| بلاگز | اگلا بلاگ >>

سفارش 'عدولی' کا حق

انور سِن رائے | 2010-02-14 ،19:42

اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس صاحب، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تقرریاں روایت کے برخلاف کیوں چاہتے ہیں اور حکومت یا صدر کو ان کی اِس 'سفارش' کی تعمیل میں کیا خرابی دکھائی دیتی ہے۔

لیکن جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکومت کی جانب سے ججوں کی تقرری کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے 'سرسری سماعت' کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا صدارتی حکم معطل کر دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صدر نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارش 'عدولی' کی ہے اور ان کی خواہش کا احترام نہیں کیا۔ جب کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے دعویٰ کرتے ہیں کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں حکومت کے پاس چیف جسٹس کی تحریری مشاورت موجود ہے اور صدر نے جو بھی حکم جاری کیا ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

انہوں نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ 'چیف جسٹس کے ساتھ خط و کتابت میں جو مشاورت ہوئی ہے وہ ریکارڈ پر موجود ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے چیف جسٹس نے اپنی سفارشات صدر کو بھیجیں اور صدر نے انہیں اپنی آرا کے ساتھ واپس بھیجا اور اس کے بعد چیف جسٹس نے جو دوبارہ اپنی رائے دی اس پر صدرِ مملکت نے آئین کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

حالات اور دونوں ججوں کے پس منظر دیکھ کر میاں نواز شریف صاحب کی تندی و تیزی بھی سمجھ میں آتی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھانے سے خود جسٹس ثاقب نثار کا انکار اور یہ کہنا بھی کہ 'وہ وہی کریں گے جو چیف صاحب کہیں گے'۔

کیسی افسوسناک بات ہے کہ جناب چیف جسٹس افتخار چوہدری خود اپنے ہی لوگوں کے سامنے مدعی بھی بننا پڑ رہا ہے۔ اب اگر چیف جسٹس صاحب اپنی سفارش پر عمل نہ کیے جانے کا نوٹس خود بھی نہ لیں گے تو کون لے گا اس لیے انہوں نے کسی کو بھی اس تکلیف میں نہیں ڈالا ۔ خود ہی نوٹس لیا اور خود ہی بینچ بنایا۔ جس نے وہی کیا جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا یعنی آتے ہی فیصلہ معطل کر دیا۔ اسے کہتے ہیں انصاف، بلکہ تیز ترین انصاف۔ خرابی اس میں صرف یہ ہے کہ جیسے کتے کے کاٹے پانی سے ڈرتے مجھے بھی اس میں ضیاالحق کے بو آتی ہے۔ اگر آپ اپنی سفارش پر عمل نہ کیے جانے پر کارروائی کرتے ہوئے خود ہی نوٹس لیں گے اور خود ہی بنچ بنائیں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو گا: کہ آپ مدعی بھی ہیں اور منصف بھی۔

ساری دنیا جانتی ہے یہ طریقہ جنرل ضیاالحق کے دور سے ہی نہیں، ہر مارشل لا دور کی شناخت رہا ہے بلکہ ہر آمریت کی ہے۔ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں امریکہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس گیا اور کوئی کچھ نہیں کر سکا۔

بہت سے پاکستانی یقیناً چاہتے ہوں گے جو برا بیت گیا ہے اس کی یاد نہ دلائی جائے۔ سپریم کورٹ کو کام کرنے کے لیے جج چاہیں تو دونوں جج حضرات ایسے ہیں کہ انہیں کوئی بھی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر خواجہ شریف سپریم کورٹ آ جائیں گے یا جسٹس نثار۔

اگر چیف جسٹس یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس خواجہ شریف سپریم کورٹ میں آنے کے اہل نہیں ہیں اور جسٹس ثاقب زیادہ اہل ہیں تو یہ بات حکومت کو بھی سمجھا دیتے اتنا ہنگامہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی اور ہمارے خیال میں تو آئین میں مشاورت کی شق کا مطلب بھی شاید یہی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 1:07 2010-02-15 ,Abbas Khan :

