مسلمان کس کو ووٹ دیں گے
برطانوی انتخابی مہم آخری دموں پر ہے۔ بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ چھ مئی کو انتخابی عمل ختم ہو جائے گا جب لوگ اپنے حلقوں سے نئے امیدوار چن لیں گے۔
ووٹروں کی فہرست میں بڑی تعداد میں نسلی اقلیتیں بھی شامل ہیں جن میں بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق مسلمان کُل ساڑھے چھ سو میں سے چالیس سے پچاس حلقوں میں اپنی مرضی کا امیدوار جتوا سکتے ہیں۔ شاید اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف جماعتوں نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ٹکٹیں بھی دی ہیں۔
تاہم جو بات بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے وہ یہ کہ کیا مسلمانوں یا کسی اور نسلی اقلیت کو صرف اس بنیاد پر کسی کو ووٹ دے دینا چاہیے کہ ان دونوں کا مذہب، رنگ یا نسل ایک ہے۔
ایک خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کو ہی ووٹ دینا چاہیے۔ اس سے متضاد رائے یہ ہے کہ صرف مسلمان ہونے سے کوئی شخص مسلمانوں کی آواز نہیں بن جاتا پروگرام دیکھنا چاہیے۔
بریڈفورڈ کے ایک حلقے میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نے بتایا کہ ان کی جماعت میں شامل کچھ مسلمان صرف اس لیے الگ ہو گئے کہ دوسری طرف مسلمان امیدوار تھا۔
ایک اور امیدوار نے جو مسلمان ہیں کہا کہ یہ نفسیاتی حربے ہیں۔'اگر ایک عیسائی کسی عیسائی کو ووٹ دے تو وہ ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو ووٹ دے تو وہ غلط۔'
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پروگرام دیکھے بغیر صرف رنگ، نسل یا مذہب ایک ہونے کی بنیاد پر ووٹ دینا غلط ہے۔ اسی تصویر کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ نسلی اقلیتوں کا مزاج بعض اوقات دوسرے لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
بریڈفورڈ میں ایک صاحب نے کہا کہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو آپ کے لیے بڑی ہوتی ہیں لیکن دوسروں کے لیے ان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک بار ان کے خاندان میں کسی کی وفات ہو گئی اور ان کے پاکستانی باس نے انہیں کام سے جانے دیا تاکہ میں پاکستان جنازے پر پہنچ سکوں۔ 'یہی بات کسی انگریز کو نہیں سمجھا سکتے تھے۔'
تارکین وطن کی پہلی اور دوسری نسل میں بھی سوچ کا فرق ہو سکتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اور اس معاشرے میں وقت گزارنے کے بعد ان کی ترجیحات الگ ہو سکتی ہیں، ان کا طرز زندگی بھی بدل جاتا ہے۔
ایک صاحب کو میں نے ایک نوجوان کو یہ سمجھاتے ہوئے بھی سنا کہ ہمیں ایک بار اپنا امیدوار جتوانا ہے کیونکہ وہ ہمارا طرز زندگی سمجھ سکتا ہے۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی انگریز مسلمانوں کے تحفظات کا زیادہ خیال رکھے تو ہمیں اس کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس کے لیے خِارجہ امور بہت اہم تھے۔
