجھے رونا بھی آیا اور ہنسنا بھی۔ عرض یہ کہ ہم لوگ اگر اپنے معاشرے کی برائیاں گنواتے ہیں تو اس کا حل تجویز نہیں کرتے۔ اور جو لوگ حل بتاتے بھی ہیں تو وہ مغربی روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ بات اور ہے کہ مغربی نظام اپنے آخری دم لے رہا ہے لیکن کہتے ہیں نا کہ بادشاہ سے زیادہ اس کے وزیر پریشان ہوتے ہیں، یہ فرسٹریشن اس بلاگ میں دیکھ کر اچھا لگا۔ ý سے ایسے ہی بلاگ کی امید ہو سکتی ہے۔
کیا ان مغرب زدہ لوگوں نے کبھی بھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ شدت پسندی کیوں بڑھ رہی ہے؟ کیا میڈیا نے کبھی تمام مدارس کا کوئی سیمینار منعقد کیا ہے؟ کیا مدرسوں میں جو بچے پڑھ رہے ہیں ان کے لیئے مفت سائنس کلاسز کا انعقاد کیا ہے؟ کیا انہیں کوئی ہنر مفت سکھا کے روزگا دلوانے کی کوشش کی ہے؟
اور جواب آئے گا نہیں، ہم تو صرف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں، یہ کام تو سرکار کا ہے۔
یہ ý ہی تھا جس نے WMD کی خبریں شایع کر کے عراق جنگ کا راستہ کھولا اور بعد میں چند لوگوں کے استعفے اور معذرت۔ لیکن بہر حال جیت سچ کی ہی ہوئی۔
آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ ایسی کتابیں صدیوں سے لکھی جا رہی ہیں اور جاتی رہیں گی شاید آپ کو کبھی انہیں دیکھنے کا ٹائم نہیں ملا، آپ اگر non-issues کے بجائے real-issues پر بلاگ لکھیں تو پتا چلے کہ آپ کی صرف اردو اچھی ہے یا ذہن بھی۔
حنیف بھائی جو اصحاب یہاں آپ پر غصّہ اتار رہے ہیں وہ سچ برداشت نہیں کر سکتے- اس میں کوئی دو رائےنہیں کہ منافع کی دنیا میں ہر چیز کاروبار ہی ہوتا ہے- مگر آپ کے مذہبی نظریات چاہے جیسے ہوں، آپ کو پلاسٹک کا مسواک ہولڈر جیب میں رکھنے کا شوق ہو یا پلاسٹک کی مسواک- چاہے آپ کی جو وضع قطع ہو، دوسرے کو اظہاررائے کے حق نہ دینا ایک سوسائٹی میں قطعی نا قابل قبول ہے- اگرہم کسی کی بات سن ہی نہیں سکتے تو معاشرے میں ایسی ہی برائیاں جنم لیں گی جنکا ذکر آپ نے اپنے بلاگ کیا ہے-
ان بلاگز پر مخصوص ردعمل غيرمتوقع نہيں - مصنف نے کيا غلط کہہ ديا کہ مذہب کو صرف دوکانداری تک محدود نہ کرو اس سے آگے بھي کچھ کر لو - اعتراض مسواک ہولڈر پر نہيں بلکہ اس کےمضحکہ خيز انداز فروخت اور ہماري معاشرتي سوچ پر ہے جو ناک سے آگے ديکھنے کي صلاحيت کھو چکي ہے - خدا ہدايت دے ہميں - آنے والي نسليں روئيں گي ہماري جان کو کہ دنيا کہاں سے کہاں پہنچ گئي اورانہيں ورثے ميں کيا ملا ہے -
کچھ لوگ غیروں کی نظروں میں اپنے آپ کو معزز بنانے اور دنیاوی رتبہ اور زیادہ دولت کی حرص میں (بکائو مال) بن جاتے ہیں۔ اور انہیں یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور خود بھی مسلمان ہیں (شاید بی بی سی نے حنیف صاحب کو اس بلاگ کی منہ مانگی اجرت دی ہو)
زبردست، میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔ اور آج بھی آپ نے خوبصورت انداز میں نام نہاد مولویوں اور اسلام کے نام پر لوگوں کو لوٹنے والوں کو بینقاب کر دیا۔ جیو حنیف صاحب
انتہا ھے انتہاپسندی کی
حنیف صاحب!میں آپ کے پچھلے بلاگز پڑھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ لبرل انتہا پسندہیں۔آپ اپنی سوچ، نظریہ اور لبرل پن دوسروں پر ٹھونسنے کے لیے نہ کسی ایشو کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ کسی دلیل کی....بغیر کسی ایشو کے محض مذہب بیزاری کی بنا پر بلاگز لکھنا جن میں صرف تعصب ہو‘ ایک روشن خیال ماڈرن شخص کو بھی زیب نہیں دیتا کیوں کہ دوسروں کو رواداری اور آزادی کے خوبصورت لیکچرز روشن خیال لوگ ہی دیتے رہتے ہیں۔
اللہ ہی آپ کو ہدایت دے کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آیندہ سات بلاگز میں بھی صرف ایک ہی موضوع ہوگا اور وہ ہے دین اور شعائر دین کا مذاق اڑانا کسی بھی طرح ‘ کسی بھی بہانے....