    اسی طرح کا نوٹيفيکشن مياں صاحب نے بھی 1999 ميں جاری کروايا تھا، جسکا نتيجہ وہ آج تک بھگت رہے ہيں- پہلے صرف فوج تھي، اب عدليہ نے بھي اپني يونين بنا لي ہے- وہ توشکر ہے کہ ججوں کےپاس ٹرپل ون بريگيڈ نہيں، اسی ليۓ حکومت ابھی تک بچی ہوئی ہے- دراصل سياستدان ابھی تک نہيں سمجھے کہ انکا کام بجلي، پٹرول، اور گيس وغيرہ کي قيمتيں بڑھا کر اسٹيبلشمنٹ کا خرچہ پورا کرنا، اگر موقع ملے تو کچھ مال اڑانا اور عوام سے گالياں کھانا رہ گيا ہے۔-

  • 2. 1:50 2010-02-15 ,خالد :

    آخر کسی کو کنگ آف کنفرنٹيشن King of Confrontation)کا اعزاز بھی تو لينا يے-

  • 3. 2:06 2010-02-15 ,انور حسين :

    فوجی مارشل لاء تو بہت ديکھے اب عدالتی مارشک لاء کی باری ہے- چيف جسٹس` فوج اور نواز شريف کا مثلث جمہوريت کو تابع کرنے کی کوشش ميں ہے- زرداری جتنے بھی کرپٹ صحيح مگر چيف جسٹس کا عدالتی حکمرانی کا خواب شايد اب پورا نا ہو سکے کيونکہ اب ان کے عزاۂم مکمل طور سے بے نقاب ہو چکے ہيں۔

  • 4. 3:53 2010-02-15 ,مصد ق خا ن نيا زی ميا نو الی :

    صا حب جی کبھی ھلکا پھلکا بلا گ بھی لکھ ليا کر يں„„„بولتے بولتے„„لکھتے لکھتے تھک جائيں گے„„يہ ملک نھيں سدھرنے والا„„„انصاف کو جو عام کر نے کی کوشش کرتاھے وھی راستے سے ھٹا ديا جاتا ھے„„بدقسمتی ھماری بھی ھے اور ملک کی بي„„ايسے حکمران خدا بھارت کو بھی نہ دے„„

  • 5. 6:55 2010-02-15 ,قیصرانی :

    میرا خیال ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے ایک انتظامی فیصلے کو معطل یعنی عارضی طور پر روک دیا گیا ہے تاکہ اس پر تفصیل سے سماعت کی جا سکے تو اس میں کیا برائی ہے؟ ہاں اگر یہ مستقل فیصلہ ہوتا تو اس پر کالم لکھنے کا کوئی فائدہ تھا۔ انور سن رائے صاحب، خیر سے ایک اور "انتہائی کارآمد" بلاگ لکھنے پر مبارکباد