اس کے بر عکس ایک تیسری رائے تھی کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس کی صحت اور اس کی فلاح کو سب سے پہلے رکھنا چاہیے۔ 'اگر ہمارے بچے تعلیمی میدان میں آگے نکلیں گے ان کے مشاغل صحتمند ہوں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔' آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
اسد صاحب انتخابی صورت حال پر مشتمل بلاگ کا سلسلہ خوب ہے اور يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ اپنے مسلمان يا پاکستانی ووٹرز صرف يہ ہی نہيں ديکھتے کہ جس اميدوار کو ووٹ ڈال رہے ہيں وہ مسلمان يا پاکستانی ہے بلکہ ديگر چيزيں مثلا~ پارٹی وابستگی اور اس کی قابليت و اہليت کو بھی ديکھا جاتا ہے۔ اب تک برطانيہ ميں چار پاکستانی نژاد برطانوی دارالعوام کے رکن منتخب ہوتے رہے ہيں وہ سارے کے سارے مسلم اکليتی حلقوں سے جيت کر آتے رہے ہيں جبکہ مسلم اکثريتی پارليمانی حلقوں ميں اپنے لوگوں کی نااتفاقی ، مختلف پارٹيوں کے ساتھ وابستگی اور ايک دوسرے کی ٹانگ کھينچنے جيسی پاليسيوں کی بدولت ناکامی سے دوچار ہوتے رہے ہيں ۔ بريڈ فورڈ کو ہی لے ليں پاکستانی بڑی تعداد ميں آباد ہونے کے باوجود کسی اپنے اميدوار کو پارليمنٹ کيلئے منتخب نہ کروا سکے جبکہ اس سے ملتی جلتی صورت حال ديگر علاقوں ميں بھی نظر آتی ہے
ايک اوربات بھی بڑی اہم ہے کہ يہاں پر تمام پارليمانی حلقے عام حلقے ہيں مسلمانوں کے لئے کوئی مخصوص انتخابی حلقے نہيں ہيں اور مسلمان کہيں سے بھی چاہيں اليکشن ميں حصہ لے سکتے ہيں وطن عزيز پاکستان ميں اقليتوں اور خواتين کے لئے عليحدہ مخصوص نشستيں بھی ہيں اور عام حلقوں سے بھی اقليتی اميدوار يا خواتين اميدوار اليکشن ميں حصہ لے سکتے ہيں اور يوں ايک ٹکٹ ميں دو مزے اڑا سکتے ہيں جبکہ يہاں پارٹی ٹکٹ کی اہميت يقيناُ سب پر بھاری ہے۔
میرے خیال میں برطانوی مسلم نوجوانوں کا نقطہ نظر زہادہ بہتر ہے۔ کیونکہ صرف مذہب کی بنیاد پر کسی کو ووٹ دیا جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے عملاً کچھ نہیں کرتا تو اس سے زیادہ بہتر ہے کہ کسی گورے کو ووٹ دیا جائے تو مسلم کمیونٹی کی بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھا سکے۔
ميرے خيال ميں اگر مسلمان مسلمان کو ووٹ دے تو نسل پرستی اور بڑہے گی کيونکہ جتنا تيل ڈالو آگ اتنی ہی بڑھتی ہے اور اس ۔برائی کے خاتمے کے ليۓ کم از کم مسلمانوں کو تو ساتھ دينا چاہيۓ کيونکہ اسلام ميں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہيں۔ رہی بات کون کس کے ليۓ کتنا فائدہ مند ہے يہ چيز آپ پاکستان جيسے اسلامی ملک ميں رہ کر سمجھ سکتے ہيں جہاں بنيادی حقوق کی کسی کو بھی پرواہ نہيں اور يہ ہی وجہ لوگوں کو بيرون ملک لے جانے کی وجہ بنتی ہے اور اگر بيرون جا کر بھی اپنے قانون لاگو کرنے شروع کرديے تو ايک دن انگلينڈ بھی پاکستان بن جائے گا۔ اس ليۓ جس قوم کا فرد مسائل کا حل جانتا ہے باگ ڈور اسی کے ہاتھ ميں رہنی چاہيۓ۔يہاں تک مذہبی رسومات يا عيد پہ چھٹی کا تعلق ہے وہ تمام اداروں ميں انگريز ديتے ہيں اور ميں بھی کرتا ہوں اور اس طرح کے مسائل زيادہ تر بغير ٹيکس کے کام کرنے والے کو ملتے ہيں۔اگر آپ کرسمس اور ايسٹر پہ بھی چھٹی کريں تو آپ کا باس آپ کو ذاتی رسومات کی چھٹی بمعہ تنخواہ کيونکر دے کيونکہ يہ باقی غير اسلامی سٹاف کی حق تلفی ہوگي۔
