انتخابی ڈیبیٹ اور برطانوی سوچ
جب چند ہفتے پہلے برطانوی انتخابات کا اعلان ہوا تو سیاسی جماعتوں کو دو بڑی پریشانی لاحق تھیں ایک یہ کہ اراکین پارلیمان کے اخراجات سے متعلق سیکنڈل کے سبب عام لوگوں کا جمہوریت کے بڑے ادارے پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور دوسرا اقتصادی بدحالی نے پنتالیس ملین ووٹروں میں انتخابات کے بارے میں غیر دلچسپی پیدا کی ہے۔
انتخابی پنڈتوں نے تبصرے شروع کئے کہ ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح کم ہوگی اور دوسرا کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔
مگر جب برطانوی جمہوریت میں امریکی طرز پر انتخابی ڈبیٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو لگتا ہے کہ نہ صرف ووٹروں کی دلچسپی بڑھنے لگی ہے بلکہ برطانیہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔ بقول مبصرین لبرل ڈیموکریٹ نے انتخابات میں ایک نئی جان ڈال دی ہے اور ووٹروں کے لئے امید کی نئی کرن بھی پیدا کی ہے۔
پہلی انتخابی ڈبیٹ کو گیارہ ملین لوگوں نے سنا اور دوسری ڈیبیٹ سننے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ رہی۔
ان مباحثوں سے کئی اہم باتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ میڈیا نے اگرچہ تینوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے بارے میں ان کے منصوبوں کو کھل کرعوام کے سامنے رکھا مگرجہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو شاید ہی اس کی امید رکھی جاسکتی ہے کہ افغانستان، عراق، فلسطین یا دوسرے تنازعات پر ان کی سوچ میں کوئی نمایاں فرق آسکتا ہے اور وہ اپنے مفادات کے مقابلے میں اس کو تبدیل کر سکتے ہیں گو کہ بعض اوقات ان کی پالیسیوں سے کئی ملکوں کو کافی زک پہنچی ہے۔
دوسری اہم بات یہ مشاہدے میں آئی کہ یہاں کی نسلی اقلیت میں یہ تاثر گہرا ہے کہ یہاں کے پشت درپشت باشندوں کی سوچ کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ قابلیت، باصلاحیت اور ہنر کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی کسی کو ووٹ دیتے ہیں یا اُس کاانتخاب کرتے ہیں۔ شاید یہ سوچ اب بدل گئی ہے ان کے سامنے شکل وصورت، ادا، انداز، ڈریس کوڈ، ڈانٹ ڈپٹ پلانا اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا کافی اہم باتیں ہیں اور جس میں یہ ادائیں موجود ہوں وہ ضرور انتخابات جیت جائےگا۔
اور تیسری بات یہ کہ سیاست دان کتنا بھی جھوٹ بولے اس کو معاف کیا جاسکتا ہے اگر اس کا جھوٹ بولنے کا طریقہ بااختیار اور بااعتماد ہے یعنی جھوٹ اور سینہ زوری ایک ساتھ چلتے ہیں اگر تاریخی طور پر برطانوی پارلیمان کی ہیت تبدیل کرنے کا سہرا میڈیا کو جاتا ہے تو اس کا اور برطانوی ووٹروں کی سوچ بدلنے کااثرافریقہ، ایشیا اور ترقی پذیر ملکوں کی جمہوریتوں پر کتنا پڑےگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