  • 6. 8:02 2010-02-15 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    ’لائے ہیں نقطہ داں یہ کوڑی بڑی دور سے‘
    صد احترام انور سِن رائے صاحب، آداب! سب سے پہلے تو ایک خالصتاً تخلیقی بلاگ لکھ کر قارئین کے سامنے لانے پر آپ کا بہت شکریہ۔ خاکسار کے خیال میں آپ نے ‘ججز بحران‘ کی جڑوں کو یہ لکھ کر تن آسان اور سہل پسند عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ ’اس میں ضیاءالحق کی بو آتی ہے‘۔ یہی وہ نایاب الفاظ ہیں جو ‘قصہ کہانی‘ کو سمجھنے، اسکی تہہ تک جانے اور ‘ہِز ایکسیلینسی‘ صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کے خلاف ‘ٹرائیکا‘ یعنی میڈیا، بحال شدہ عدلیہ اور ن لیگ کے ’گٹھ جوڑ‘ کی وجوہات تک رسائی پانے کے لیے درست ’روڈ میپ‘ مہیا کرتے ہیں۔ یہ ’روڈ میپ‘ اس لیے بھی درست نظر آتا ہے کہ صدرِپاکستان نے ججوں کی تقرری کا حکم، آئین، قانون، میرٹ، سنیارٹی اور جمہوری بنیادوں پر جاری کیا تھا لیکن اس کے باوجود صدرارتی حکم کو رات کے اندھیرے میں ہنگامی طور پر عدالت لگا کر گویا ‘مسئلہ کشمیر‘ ہو، چند ہی گھنٹوں میں معطل کر دیا گیا۔ ’سرسری سماعت‘ کرکے، دوسرے فریق کی عدم موجودگی میں یا اس کو سنے بغیر فیصلہ کر دینا انصاف کے ہاتھوں انصاف کے خون کے مترادف ہے۔ نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتاً ملائیت و آمریت کی پیداوار، سرمایہ داروں کے ٹولے، تاجروں کے جتھے، آڑھتیوں اور بزنس مینز کے جمگھٹے پر مشتمل ن لیگ کا بجائے ’میرٹ‘ کو سپورٹ کرنے کے ’سرسری سماعت‘ کے گُن گانے سے بھی دال میں صاف طور پر نہ صرف کالا کالا بلکہ ہرا چِٹا نیلا پیلا سرخ بھی نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک طرف نواز شریف اپنے لیے صدارتی محل کا دروازہ کھول رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے ’سیاسی گُرو‘ کی روح کو خوش کرنے کا ثبوت دے رہیں ہیں۔ ایسے حالات میں ضیاءالحق کی بو آ جانا اور اس کی ’روح‘ کا ’ان ایکشن‘ ہو جانا قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرپرسن آصف علی زرداری کے خلاف ’میڈیا وار‘ اور ’ادارہ جاتی‘ آمریت کے تسلسل سے دہرائے جانے سے خاکسار کی نظر بھٹو کے ’عدالتی قتل‘ کی طرف چلی جاتی ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر دل کو ڈھارس اور اطمینان بھی ہوتا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ملک، عوام اور پارٹی کے لیے درست سمت گامزن ہیں اور انہوں نے اپنی سیاست سے واضح کر دیا ہے کہ سیانے کا کہا اور اولے کا کھایا بعد میں سواد دیتا ہے۔ اعتزاز احسن کو گیلانی صاحب سے جلد ہی کچھ سیکھنا ہو گا ورنہ وہ دن دور نہیں جب ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ بہرحال، صدارتی حکم کی معطلی کے باوجود جیالوں میں یہ احساس ایک دفعہ پھر پیدا ہوا ہے کہ وہ ابھی ’یتیم‘ نہیں ہوئے۔
    ’جب تک سورج چاند رہے گا
    زرداری کا نام رہے گا‘

  • 7. 8:03 2010-02-15 ,farooq bangkok :

    ہمارے ہاں کہاوت ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے گمراہ ہو جاتا ہےجیسے کہ اب افتخار ہو گئے ہیں لیکن ان کا انجام بھی مشرف جیسا ہی ہو گا۔

  • 8. 8:27 2010-02-15 ,ساحر خان :

    ايک شخص جس نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، سرے محل اور سويٹزر لينڈ ميں اپنی لوٹ مار کی دولت کے انبار لگائے وہ تو بڑی آسانی سے بھول گئے مگر چيف جسٹس صاحب کی سفارش کو رد کرکے اپنی من مانی کرنا کہاں کی جمہوريت ہے۔ ايک کرپٹ شخص جس کو جيل کی سلاخوں کے پيچھے ہونا چاہيے کو ملک کا صدر بنانا کہاں کی تُک ہے۔ زورداری کے علاوہ بھی تو پي پی پی ميں لائق اور امين لوگ ہوں گے جن کو ملک کا صدر بنايا جا سکتا تھا مگر کيا کريں بی بی کے بعد صرف ان کے خاندان يا پھر صرف زرداری کو ہی قابل سمجھا گيا اور اب ايک کے بعد دوسرا مسئلہ کھڑا ہوتا جا رہا ہے کيونکہ ذہين تو وہی ہے۔

  • 9. 8:41 2010-02-15 ,Shahid Kamal :