صا ب جی اقليت اگر اپنے اميدوار نامزد کر تی ھے اور يہ نا مزدگی پختہ سوچ اور جمھوري طريقے سے آتی ھے تو اسے خوش آئند قرار دينا چاھۓ۔ مسلمان ھو يا کوئی اور اگر وہ اپنے مسائل کو صحیح طور پر ادراک رکھنے والے شخص کے اوپر اپنے مسائل کے حل کی ذمہ داری ڈالتے ھيں تو يہ ٹھيک ھوگا۔مسلمانو ں کو اب يورپی معاشرے کے اندر اپنی ذمہ داريوں سے آگاہ رھنا چاھۓ„„
ووٹ دیتے وقت یہ نہیں دیکھا چاہیے کہ وہ مسلمان ہے یاعیسائی بلکہ شًخصیت اور کردار کو اہمیت دینی چاہیے
اسد صاحب یہ ایک اچھی کوشش ھے جس سے ہمیں اتنی دور بیٹھ کر ایسی معلومات تو حاصل ہوئیں جس سے یہ تو معلوم ہوتا ھے کہ برطانیہ کا مسلمان ووٹر کس طرح سوچتا ھے اور وہ اپنےووٹ کو کس طرح استعمال کرتا ھے کہتے ہیں ووٹ قوم کی امانت ھے اور اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاھیے کیو نکہ غلط ووٹ سے جو امیدوار سامنے آئے گا وہ کبھی قوم کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ووٹ دیتے وقت ہمیں بھی قومی مفاد کو سامنے رکھنا چاھیے۔ ان کالموں سے ہم میں بھی سیاسی شعور اور ووٹ کے درست استعمال کا شعور اُجا گر ہو گا اور آخرکار ہم بھی اُس منزل کو پا لیں گے جس کاخواب قائد اعظم نے دیکھا تھا ایسے کالم لکھنے کا شکریہ
ويسےاليکشن کا تجربہ ہمارا بھی کچھ کم نہيں ہے۔ ہم ہر دو تين سال ميں اليکشن اليکشن کھيلتے رہتے ہيں ہم نے بھی بہت تقريريں سنی، انتخابی منشور پڑھے، وعدے ليئے اور ہمارے بھی جذبات بھڑکے۔ غيرت جاگی کبھی اسلام خطرے ميں ہے سن کر اندر کا مسلمان بیدار ہوا اور کبھی نسل و زبان کيلئے عصبيت نے انگڑائی لی تو کبھی صاحبِ کردار اور تعليم يافتہ اميدواروں کو کامياب کروايا مگر نتيجہ وہ ہی ہر بار والا جو جيتا ايک بار وہ پھر واپس نہيں آيا۔ مگر سارے ہی لوگ ہماری طرح کے نہيں ہيں۔ اليکشن تو ان کيليے بڑے فائدے مند ہوتے ہيں ان کے علاقوں ميں کام بھی ہوئے کيونکہ انھوں نے مذھبي،نسلی اور پڑھے لکھے اميدواروں کی بجائے ايسے لوگوں کو منتخب کيا جو ہار کر بھی وہيں رہے اور جيت کر بھی علاقہ نہ چھوڑا بلکہ بار بار انھی دو تين لوگوں کو جتوايا۔ انھوں نے صرف کام اور تجربہ ديکھا جسکا فرق ہم اچھی طرح ديکھ سکتے ہيں انکے علاقوں ميں ترقياتی کام بھی ہوئے اور علاقوں ميں امن امان بھی رہا۔ جبکہ ہم نے پڑھے لکھے مذھبی صاحب کردار اپنی قوم کے اميدواروں کو منتخب کروايا نتيجاتاً ہمارا علاقہ ترقی سے محروم فساد و انتشار کا شکار رہا
ميرا مفت مشورہ ہے ان لوگوں کيلئے جہاں اليکشن ہوں کہ وہ دیکھیں کون زيادہ کام کراسکتا ہے کون اچھا انسان ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھي نسل سے ہو کسی بھی مذھب سے تعلق ہو آپ کيلئے بہترين ثابت ہوگا
بھئی آپ لوگ اپنے علاقے کی اچھی شخصیت کو ووٹ دیں جو آپ کی خدمت کر سکتا ہے۔صوبہ بلوچستان bahi