پس ثابت ہوا کہ ميڈيا رائے عامہ درست سمت ميں ہموار کر سکتا ہے ـجہاں تک بات افريقہ و ايشيائی خطہ ميں آنے والی تبديلی کی ہے تو ابھی يہاں کی جمہور ايک انوکھے ارتقائی عمل سے گذررہی ہے۔عوام الناس ميں ميں ميڈيا ہی مغربی جمہوريت سے متعلق واقفيت و آگاہی پھيلارہا ہے۔ہمارے ہاں تو اس اچھے نظام کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی و منشا کے مطابق موڑ کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا ذريعہ بنايا ہواتھا مگر اب يہاں بھی ميڈيا کی مہربانی سے شعور بيدار ہورہا ہے۔شايد آئندہ انتخابی عمل ميں يہاں بھی اسی نوعيت کی انقلابی تبديلی آئے اور ہمارے ہاں بھی ووٹنگ کی شرح حقيقی طور پر بڑھ جائے۔موجودہ وقت تو سياست اور جمہوريت سے عوامالناس کا اعتماد اٹھ چکا ہے
ميڈ م جی ان سب باتوں کو پڑھ کے اپ کے اناز بيان کی تعريف اور اپنے ملک ميں ميں ايسا رائج ھونے کے بارے ميں آہ ھی بھر سکتے ھيں„„نہ جانے ھمارے ترقی پزير معاشر ے کے لے کيا سبق ھے
جس معاشرے کے لوگوں کو محض شکل اور انداز دیکھ کر اپنے رہنما منتخب کرنے کی عادت پڑ جائے وہ معاشرہ جلد زوال پذیر ہو جاتا ہے اور برطانوی معاشرہ بھی آخر کار زوال کی راہ پر چل نکلا ہے باقی رہی یہ بات کہ اس کا ترقی پذیر ملکوں پر کیا اثر پڑے گا تو وہاں پہلے ہی سے یہی رواج چل رہا ہے اور حکمرانوں کا انتخاب نام اور شخصیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نا کہ ان کی پالیسیوں کی بنیاد پر اس لئے ان معاشروں پر پہلے سے زوال مسلط ہے لہٰذا برطانیہ میں آئی تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ ممالک بھی الیکشن سے پہلے امیدواروں کے ٹی وی مباحثے کرانے لگیں۔
چلو مان ليا کہ انتخابی ڈيبيٹ نے برطانوی عوام کی سوچ پہ اثر ڈالا مگر اس کا اثر ايشيا يا افريقہ کے غريب اور کم شرح خواندگی والے ممالک پہ کيسے پڑے گا کيونکہ يہاں تو ميڈيا اور سياستدان آپس ميں مل کر بزنس کرتے ہيں اور ان کی چالوں کا علم عوام کو اليکشن کے بعد ہوتا ہے۔جب اعتبار ہی نہ ہو کسی پر تو دنيا کا کوئی بھی طريقہ کار،قانون،مذہب يانظريہ لوگوں کی سوچ نہيں بدلے گا۔پاکستان ميں تو لوگ اتنے انتہا پسند ہيں کہ جو انکا نظريہ يا کسی نقطہ نظر کی جماعت سے ہمدردی رکھتے ہيں اخبار بھی اسی نظريہ کا پڑتے ہيں باقی اخباروں يا خبروں کو جھوٹ کہ کر نظر انداز کرديتے ہيں مثلا„ ٹيوی پہ ہونے والے مباحثے ميں نواز ليگ کا ہمدرد پی پی پی يا کسی اور جماعت کے ليڈر کی بات تک نہيں سنے گا۔آپ کا يہ بلاگ شايد برطانيہ ميں مقيم پاکستانيوں کے ليۓ تو اہم ہوگا مگر پاکستان کے قائرين کے ليۓ ايک بور مضمون ہے۔
در اصل انتخابات کى هار جيب اس پر منحصر هوتا هے که کون سا سياستدان کتنا جهوٹ جهوٹ بولتا هے اور اس کے ذريپعے کتنے لوگوں کو گمراه کرنے ميں کامياب هوتا هے، رهى بات دوسرے ممالک پر ان انتخابات کى اثرات کى تو جب طاقتور ممالک ذرا سے هى کهانستے هيں تو هميں زکام اور کهانسى بس اسى وقت هى لگ جاتى هے .....شکريه
نعیمہ جی 'واجبات سکینڈل' کے بعد عوام کی سیاست میں دوبارہ شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے اسطرح کی ڈیبیٹ ضروری تھی- کیونکہ پاکستان کے برعکس برطانیہ میں حکومت کے لئے سیاست دانوں کا کوئی متبادل موجود نہیں- سیاست دان جھوٹا ہو سکتا ہے، کرپٹ ہو سکتا ہے، مگر اسکی جڑیں ہمیشہ عوام میں ہوتی ہیں، انکو عوام سے روجوع کرنا ہی پڑتا ہے- یہی وہ موقع ہے جسکا نام جمہوریت ہے، جب عوام رونے بسورنے کی بجاے اپنی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں- لب ڈیم اور ٹوریز مقبولیت میں لیبر سے آگے ہیں، مگر مقبولیت کو ووٹوں میں تبدیل کرنا اگر اتنا آسان ہوتا تو پاکستان میں عمران خان آج پارلیمنٹ سے باہر نہ ہوتے-