    انور صاحب، اگر آپ واقعی یہ نہیں جانتے کہ چیف جسٹس خواجہ شریف کی بجائے ثاقب نثار کو سپریم کورٹ میں کیوں چاہتے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ آپ ان چیزوں کے بارے میں لکھنا بند کر دیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہی نہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا؟ لیکن آپ کو اس سے کیا، کیونکہ آپ جیسے نام نہاد ’ترقی پسند‘ تو دراصل سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ منصفانہ کیا ہے اور اس پر خود کو ہر چیز پر مطلق اتھارٹی سمجھتے ہیں۔ آپ نے جس چبھتے ہوئے انداز میں ’سفارش عدولی‘ لکھا ہے اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
    اب چیف جسٹس کے فیصلے اور اس کے عقلی جواز پر آتے ہیں۔ جیسا کہ بہت سے جج اور وکلا کہہ چکے ہیں کہ زرداری الاھاہویں ترمیم سے پہلے کچھ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم سے ججوں کی تقرری کا اختیار حکومت کو مل جائے گا۔ پنجاب میں پچیس سے زائد ججوں کی تقرری ہونی ہے، جو اہم ہے اور ان کے تقرر کی سمری گورنر پنجاب کو جا چکی ہے، اسے التوا میں ڈالنے کے لیے وقت چاہیے۔ اب اگر اس صورت میں پاجاب کے چیف جسٹس تبدیل کر دیے جاتے ہیں اور نئے چیف جسٹس آتے ہیں تو وہ گورنر کو ایک نئے سمری بھیجیں گے اور اس طرح حکومت کو مطلوبہ وقت مل جائے گا۔
    اس کا مطلب یہ ہوا کہ زرداری بدعنوانی کے کسی بھی مقدمے سے نمٹنے کے لیے اپنے جج لگانا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ یہ تبصرہ چھاپیں گے یا اپنا ’عالمانہ‘ بلاگ لکھنے سے پہلے حقائق کی چھان بین کی زخمت کریں گے۔
    میں چیف جسٹس کو موازنہ ضیا اور بش سے کرنے پر بھی احتجاج کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، بی بی سی کے بلاگر کے پیچھے کیا متعصبانہ ذہنیت کام کر رہی ہے۔

  • 10. 10:00 2010-02-15 ,Sajjadul Hasnain Hydrabd India :

    عراق ميں امريک جوتوں سميت آنکھوں ميں گھس گيا تھا دعا کيجيے گا انور سن صاحب کہ وہ تاريخ پاکستان ميں دہرانے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ پھر نہ عنان رہے گا اور نہ ہی مطلق العنان۔ آپ کا بلاگ پڑھ کے مجھے وہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ ياد آرہا ہے جو پاکيزہ ميں کہا گيا تھا کہ ’ يہ حسين پاؤں زمين پر نہ رکھيے گا ميلے ہو جائیں گے‘ آپ کو کيا لگتا ہے؟ پاکستان کے موجودہ پس منظر ميں يہ مشورہ کس پر فٹ بيٹھتا ہے؟؟

  • 11. 10:36 2010-02-15 ,Naveed :

    بخوبی جانتے ہيں کہ نہ جسٹس خواجہ شريف آپ کے ہيں، نہ جسٹس ثاقب نثار آپ کے ملاقاتی ہيں اور نہ جسٹس افتخار چوہدری سے آپ کو جانب داری کی توقع ہے۔چنانچہ يہ جج جانيں کہ کونسی تقرری بہتر ہے اور کس کا تبادلہ اچھا ہے۔جيسے زرداری روزانہ بيسيوں ديگر حکمناموں اور سمريوں پر دستخط کرتے ہيں ججوں کی سمری پر بھی دستخط کرديتے۔

    مگرآپ آصف علی زرداری نے ايک بار پھر کيلے کے چھلکے پر پاؤں رکھ ديا۔اور ايک بار پھر آپ کی کمر کو چک پڑنے سے بچانے کے لئے وزيرِ اعظم يوسف رضا گيلانی کو کہنا پڑ رہا ہے کہ جو عدالت کا فيصلہ ہوگا وہی ہمارا فيصلہ بھی ہوگا۔

