'میں بھی یہودی ہوں، بکواس بند'
برطانیہ کے ذرائع ابلاغ اور ٹی وی کے مباحثوں میں فلسطین اور فلسطینیوں کا ذکر سننے کو ملے نہ ملے لیکن انتخابی اجتماعات میں اس مسئلے پر نہ صرف بات ہو رہی ہے بلکہ یہ موضوع ہر بار ماحول کو بھڑکانے میں بھی اہم کردار کرتا ہے۔
لندن کے دو حلقوں میں تین مختلف اجتماعات میں شرکت کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس موضوع کو چھیڑنے کے لیے مسلمانوں کا وہاں موجود ہونا ضروری نہیں۔
سنیچر کی رات کو چنگفورڈ اور وڈفورڈ گرین کے حلقے میں واقع سینٹ این کے گرجا گھر میں انتخابی میٹنگ ہوئی جس میں حلقے سے تمام امیدوار ووٹروں کا سامنا کرنے کے لیے موجود تھے۔ حاضرین کی تعداد تقریباً ایک سو پچیس تھی جو ایک دو کو چھوڑ کر سب ہی سفید فام اور زیادہ تر بڑی عمر کے تھے۔
ایک ووٹر نےامیدواروں سے پوچھا کہ دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کی وجہ سے ملک کے نوجوانوں میں پائے جانے والے غصے کو کم کرنے کے لیے ان کے پاس کیا پروگرام ہے؟ اس کے بعد حاضرین میں سے نومی نامی ایک خاتون نےغزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی۔ پھر کسی نے ٹونی بلیئر کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دے دیا۔
ماحول بھڑک چکا تھا۔ ایک ووٹر نے کھڑے ہو کر میٹنگ کے میزبان پادری سے غزہ پر حملے والا سوال رد کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس میں صرف ایک فریق اسرائیل پر تنقید کی گئی تھی۔ پادری نے لوگوں سے خاموشی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سوال درست ہے کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حملے میں سکول، ہسپتال نشانہ بنے تھے اور شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
ہال میں خاموشی ہوئی تو ایک آزاد امیدوار بیری نے کہا کہ برطانیہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور ساری دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کا کہنا تھا کہ برطانیہ مکمل طور پر ہاتھ نہیں کھینچ سکتا، تاہم اسے لوگوں کے لیے فیصلے کرنے کی بجائے مذاکرات کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ دو منٹ اس موضوع کے لیے کم ہیں اور بیٹھ گئے۔
اسی دوران حاضرین میں سے کسی نے اعتراض کیا کہ فلسطین کا حوالہ دینا غلط ہے کیونکہ ایسی کوئی ریاست ابھی وجود میں نہیں۔ پھر جیسے ہی لیبر پارٹی کی امیدوار کیتھ اراکیلین نے یہ کہا کہ وہ 'مقبوضہ' علاقوں سے پر امن مزاحمت کے ذریعے قبضہ چھڑوانے کی تحریک 'ہولی لینڈ ٹرسٹ' کا حصہ ہیں تو کسی نے لفظ 'مقبوضہ' پر اعتراض کیا۔
لیبر امیدوار نے اپنی بات جاری رکھی اور ووٹروں سے کہا کہ وہ اکثر انہیں کسی دکان کے سامنے لوگوں کو اسرائیل سے آئی سبزیاں خریدنے سے منع کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ آواز آئی کیوں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ سبزیاں فلسطینیوں سے چوری کیے گئے پانی سے اگائی جاتی ہیں۔
پھر ایک کونے سے شور اٹھا کے یہ یہودیوں کے خلاف نسل پرستی ہے، 'یہ سب ختم کیا جائے'۔ کچھ ہی فاصلہ پر بیٹھی نومی نے کہا کہ'میں بھی یہودی ہوں،یہ بکواس بند کرو'۔
صورتحال قابو میں آئی تو گرین پارٹی کی امیدوار لوسی کریگ نے بتایا کہ وہ فلسطینی کی حامی تنظیم 'فلسطین یکجہتی گروپ' کی رکن ہیں۔ ان کا ایجنڈہ تھا کہ دنیا کے تمام ممالک کو اسرائیل کے ساتھ اسلحہ کی تجارت سے روکا جائے۔
اس سے پہلے شمالی الفورڈ میں گرجا گھر میں ہونے والی میٹنگ(ہسٹنگز) میں بھی مسئلہ فلسطین پر گرما گرمی ہوئی۔ وہاں کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار لی سکاٹ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اپنی جماعت میں اسرائیل دوست گروپ کے رکن ہیں اور 'اس میں کوئی غلط بات نہیں'۔