آپ کا پاکستاني نژاد ووٹر ميرٹ نظرانداز کرکے فقط ذات برادری اور مذہب کی بنياد پر ووٹ ديتا ہے اور پھر نظام کو روتا ہے - انہي صفحات پر ذوالفقارعلي کي ميرپوريوں پر رپورٹ پڑھ کر نہايت افسوس ہوا کہ يہ لوگ وہاں جا کر بھي نہيں بدلے - ميں خود کشميري النسل ہوں اور اس ماحول سے واقف ہوں جہاں خوفِ برادري خوفِ خدا پر حاوي رہتا ہے - خدا ہدايت دے ان بزرگوں کو جو خود تو سدھر نہ سکے اب اولادوں کو بھی باندھ رکھا ہے -
قریبآ ہر ملک میں حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے والوں میں بوڑھے، جوان، گرلز، بوائز، سنجیدہ، غیر سنجیدہ، لبرل، مذہبی، سیکولر، پڑھے لکھے، نیم پڑھے لکھے، دکاندار، تاجر، بزنس مینز، ملازم پیشہ طبقہ، اقلیتیں، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے، خارجہ پالیسی و داخلہ پالیسیوں کو ترجیح دینے والے الغرض ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ووٹرز کا ووٹ دینے کا معیار و سٹینڈرڈ بھی یقنینآ مختلف ہو گا۔ کسی ایک طبقہ یا سوچ سے تعلق رکھنے والے کے لیے وہی امیدوار زیادہ فِٹ بیٹھے گا جو اس طبقہ یا سوچ سے تعلق رکھتا ہو اور انکی سوچ و طبقے کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتا ہو۔ چونکہ بی بی سی کے ملک برطانیہ کے لوگوں میں شرح تعلیم اور روشن خیالی قابلِ اطمینان حد تک پائی جاتی ہے لہذا وہاں پر ووٹرز کو مجموعی طور پر ‘پڑھا لکھا ووٹر‘ کہا جائے گا جس کے نتیجہ میں ووٹ کے غلط امیدوار کو کاسٹ ہونے کا چانس آٹے میں نمک کے برابر ہو گا۔ جہاں تک اقلیتوں کی بات ہے تو اس بابت مودبانہ عرض ہے کہ مسلمانوں کو مسلمان امیدوار کو ہی ووٹ دینا چاہیے اور یہ بات تاریخ سے اخذ کی گئی ہے۔ اوبامہ سے مسلمانوں کو بہت سے توقعات وابستہ تھیں اور اسی لیے انہیں ووٹ دیا لیکن بہت سے مسلمان اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اوبامہ اور بش کی پالیسیوں میں سوائے لفاظی کے ھیرپھیر سے کوئی خاص فرق نہیں۔ جو لوگ نام نہاد روشن خیال بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مسلمان کو ووٹ دینے سے مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا تو ان کو غیرمسلم امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے، تو پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان، مسلمان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا تو غیرمسلم کیونکر پار لنگھا سکتا ہے؟ حاصل کلام یہ کہ ووٹر اپنا ووٹ اسی امیدوار کو دیتا ہے جہاں سے اس کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کی جانب پیش رفت ہونے کی توقع ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فرض کر لیا کہ نام نہاد دو نمبر سفارشی موڈریٹر یونین الیکشن میں کھڑا ہو جاتا ہے اور معزز قارئین سے ووٹ کی پرارتھنا کرتا ہے۔ خاکسار کے لیے اس کو ووٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ موڈریٹر فدوی کے تبصرے بغیر کسی ٹھوس و حقیقت پسندانہ وجہ کے سالم کے سالم تبصرے کھائی جا رہا ہے اور اس کا پیٹ بھرنے کو ہی نہیں آتا۔ جب یہ موڈریٹر فدوی کو گھاس نہیں ڈالتا تو مجھے کیا ضرورت ہے اس کو ووٹ دے کر جتوانے کی؟ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک سے نہیں۔
پسند بھی اپنی اپنی اور امیدیں بھی اپنی اپنی ۔