    جيسے کسی کو آٹوگراف جمع کرنے کا شوق تو کسی کو سکے اور کرنسی نوٹ يا ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا جنون ہوتا ہے۔اسی طرح لگ يہ رہا ہے کہ ايوانِ صدر کے مکين کو ايک سے ايک نادر مسائل جمع کرنے کا شوق ہے۔ليکن يہ شوق وہی ہے جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ شوق دا کوئی مل نئيں۔اسکے عوض سب کچھ لٹ سکتا ہے۔

    آپ کی راہ ميں کيلے کے چھلکے بچھانے والے فاروق نائيک چيرمين سينٹ يا بابر اعوان وزيرِ قانون يا لطيف کھوسہ مشيرِ خصوصی نہ رہے تو کسی عدالت کے باہر پھر سے تھڑا لگاليں گے۔آپ کا کيا ہوگا جنابِ عالی !

    بشکريہ ووسعت اللہ خانa

  • 12. 11:35 2010-02-15 ,عمر :

    يہ اچھی جمہوريت ھے عوامی حکومت پابند ھے مشورے کی

  • 13. 11:51 2010-02-15 ,علی نقوی :

    جب بھی اور جو بھی حکمراں قانونی اور غير قانونی طريقے سے براجمان ہوتا ہے اسے اپنے ہی ملک کو فتح کرنے ميں يا تو لگا ديا جاتا ہے يا موجودہ کيس ميں بہ رضا و رغبت خود ہی لگ جاتا ہے ظاہر ہے اس کے علاوہ کرنے کو کچھہ ہے بھی تو نہيں۔ کرنے کو پيسہ چاہيں اور جو ہے وہ اپنے ذاتی بينک منيجر کو چاہيے اتنی سی بات ہے سب کی روزی روٹی بشمول اليکٹرانک ميڈيا چل رہی ہے۔

  • 14. 12:30 2010-02-15 ,کرم الہٰی گوندل :

    بھائی عباس صاحب، آپ نے بڑے پتے کی بات کر دی۔ سیاستدان سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ان کا کوئلوں کی دلالی میں کتنا منہہ کالا ہو رہا ہے۔
    خیراندیش
    کرم الہٰی گوندل
    لاہور

  • 15. 15:14 2010-02-15 ,Nadeem Ahmed :

    ايک بات ثابت ہوگئی ہے کہ عدالتيں اگر چاہيں تو مشکل سے مشکل مقدمے کا فيصلہ چند گھنٹوں ميں سنا سکتی ہيں، تو پھر بيس بيس سال مقدمات کو کھينچنا اور عوام کا خون چوسنا کرپشن نہيں تو اور کيا ہے؟ عدليہ کی ٹرپل ون بريگيڈ يعنی کالے کوٹ والے صدر اور حکومت کو گالياں نکال سکتے ہيں اور انکے پتلے جلا سکتے ہيں، اگر يہی کام جيالوں نے ٹرپل ون بريگيڈ کی ڈورياں ہلانے والوں کے ساتھ شروع کرديا تو پھر کيا عزت رہ جائے گي-

  • 16. 15:25 2010-02-15 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘کچھ اور بھی دے گیا لطف
    انداز تمہاری گفتگو کا‘

  • 17. 16:19 2010-02-15 ,raja poras :

    انور سن رائے صاحب آپ تو ابھی تک ہفت روزہ الفتح کے سحر سے ہی نہیں نکلے چلو کسی نہ کسی طرح آپ کو اپنے دل پر کی بات کہنے کا پلیٹ فارم مل گیا اور الفاظ کا کترا کرتے جائیں

  • 18. 16:53 2010-02-15 ,Dr Alfred Charles :