اسلام سے اتنا خوفزدہ کيوں ھو تم- افسوس اس بات کا ھے کہ اگر تم خود اسلام کو جانتے تو لوگوں کی سطحی باتيں نہ کرتے- اپنی اولاد کو بيشک اسلام کے پاس نہ آنے دو ليکن دوسروں کے بچوں کو روکنے کا حق محترم کے پاس نہيں-بي بی سی سے ايک شکايت ھے کہ جس کی معا شرے ميں کوئی نہيں سنتا ـ اسکو بلاگ لکھنے کے ليے بھرتی کر ليا جاتا ھے- آپ اسلام ميں مزاح کو لاؤ مگر مزاح ميں دين کو لانے کی اجازت اسلام آپ کو نہی ديتا-مثبت انداز سے سوچنے کی گزارش-
آپ کی انتہا پسندانہ سوچ طالبان سے کچھ زيادہ مختلف نہيں، فرق صرف نظريہ کا ہےـ ايک حد پر طالبان دوسری حد پر محمد حنيف اور سيکولر ہمنواہ ـ
ابھی تک میں بھی اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ مسلمان کہ خاص کر وہ طبقہ جو تعلیم سے دور ہے یا کم پڑھا لکھا ہے شاید اس کمزوری کے باعث چھوٹی سوچ،متعصب،تنگ نظر وغیرہ خطابات سے نوازہ جاتا ہے لیکن حنیف صاحب کو پڑھ کے معلوم ہوا کہ تعصب،تنگ نظری،چھوٹی سوچ بی بی سے جیسے ادارے کے پڑھے لکھے کالم نویسوں میں بھی شدت سے پائی جاتی ہے۔ تو اب کس کا گلہ کس سے؟
ميں يہ اپ کا بلاگ پہلی اور شايد آخری دفعہ پڑھ رہی ہوںـ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پہلے جب آپ جيسے ايک حضرت مجھ سے جب بھی بحث ميں آپ کا حوالہ ديتےتو مجھے خاموش ہونا پڑھتا تھا کيونکہ ميں آپ کو زيادہ نہيں جانتی تھی ـدکھ اس بات کا ہے کہ آپ جيسے لوگ ان نام نہاد مجاہدين سے بھی زيادہ فارغ ہيں ـ آپ کيليے زندگی سائنس ميں ترقی ہے ليکن کبھی غور کيا کہ آج بھی لوگ بھوکے مرتے ہيں اور اسی سائنس کے ايجاد کردہ بم بيگناہوں کو مارتے ہيں ـ مذہب اسی اندھی سائنس کو مقصد دلاتی ہے اور اندھوں کو راستہ دکھاتی ہے ِ اسلام تو کبھی بھی ميری ڈاگڑيٹ کے آڑے نہيں آيا ـ آپ سے زيادہ تو ميری غير مسلم آئرش دوستيں اسلام کو بہتر سمجھتی ہيں ـ
اس بلاگ پر تبصرے شائع کرنے ميں غيرجانبداری اختيار کرنے پر بی بی سی تعريف کی مستحق ہے- مسواک کرنے اور اس کو ہولڈر ميں محفوظ کرنے پر بہت کچھ کہا جاچکا- جناب حنيف صاحب سے درخواست ہے کہ ايک بلاگ ان برش کرنے والوں پر بھی لکھيں جو قوم کے دوسو چھپن ارب چھياسٹ کروڑ پچاس لاکھ روپے ڈکار گئے ہيں-
بےکار مباش کو کچھ تو کرنا ہی ہے۔ اور نہیں تو بلاگ لکھ ڈالو۔ مسواک جیسے سادہ سے اسلامی شعار پر توہین آمیز گفتگو نامناسب ہے۔ اپنی انگریزی ریسرچ پر بھی ذرا توجہ کر کے دیکھیں کہ جو مسواک کی افادیت سے آگاھی کے بعد مسواک پیسٹ بنانے میں مصروف ہو چکی ہے۔ ڈائریکٹ ہربل اینزائمز کی افادیت کے مقابل کوئی چیز بھی مصنوعی طور پر نہیں کھڑی ہو سکتی۔ ہم مسلمان ہیں مسواک کو دانتوں کی صفائی کیلیے منتخب کرتے ہیں۔ واقعی ٹوتھ برش ہولڈر کی طرح اس کو بھی دو دن محفوظ رکھنے کے لیے ایسی کسی مناسب چیز کی ضرورت تھی سو کسی مسلمان نے اس کو نیکی سمجھ کر متعارف کرایا تو کیا برا کیا۔ بلاگر کو مسواک ہولڈر پر تنقید تو یاد ہے مگر انگریزی سیکس ٹوائز پر بھی کچھ توجہ فرمائیں۔ کہ وہ کونسا تیر مارا ہے انگریز نے۔ کہ ہر مخالف جنس ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہو پاتی تو مصنوعی سہارے ڈھونڈنے لگتی ہے۔
واہ
بچپن ميں سنا تھا کہ جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ھو جا تا ھے ايسا لگتا تو نھيں ہے