سنیچر کی میٹنگ میں کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار این ڈنکن سمتھ نے کہا کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں۔'فریقین میں انتہائی بد اعتمادی پیدا ہو چکی ہے'۔انہوں نے کہا کہ وہ دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔
یہ تو تھی ذرائع ابلاغ کی چکا چوند سے دور لندن کی انتخابی مہم کی ایک جھلک۔ اب دیکھتے ہیں بریڈفورڈ، مانچسٹر، بری اور اولڈہیم میں کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا۔ مظلوموں کا خون کبھی نہ کبھی رنگ لاتا ہے۔ وہ خود نہ بول سکیں تو ان کی جگہ خدا کسی اور کو توفیق دیتا ہے۔
اس ميں کوئی شک نہيں کہ اسرائيل کی فلسطين کے خلاف ظالمانہ کارروائيوں اور دنيا ميں ہونے والی ديگر ناانصافيوں کی وجہ سےلوگوں کے ذہن غصے سے بھرے پڑے ہيں اور ان مسائل پہ کھل کر باتيں صرف اليکشن کی کمپين پہ ہی ہو سکتی ہيں اور بعد ميں تو جکومت کی پاليسياں صرف معاملات کو طول دينے اور اسلحہ بيچنے کی رہ جاتی ہيں۔اصل ميں مسئلہ فلسطين ہو يا کشمير دونوں فريقين کے ليۓ صلح صفائی سے کام لينے کا مطلب ان کی شکست بن جاتا ہے۔ اس ليۓ يہ معاملہ عرصہ دراز سے حل طلب ہے اور ہر فريق تمنا رکھتا کہ حل کی صورت ميں اسے زيادہ حصہ ملے اور اس کو مزيد خراب يہاں کی خفيہ تنظيموں نے کر ديا ہے۔ جيسا کہ دبئی ميں فلسطينی رہنما کا قتل اور فلسطينيوں کا چھوٹے راکٹوں کا استعمال تو ايسے ميں باقی دنيا اور اقوام متحدہ اس کو حل کرنے ميں کوشاں تو ضرور ہيں مگر بے بس نظر آتے ہيں۔کيونکہ انہوں نے اقدامات دونوں فريقين کو مد نظر رکھتے ہوئے غير جانبدارانہ کرنے ہوتے ہي۔ويسے ميں نے ديکھا ہے کہ بہت سے مسلمان سمجھتے ہيں کہ مغرب يہوديوں کا ساتھ ديتا ہے ليکن ميں نے گورے عيسائيوں کی اکثيريت کو ديکھا ہے جو يہوديوں سے بہت زيادہ اختلاف رکھتے ہيں ان کی ہٹ دھرمی اور مذہب کو محدود کرنے کی وجہ سے ۔
نہایت اعلی! تھیٹر کا مزا بغیر تھری ڈی گلاسز کے ۔
اسد صاحب! بلاگ پڑھ کر مزا آگيا۔آپ نے جو آنکھوں ديکھا حال بيان کيا ہے اور تحريری طور پر جو نقشہ کھينچا ہے اس نے لہو گرما ديا۔ايسا محسوس ہوا يہ مباحثہ ہمارے ہاں کا انتخابی منظر لئيے ہوا ہےـہمارے ہاں بھی انتخابی مہم اپنے حقيقی مسائل سے ہٹ کر بعض اوقات جہاد و آزادی کشمير،دہلی کے لال قلعہ کی فصيل پر ترنگے کی جگہ اپنا سبز ہلالی پرچم لگانے،چيچنپا کے حريت پسندوں کی دامے درمے سخنے اخلاقی مدد،فلسطينی آزاد رياست کے قيام اور اسرائيلی تسلط سے آزادی تک جا پہنچتی ہےـپھر اسی دوران کسی کو ٹوٹی سڑکيں،ابلتے گڑ، بند اسکول جہاں جانور باندھے جاتے ہيں اور ويران اسپتال بھی ياد آتے ہيں تو ياددہانی کروانے پر اميدوار لچھے دار تقارير کرتے ہوئے دلفريب وعدے کرتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھتے ہيں
پہلی جنگ عظیم کے بعد استعماری قوتوں نے مشرق وسطی میں جو کچھ کیا اس شیطانی سیاست کی نشانیاں اب ان مزاکروں سے ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ دنیا میں موجود زیادہ تر مسائل اور آپسی جھگڑے اسی نوآبادیاتی نظام کی چھوڑی ہوئی نشانیاں ہیں۔
مظلوموں کا خون کب تک رائیگاں جائے گا۔ اسرائیل ظالم ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اسرائیل یعنی ظالم کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتے۔
گریبان جھانکنے کے لیے ہوتا ہے۔ ایک وقت آئے گا دنیا یہودیوں کے خلاف اور مسلمانوں کی حمایت کے لیے اکٹھی ہو گی۔