    انور صاحب!اگر اس معاملے ميں ضياالحق کی بوآرہی ہے تو اس سے افسوس ناک بات کيا ہوگی کہ ابھی تک ہم ايک جابر حکمراں کی طرز حکمرانی سے جان نہيں چھڑاسکے۔اس سے بھی بڑھ کرافسوس کی بات تو يہ ہے کہ موجودہ صدر صاحب بھی ہٹ ڈھڑمی بلکہ بالک ہٹ کے مصداق اپنی بات منوانا چاہتے ہيں۔ثابت ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے کوئی سبق نہيں سيکھتے۔ اس محاذ آرائی کا بھی کوئی فائدہ کسی بھی فريق کو نہ ہوگا۔ان کوعدليہ سے الجھنے کے کے بجائے اپنے منشور کی تکميل کی طرف توجہ دينی چاہئيے۔کيا عوام کو روٹی کپڑا اور مکان بلکہ اب تو امن امان دے چکے ہيں جو اب محاذآرائی پر آمادہ ہيں؟

  • 19. 17:24 2010-02-15 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ایمرجسنی جیسی صورتحال قرار دے کر عجلت اور افراتفری میں عدالت لگا کر وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینا رات کے اندھیرے میں ‘قانون‘ کی ‘توپ‘ سے ‘جمہوریت‘ پر ‘گولہ باری‘ سے کسی طور کم نہیں ہے۔ پنجاب کے استعمار کے پنجرے میں بند ن لیگ، جماعت اسلامی، نومولود عمران خان، چھوٹی بڑی تمام مذہبی اور نیم مذہبی جماعتوں کے تعاون اور ‘جی حضوری‘ کو دیکھ کر کالے کوٹ کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اندھا دھند بھاگ رہا ہے۔ اس کو کچھوے اور خرگوش والی کہانی پڑھنی چاہیے کہ جلد بازی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ صرف اے این پی ہے، ایم کیو ایم کو ساتھ ہونا اور ساتھ نہ ہونا ایک برابر ہے کہ ‘بارہ مئی‘، ‘جناح پور‘، ‘نو گو ایریا‘۔۔۔۔ سے اسکا ساتھ بھی مہنگا ہی پڑتا ہے۔ گویا پیپلز پارٹی ایک طرف اور باقی سب دوسری طرف۔ اور یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ضیاءالحق‘ ایک بار پھر ‘زندہ‘ ہو گیا ہے اور بھرپور طریقے سے ‘ان ایکشن‘ ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی مزید پاپولر ہو رہی ہے اور آئندہ انتخابات میں یہ مزید سیٹیں حاصل کرے گی کیونکہ رواں دور میں اسکے خلاف کاروائیاں ‘نہتے‘ پر ‘ظلم‘ کو ظاہر کر رہی ہیں اور اسے ‘سیاسی شہید‘ کا درجہ بتدریج ملتا جا رہا ہے۔
    ‘بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ! ‘

  • 20. 17:44 2010-02-15 ,latif :

    زرداری فوبيا ميں مبتلا لوگ يہ بتائيں کہ ججوں کی تقرری کا يہ طريقہ تو ضيا کی ايجداد ہے اور زرداری ضيا کا فين کب سے ہو گيا اگر زرداری نے ٹھيک کيا ہے تو پھر جنرل ضيا کيوں برا ہے پی پی کے لئے خبر يہی ہے کہ حکومت نے جانتے ہوئے ايسا کيا ہے اور حکومت ہے توقع بھی يہی تھی تاکہ جج کی تقرری کو لٹکايا جائيے دو کی تقرری کا يہ حال ہے تو باقی صوبائی سطح پر کيا ہو گا حيالے ججوں کے لئے جگہ ہموار کرو بس

  • 21. 22:25 2010-02-15 ,Ansa Kausar Perveen Rani :

    تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہےجسے کوئی بھی با شعور شخص نظر انداز نہیں کر سکتا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں جاتا۔حبیب جالب نے کہا تھا
    تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
    اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
    یہ امر سدا ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وقت کی مثال آب رواں کی تند و تیز موج کی سی ہےاس کا بہاؤبھی ایک تواتر کا مظہر ہےکوئی شخص اپنی تمنا کے باوجود دوسری مرتبہ اس بہتے ہوئے پانی کے مانند وقت کے لمس سے فیض یاب ہو ہی نہیں سکتا
    مجید امجد نے بجا کہا تھا
    سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
    تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے گئے
    کاروان حسین آج بھی صعوبتوں کے سفر میں ہے۔ظلم کا پرچم بلند کرنے والا نظام کہنہ اگر روشنیوں کی راہ میں دیوار بنے گا تو نہیں رہے گا بقول مجید امجد
    نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے نہ بیٹھ
    نظام کہنہ تو گرتی ہوئی عمارت ہے