ووٹ لينے کا يہ انداز اچہے سياسی سماج کی عکاسی کرتا ہے اور يہ اندازہ آپ نے کيسے لگا ليا کہ پارلياميٹ ميمبروں کے اخراجات کی وجہ سے عام لوگوں کا جمہوريت سے دل بہر گياـ مجہے نہيں لگتا کہ جمہوريت پسند لوگ اتنا جلدی مايوس ہو جائيں اور وہ بہي سنے سنائے قصے کہانيوں پر؟ ہو سکتا ہے کہ سياسی پنڈتوں کے تبصرے غلط ہوں مجہے نہيں لگتا کہ جس ملک ميں جمہور کا نظام اتنا زور پکڑ چکا ہو اس ميں جمہوريت پسند لوگ اتنا جلدی مايوس ہوتے ہوں ـ اب آتے ہيں انتخابی ڈبيٹ پر يہ طريقہ تو ہر ملک ميں ہونا چاہئے خاص طور پر پاکستان ميں تو لازمی ہے جہاں نااھل اميدوار اپنی پارٹی قيادت کے بل بوتے پر اليکشن جيت جاتے ہيں ايسے اميدوار اليکشن ميں کامياب ہو جاتے ہيں جو پارليامينٹ ميں ايک لفظ نہيں بولتے ـ آج بہی يہ چيز رکارڈ پر ہے کہ کئے ميمبران آج بہی اپنے لبوں پر خاموشی کی مہر لگائے ہوئی ہيں اس لئے ضروری ہے کہ ايسے اميدواروں سے بچنے کے لئے برطانيہ جيسی اليکشن ڈبيٹ کا رواج يہاں بہی ہونا چاہئے اور اس کے لئے يہ شرط بہی لازمی ہونا چاہئے کہ عالمی سياست پر جو بيس تيس منٹ بات نہيں کر سکے گا وہ نااہل سمجہا جائےگا اس شرط سے يہ فائدہ ہوگا عام لوگوں کے ووٹ لے کر ان کے حقوق کی بات کرنے کے بجاۓ خاموش تماشائی بنے بيٹہے عوام کے نمائندوں ڈبيٹ والی کسوٹي ميں ہی جان چہوٹ جائے گي ـ اب سينہ زوری کی بات بہی کرتے چليں يہاں جب اميدوار جب ووٹر کے پاس جاتے ہيں کہتے بہی يہ ہيں کے ہم سينہ ٹہوک کے ووٹ ليتے ہيں اورجب ان سے ان ووٹوں کا حساب لياجاتا ہے تو کہتے ہيں کہ آپ نے مجہے ووٹ نہيں دئے تہے آپ نے ووٹ دئے تہے فلاں ليڈر کو اور اب کام بہی جا کر اس کو کہو ـ مجہے تو ايک اميدوار نے يہاں تک کہ ديا کہ ووٹ دينا ہے تو دے دو کام سب کے نہيں ہو سکتے اور ميرے خيال ميں اس سے زيادہ سينہ زوری کسی سوسائٹی ميں نہيں ہوگي ـ
تجزیہ نگاروں، ٹی وی کے بحث مباحثوں اور کم سے کم آدھے درجن ائزوں کے مطابق ٹوریزاور لبرل ڈیموکریٹس حکمران جماعت لیبر پر سبقت لیئے ہوئے ھیں، یہاں تک بھی کہا جا رہا ہے کہ لبرل ڈیموکریٹس کے سربراہ اور وزیر اعظم کے امیدوار "نک کلیگ" کوئی بڑا اپ سیٹ کرسکتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے حالیہ دنوں میں برطانیہ کے تاریخ کی پہلی اور تاریخی ٹی وی ڈیبیٹس میں شاندار کارکردگی دکھانا ہے، مگر اکثریتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ یہ قوی امکان موجود ہے کہ برطانیہ کی یہ پارلیمینٹ معلق مجھے آج تھوڑی سی حیرت تب ہوئی جب میں نے یونہی یہ کہا کہ میں ووٹ لبرل ڈیموکریٹ والوں کو دونگا، جواب ملا کہ وہ صاحب اس مرتبہ بھی لیبر پارٹی والوں کو ہی ووٹ کاسٹ کرینگے، نہ صرف یہ دو بلکہ ان کے سینکڑوں دوستوں اور ساتھیوں کی بھی یہی سوچ ھے، وجہ یہ بتائی گئی کہ لیبر پارٹی والے نہ صرف معیشت میں ماہر ہیں بلکہ ان کے منصوبے بھی اچھے ھیں۔۔۔کم سے کم یہاں جہاں میں رھ رہا ہوں وہاں برطانوی سوچ تو یہی ہے۔