| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ان پر بھی نظر رکھیں

اصناف: ,

نعیمہ احمد مہجور | 2010-02-14 ، 9:20

بھارت اور پاکستان کے لوگ ہوں یا ان کی سرکاریں، مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد ہی ہر کوئی پونے طرز کے حملے کے بارے میں ذہنی طور پرتقریباً تیار تھا اور اس انتظار میں تھا کہ یہ حملہ کہاں اور کس وقت ہوگا۔

اس بات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ملکوں میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو کسی بھی طرح ان کو امن اور شانتی سے رہنے نہیں دے گا۔ وہ چاہے اندرونی سطح پر سرگرم عمل ہو یا بیرونی سطح پر، وہ اپنے مفادات کو ہر قیمت پر قائم و دائم رکھے گا۔
دونوں ملک ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ قیام امن کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کریں ان کو ایک دوسرے سے دور رکھنے اور دشمنی کو مضبوط کرنے میں یہ طبقہ ہر پل کوششاں ہے بلکہ برصغیر میں ان کی بہت ساری دکانیں موجود ہیں جو وہ کسی طرح بھی بند نہیں ہونے دےگا۔
ایک بات کی طرف دھیان دینا ضروری ہے کہ اگر پاکستان میں طالبان نے تباہی مچائی ہے تو بھارت میں بھی ایک طبقہ موجود ہے جو بربادی کی جانب گامزن ہے، جو ہتھیاروں کے بل پر لوگوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے اور ان کی زندگیاں جہنم بنا رہا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بھارتی میڈیا کے مطابق پونے بلاسٹ لشکر یا انڈین مجاہدین کا کام ہوسکتا ہے مگر جو جنگجو طبقہ یہاں بھی پنپ رہا ہے کیا اس کو محض 'غیر مسلم' ہونے کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ان کے پاس بھی ہتھیار ہیں، تربیت ہے، انتہا پسند نظریہ ہے اور وہ سوچ ہے جو سیکولر انڈیا میں زہر گھول سکتی ہے۔
اُس کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا اور ان کے عزائم پر سے پردہ کیوں نہیں اٹھایاجاتا تاکہ وہ کل کے طالبان نہ بن سکیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ طبقہ کب حملہ کرے گا۔ بلکہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بڑی تعداد پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے لگا ہے اور جس طرح کا ایجنڈا لے کر چلنے لگا ہے وہ خود بھارتی جمہوریت کے لیے کافی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 10:32 2010-02-14 ,Dr Alfred Charles :

    نعيمہ صاحبہ!آپ کی تحرير سے متفق ہوں۔ سوال تو يہ پيدا ہوتا نا کہ ان غير مرئی قوتوں کو کون لگام دے؟نان اسٹيٹ ايکٹرزکی باگوں کو اسٹيٹ ايکٹرز کب تک يوں کھبی تان کر اورکھبی ڈھيلا چھوڑتے رہيں گے۔ جيسا کہ آپ نے کہا ہے کہ يہ دو طرفہ معاملہ ہے تو يہ پتلی تماشا کب تک جاری رہے گا؟ کون انکی طنابيں کسے گا معلوم نہيں۔بحرحال ہم اب اتنا جان گئے ہيں کہ يہ سب کچھ مفادات کی دوڑ کا چکر ہے۔اب ہميں چاہئيے کہ ہم ايسے عناصر اور عوامل کی بروقت نشاندہی کريں

  • 2. 10:47 2010-02-14 ,علی گل ، سڈنی :

    دنيا ميں جتنے بھی مذاہب ہيں بنيادی طور پر انسان کو زندگی گزارنے کے ليۓ نظم و ضبط کا طريقہ بتاتے ہيں اور اگر غير جانبدارانہ نظر سے ديکھا جائے تو سبھی قابل عزت ہيں اور ہر خطے کے لوگوں کا ثقافتی سرمايہ ہيں۔اس کے علاوہ لوگ بھی دو قسم کے ہيں ايک تو وہ جو انتہائی جارہانہ رويہ کے مالک ہيں اور دوسرے وہ جو زندگی کی قدروقيمت کو نظريات پہ فوقيت ديتے ہيں اور يہ ہی دنيا کا کاروبار مثبت طريقے سے چلاتے ہيں۔بدقسمتی سے ہندوستان اور پاکستان ميں پہلی قسم کے لوگوں کی تعداد زيادہ ہے اور ان ميں برداشت کی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔دونوں ملکوں ميں محاز آرائی کا سبب بھی يہ ہی لوگ ہيں۔ہندو ہوں يا مسلمان دماغ ايک ہی قسم کا ہے اور ہر ايک کی کوشش ہے کہ اپنے اپنے نظريات کو ہتھيار کے طور پر استعمال کرکے ذاتی مفادات حاصل کيۓ جائيں۔لڑائی کی بنيادی وجہ بنا کام کرنے کے دولت کے حصول کی کوشش اور آبادی کا بڑھنا ہے۔

  • 3. 12:08 2010-02-14 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘کچھ اس طرح کا پُر اسرار ہے تِرا لہجہ
    کہ جیسے راز کشا ہو کسی خزانے کا‘

  • 4. 14:02 2010-02-14 ,مصد ق خا ن نيا زی ميا نو الی :

    آپکی با ت درست ھے اور نقطہ در نقطہ ھے

  • 5. 15:31 2010-02-14 ,sana khan :

    کشمیر سے آگے دیکھنا اور لکھنا شروع کرنے پر میری طرف سے آپ کو بہت مبارک باد اور یہ اچھی بات ہے نیا پن ہونا چاہیے۔ میں تو ایک جیسی باتوں سے بہت جلد اکتا جاتی ہوں اس کی ایک چھوٹی سے مثال دیکھیں۔ مجھے ڈسکو ڈانس کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن نئے زایقے کے لیے ہفتے میں ایک دو دن بیلے ڈانس کی پریکٹس بھی کر لیتی ہوں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا روز روز دال کھائے والے کا دال سے دل نہ بھرے۔ اب آپ موڈریٹر کی طرف بھی تھوڑا دیکھنے کی کوشش کریں یہ مرد لکھنے والوں کے تبصرے تو بڑی جلدی چھاپتا ہے لیکن خواتین یعنی آپ اور عنبر کے بلاگ پر آدھی درجن سے زیادہ تبصرے نہیں چھاپتا اور حنیف کے بلاگ پر پلک جھپنے میں تین درجن تک تبصرے چھاپ دیتا ہے۔ موڈریٹر کی کلاس لیں گی تو کچھ بات بنے گی اس موڈریٹر کو بتائیں لیڈیز فرسٹ۔

  • 6. 15:40 2010-02-14 , اے رضا :

    سری لنکا کی مثال ياد کيجيۓ - پچيس برس تمل ٹائيگروں نےکيا کچھ نہيں کيا - ليکن جب سرپرستوں کي ترجيحات بدل گئيں تو ان کا کيا حشر ہوا - اب يہ دونوں ممالک پر منحصر ہےکہ وہ کيا چاہتے ہيں - گھر کی صفائی کرتے ہيں يا سرپرستوں کے جي بھرنے کا انتظار کيا جاتا ہے-

  • 7. 2:47 2010-02-16 ,sana khan :

    اچھے اور گندے انسان ہر جگہ ہوتے ہيں يہ تو پھر بھی انڈيا پاکستان دو دوست نما دشمن ملکوں کی بات ہے،تبصروں پر ہی نظر دوڑاليں تو يہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ اپنے ہی لوگوں ميں کالی بھيڑيں کتنی ہيں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