  • 22. 3:06 2010-02-16 ,sana khan :

    کم از کم چيف جسٹس نے اپنے ہی کام ميں سفارش کی وہ بھی ججز کی نہ کے نووارد صدر کی طرح جو ہر وزارت ومحکموں ميں اپنے رشتہ دار دوست يار عرف عام ميں نااہل چمچے رکھ رہےہيں ليکن اسميں صدر کا قصور نہيں کيونکہ ”چور چوری سے جاۓ پر ہيرا پھيری سے نہ جاۓ” انور سن صاحب اگر آپ اسی طرح صدر کی تايئد ميں بلاگ لکھتے رہے تو شايد وہ دن دور نہيں جب پی ٹی وی کے ايم ڈی بن جايئں اور چيف جسٹس نے کسی وزارت پيٹروليم يہ سفير بنانے کی سفارش نہيں کی ہے اگر کی ہوتی تو فورا عمل درآمد ہوجاتا کيونکہ صدر کو صرف يہی آتا ہے کميشن کے علاوہ

  • 23. 6:41 2010-02-16 ,jam kausar :

    عدليہ کا غير جانبدار اور نظر آنے والا انصاف صرف ايک پارٹی کے لیے ھے ۔ وکلاء تحريک کے دوران کراچی ميی وکلاء کا قتل اور اصغر خان کيس کی سماعت کيلے عدليہ کے پاس وقت نہيں ھے۔سپريم کورٹ کورٹ پر جو حملہ ھوا وہ بھی عدليہ کو ياد نہين

  • 24. 8:07 2010-02-16 ,اعجاز اعوان :

    آپ کا کيا ہوگا جنابِ عالی !
    ’جب تک سورج چاند رہے گا
    زرداری کا نام رہے گا‘

    انشااللہ جناب عالی کا صرف نام ہی رہے گا نشان نہيں رہے گا

  • 25. 13:28 2010-02-16 ,ابراہیم کنبھر اسلام آباد :

    انور میرے بھائی
    آپ نے جو لکھا سچ لکھا سچ کے سوا کچھ نہیں لکھا ، آپ سفارش عدولی پر لکھنے کے حوالے سے اس دور کی بھی شاہدی دیتے کہ مشرف دور میں کتنے جج بھرتی ہوئے کسے ھوۓ؟،ہم یہ نہیں کہتے کہ عدلیہ حکومت کہ معاملات میں مداخلت کر رہی ہے،لیکن بدقسمتی سے یہ بات سچ ہے.اور بات یہاں پر آ کر نہیں رکتی اس حکومت کے لیے باقی اداروں کی مداخلت کیا کم تھی جو اب عدلیہ نے بھی وہ ہی کام شروع کر دے ہیں. بحران چینی کا ہو پیٹرول کی قیمتوں کا اشو ہو جہاں دیکھو سپریم کورٹ آگے آگے ہے، ١٧ کرو کی عوام کی منتخب حکومت ٢٢ گریڈ کے افسروں کو ترقی دینے کے لئے سپریم کورٹ کی محتاج بنی ہوئے ہے. ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے دعویدار ادارے اور سیاسی پارٹیاں کیا واقعے ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت دیکھنا چاہتی ہیں ؟ اگر نہیں تو آج سے ان کو یہ بات ثابت کرنا پڑے گی کہ سیاست فقط سیستدانوں کا کام اور ان کو کرنے دی جائے. اس سے بھی بڑی بات یہ کہ سیاستدانوں کو ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں میں سے نکلنا پڑے گا جو سیاست ک نام کو بدنام کر کے سب کچھ وہ ہی کرتے ہیں جو ان کو غیر سیاسی آقا کہتے ہیں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